لاہور میں پہلی بار جدید برقی ٹرام سروس کے آغاز کے بعد وہاں کے شہری خوش ہیں اور اسے شہر کی ترقی کا ایک اہم قدم قرار دے رہے ہیں، لیکن کراچی کے عوام میں شدید احساسِ محرومی پایا جا رہا ہے۔ لاہور میں چلنے والی یہ برقی ٹرام چین سے درآمد کی گئی ہے جس میں قریباً 250 مسافروں کی گنجائش ہے اور یہ ایک بار 10 منٹ چارج کرنے پر 25 سے 27 کلومیٹر کا سفر کر سکتی ہے۔

کراچی میں عوامی نقل و حمل کے نظام کی خراب حالت، سڑکوں کی خستہ حالی اور ٹرام جیسی سہولیات کی عدم موجودگی شہریوں کے روزمرہ مسائل کو مزید بڑھا رہی ہے جس کے باعث شہریوں نے لاہور کی ٹرام سروس پر خوشی منانے کی بجائے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ناقابل یقین! پنجاب میں ربڑ کے ٹائروں پر چلنے والی ٹرین آگئی‘

مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شہریوں نے لاہور میں ٹرام کی سہولت ملنے کو خوش آئند تو قرار دیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ کراچی میں بس اور سڑکوں کی حالت بھی بہتر نہیں، وہاں ٹرام کی بات کرنا ابھی دور کی بات ہے۔

عوام کی جانب سے مختلف انداز میں اس صورتحال پر ردعمل دیا جا رہا ہے۔ کئی صارفین نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اس کی تعریف کی تو کئی صارفین دوسرے شہروں میں بھی ایسی سہولیات کا مطالبہ کرتے نظر آئے، ریشم سلیم نےٹرام کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لندن کے کسی شہرکا نہیں بلکہ لاہور کا نظارہ ہے۔

یہ لندن کے کسی شہرکا نہیں بلکہ لاہور کا نظارہ ہے ❤️❤️???????????? pic.

twitter.com/B2C5BZIrW8

— Resham Saleem???????????? (@ReshamSaleem3) August 6, 2025

 صارفین ٹرام چلنے پر کراچی میں بھی ایسی ٹرام کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ شمع جونیجو نے کہا کہ کیا یہ ٹرام ہمیں کراچی میں مل سکتی ہے؟

Can we have this tram in Karachi ????pic.twitter.com/85K1mVKwTN

— Dr Shama Junejo (@ShamaJunejo) August 6, 2025

ایک صارف نے طنزاً لکھا کہ کراچی میں پہلے سڑکیں تو بنا لیں۔

Road to bna lo pehlai Karachi mai https://t.co/AuxC97sH6b

— Ammar (@chai___pani) August 6, 2025

سیما فرحت لکھتی ہیں کہ کراچی والوں کے ایسے نصیب کہاں؟ یہ شہر تو صرف دیتا ہے اسکو ملتا کچھ نہیں۔

کراچی والوں کے ایسے نصیب کہاں؟ یہ شہر تو صرف دیتا ھے اسکو ملتا کچھ نہیں https://t.co/gYrquRVvd4

— Seema Farhat (@FarhatSeems) August 6, 2025

ایک صارف کا کہنا تھا کہ جب تک پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ایسا ہونا ناممکن ہے۔

جب تک پیپل پارٹی ہے ناممکن ہے ! https://t.co/JTdpaGWW94

— Rana ???????????????????????? (@Ranajp123) August 6, 2025

ساجدہ نامی صارف نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ وفاقی پراجیکٹ بھی صرف لاہور کے لیے ہیں کمائے کراچی اور عیاشی کرے لاہور۔

نہیں وفاقی پراجیکٹ بھی صرف لاہور کے لئے ہیں
کمائے کراچی
عیاشی کرے لاہور۔۔۔۔ https://t.co/AzhgLs1Taz

— Sajida (@Sajida06420233) August 6, 2025

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پیپلز پارٹی ٹرام کراچی کراچی کی سڑکیں لاہور مسلم لیگ ن

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کراچی کراچی کی سڑکیں لاہور مسلم لیگ ن کراچی میں لاہور میں ٹرام کی

پڑھیں:

بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ تبدیلی کی رفتار وقت کے ساتھ تیز تر ہو رہی ہے، بلکہ اب تو رفتار اس قدر تیز ہے کہ انسان کو ان تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملانا اور سانس بحال رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ 70 کی دہائی میں امریکا کے ایک معروف ماہر سماجیات ایلون ٹافلر نے دو کتابوں (Third Wave & Future Shock) میں ایجادات کے حوالے سے دنیا کے بدلاؤ کی تاریخ اور نئے امکانات کا چشم کشا تجزیہ پیش کیا۔ خلاصہ یہ تھا کہ ایک وقت تھا دنیا کے ایک سرے سے آخری سرے تک انسانی ایجاد کو پہنچنے میں 800 سال لگ جاتے لیکن صنعتی ترقی کے دور اور بڑے بڑے شہروں میں یونیورسٹیز، تحقیقات، لیبارٹریز اور ٹیکنالوجیز کے مراکز قائم ہونے سے تبدیلیوں کا یہ سفر صدیوں سے سکڑ کر مہینوں بلکہ ہفتوں میں سمٹ آیا ہے۔

گزشتہ تین چار صدیوں سے نئی ایجادات کے مراکز امریکا، یورپ یا دیگر ممالک میں ہیں جب کہ مسلمانوں کے ہاں کوئی ایک بھی ایسا مرکز موجود نہیں۔ اسی لیے جدید ایجادات میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں کے دوران البتہ ایشیاء کے کئی ممالک نے صدیوں کا سفر دہائیوں میں طے کرکے امریکا اور یورپ کی ہمسری کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ فی زمانہ نئی ٹیکنالوجیز اور موزوں کاروباری ماحول یعنی ایکو سسٹم جدت اور ایجادات کے نئے مراکز تشکیل دے رہا ہے۔ 

صنعتی ترقی اب چوتھے دور یعنی 4.0 میں سرپٹ دوڑ رہی ہے جہاں ٹیکنالوجیز اور ایجادات کا نیا جہان تشکیل پارہا ہے۔ نئے پیٹنٹس اور نئے سائنسی خیالات پر مبنی تحقیقی پیپرز کی اشاعت اب تک عالمی ایجاد سازی ماپنے کے معروف پیمانے تھے مگر اس سال کا گلوبل انوویشن انڈکس 2025 جسے یو این او کا ادارہ WIPRO ترتیب دیتا ہے، اس میں ایک تیسرا فیصلہ ساز پہلو بھی شامل کیا گیا، یعنی وینچر انویسٹمنٹ کی فراہمی۔ تیسرے عنصر کی شمولیت سے اس سال کی گلوبل رینکنگ گزشتہ سالوں سے مختلف ہے مگر مستقبل کے ٹیکنالوجی مراکز، ممالک اور شہروں کا پتہ دیتی ہے جو آنے والے سالوں میں دنیا پر ایجادات اور جدت طرازی کے راہبر ہوں گے۔ 100 ایسے مراکز کی فہرست میں پہلے 50 میں کوئی مسلم ملک موجود نہیں۔ 51 سے 100 کی فہرست میں چار مسلم ممالک شامل ہیں، ترکی 58ویں، ایران 64 ویں، مصر 83ویں اور ملائیشیا 86ویں نمبر پر ہے…!

دنیا کا منظرنامہ بدل رہا ہے، جو کل خواب تھا، آج حقیقت ہے اور جو آج حقیقت ہے، کل فرسودہ لگے گا۔ گلوبل انوویشن انڈیکس 2025 کی حالیہ رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل کے قلعے تلواروں یا توپوں سے نہیں بلکہ جدت، اختراع اور ٹیکنالوجی کے ایوانوں میں تعمیر ہوں گے۔ معیشت اور معاشرت کے مراکز اب وہاں نہیں جہاں بندرگاہیں یا تیل کے کنویں ہیں بلکہ وہاں ہوں گے جہاں نئی ایجادات کو جنم دینے کے لیے دماغ، تحقیق اور سرمایہ یکجا ہوتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے ٹاپ 100 انوویشن کلسٹرز ستر فیصد عالمی پیٹنٹ فائلنگز اور وینچر کیپیٹل ڈیلز کے حامل ہیں۔ گویا دنیا کا بیشتر دماغ اور سرمایہ چند مخصوص جغرافیوں میں سکڑ کر رہ گیا ہے۔ اگر نظر ٹاپ ٹین پر ڈالیں تو وہ اکیلے ہی تقریباً چالیس فیصد پیٹنٹ اور پینتیس فیصد سرمایہ کاری کے حامل ہیں۔ شینزین، ٹوکیو، سان ہوزے، بیجنگ اور سیول جیسے مراکز آنے والے کل کے عالمی ٹیکنالوجی نقشے کے خدوخال طے کر رہے ہیں۔ یہ شہر صرف جغرافیائی شناخت نہیں ہیں بلکہ یہ طاقت کے نئے مراکز ہیں یعنی نئے روم، نئے بغداد!

چین اس رینکنگ میں 24 کلسٹرز کے ساتھ ٹاپ پر ہے جس سے اس نے یہ ثابت کیا کہ تحقیق اور سرمایہ کاری کا ملاپ کس طرح عالمی طاقت کا روپ دھارتا ہے۔ امریکا کے 22 کلسٹرز سلیکان ویلی سے لے کر مشرقی ساحل تک پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا بھر سے ٹیلنٹ کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ جرمنی نے اپنے سات یونیورسٹی شہروں کو انوویشن ہب میں بدلا ہے۔ بھارت نے چار کلسٹرز کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر تعلیمی ادارے اور صنعت ایک دوسرے سے جڑ جائیں تو ترقی یافتہ دنیا کے برابر کھڑا ہونا ممکن ہے۔

پاکستان کا معاملہ اس تناظر میں افسوسناک ہے۔ ہماری مجموعی درجہ بندی 99ویں ہے، اور ہمارے کسی شہر نے ٹاپ 100 کلسٹرز میں جگہ نہیں بنائی۔ بلاشبہ ہمارے طلبہ مقالے لکھتے ہیں، تحقیقی جرائد میں نام چھپتے ہیں، آئی ٹی ایکسپورٹ کے اعدادوشمار کچھ امید دلاتے ہیں، مگر جہاں اصل کھیل کھیلا جا رہا ہے… یعنی R&D کی سرمایہ کاری، وینچر کیپیٹل کا بہاؤ، اور پالیسیوں کا تسلسل… وہاں ہم غائب ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں، ایک رویہ ہے۔ ہمارے ہاں سرمایہ کار زمین اور پلازے خریدنے کو تو تیار ہے، لیکن کسی نئے آئیڈیا پر پیسہ لگانے کو حماقت سمجھتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر بجٹ مختص کرنے سے زیادہ کانفرنسوں میں تقاریر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہماری جامعات مقالے تو شایع کرتی ہیں مگر صنعت کے ساتھ ربط قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے بہترین دماغ یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر تدریس اور بیوروکریسی میں کھپ جاتے ہیں، جہاں ان کی صلاحیتیں عالمی دوڑ کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتیں۔

ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں ذہین افراد موجود نہیں۔ بے شمار انفرادی مثالیں ہیں جو حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہیں۔ ہمارے ایک دوست کنور حیدر ہیں، ٹیکسٹائل پروفیشنل ہیں اور اسی شعبے کی تدریس و تحقیق سے وابستہ ہیں، انھوں نے ہمیں گزشتہ ہفتے ایک ایسے ہی عالی دماغ سے ملوایا۔ تحصیل میلسی کے گاؤں کرم آباد سے ایک عام گھرانے کی بچی رمشا بابر نے ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور سے میتھ میں ایم فل کرنے کے بعد تھائی لینڈ کی Thammasa University سے فل اسکالر شپ پر اسی مضمون میں بلیک ہول پارٹیکلز کی رفتار کو ایک نئے خیال پر جانچنے کو موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ ڈاکٹر رمشا اسی موضوع پر اب پوسٹ ڈاکٹریٹ کی خواہشمند ہیں۔ اس سے قبل ایک عزیز کی بیٹی نے بتایا کہ وہ فزکس میں اسکالرشپ پر چین کے شہر ووہان میں پی ایچ ڈی کرنے جا رہی ہے۔ یہ نوجوان امید دلاتے ہیں کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

گلوبل انوویشن انڈیکس 2025 کا سبق یہی ہے کہ مستقبل ان کا ہے جو اپنے نوجوانوں کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں، جو تحقیقی مقالوں کو کاروباری ماڈل بناتے ہیں اور جو سرمایہ زمینوں اور پلازوں کے بجائے آئیڈیاز میں لگاتے ہیں۔ یہی راستہ ہے جس سے ہم اپنی معیشت کو دلدل سے نکال کر ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں اور یہی وہ سبق ہے جو ہمیں دنیا کے صف اول کے ٹیکنالوجیز کلسٹرز سے سیکھنا چاہیے۔ ورنہ ہم ایک بار پھر تماشائیوں کی صف میں کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟
  • ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟
  • کراچی نے کبھی کسی کی بدمعاشی قبول نہیں کی، خالد مقبول صدیقی
  • جاگیردارنہ نظام کو ایم کیو ایم ہضم نہیں ہوتی، خالد مقبول صدیقی
  • ہمارے بجلی بلوں پر دیکھا جائے تو کئی ٹیکسز ادا کررہے ہیں، خواجہ اظہار الحسن
  • ہمارے بجلی بلوں پر دیکھا جائے تو کئی ٹیکسز ادا کررہے ہیں، خواجہ اظہار
  • کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن کی گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ میں توسیع کی درخواست
  • جدہ سے واپس لاہور آنے کے منتظر عمرہ زائرین مشکلات کا شکار
  • 5 مرتبہ ایم این اے بنا ہوں، اپنی جیب سے ایک روپیہ خرچ نہیں کیا: خالد مقبول
  • ’آپ سے پاسپورٹ کے لیے شادی کرنا چاہتا ہوں‘، بھارتی شخص کی لڑکی سے دلچسپ گفتگو وائرل