زہران ممدانی کو میئر بننے سے روکنے کیلئے ارب پتیوں نے کروڑوں ڈالر بہا دیئے، امریکی اخبار کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
تمام سرویز میں زہران ممدانی کو سب سے مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا تھا۔ سابق نیویارک میئر مائیکل بلوم برگ نے ممدانی کے حریف اینڈریو کومو کو انتخابی مہم کے لیے 15 لاکھ ڈالر عطیہ کیے، جبکہ دیگر سرمایہ کاروں نے بھی اسی مقصد کے لیے خطیر رقوم فراہم کیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ نیویارک کے حالیہ میئر الیکشن میں مسلم امیدوار زہران ممدانی کو کامیاب ہونے سے روکنے کے لیے 26 ارب پتیوں اور ان کے خاندانوں نے مل کر 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زائد رقم خرچ کی۔ رپورٹ کے مطابق یہ ارب پتی مختلف سیاسی و کاروباری حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا مقصد ممدانی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنا تھا۔ تمام سرویز میں زہران ممدانی کو سب سے مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا تھا۔ سابق نیویارک میئر مائیکل بلوم برگ نے ممدانی کے حریف اینڈریو کومو کو انتخابی مہم کے لیے 15 لاکھ ڈالر عطیہ کیے، جبکہ دیگر سرمایہ کاروں نے بھی اسی مقصد کے لیے خطیر رقوم فراہم کیں۔
تاہم رپورٹ کے مطابق صرف دو ارب پتی افراد نے زہران ممدانی کی حمایت کی۔ ان میں ارب پتی ایلزبتھ سمنز اور GitHub کے شریک بانی ٹام پریسٹن ورنر شامل ہیں۔ ایلزبتھ سمنز نے ڈھائی لاکھ ڈالر اور پریسٹن ورنر نے 20 ہزار ڈالر ممدانی کی مہم کے لیے عطیہ کیے۔ انتخابات میں زہران ممدانی کی جیت کے بعد نیویارک کے کئی مال دار کاروباری افراد نے محتاط حمایت کا اعلان کیا۔ معروف ارب پتی بل ایکمین (Bill Ackman)، جو ممدانی کے بڑے ناقد سمجھے جاتے تھے، اب ان کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ اسی طرح وال اسٹریٹ کے معروف سرمایہ کار رالف شلوسٹائن (Ralph Schlosstein) نے کہا کہ سخت انتخابی مہم کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ نیویارک متحد ہو کر آگے بڑھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: زہران ممدانی کو لاکھ ڈالر ممدانی کی ارب پتی مہم کے کے لیے
پڑھیں:
نیویارک کے میئر زہران ممدانی کی کامیابی پر دنیا بھر میں جشن، پاکستانی شوبز شخصیات کی مبارکباد
زہران ممدانی کی بطور میئر کامیابی پر نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے، پاکستانی شوبز شخصیات نے بھی ان کی تاریخی جیت پر مبارکباد پیش کی۔امریکا کے شہر نیویارک میں زہران ممدانی تاریخ رقم کرتے ہوئے میئر کے عہدے پر فائز ہوگئے، وہ اس عہدے پر پہنچنے والے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد شخص ہیں۔زہران ممدانی کا منشور سستی رہائش اور کثیرالثقافتی ہم آہنگی پر مبنی تھا، جو دنیا کے مہنگے اور مصروف ترین شہروں میں سے ایک میں بے حد مقبول ہوا، انہیں 20 لاکھ سے زائد ووٹوں میں سے نصف سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔اس موقع پر بھارت اور پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین بھی ایک بات پر متفق نظر آئے کہ کاش زہران ممدانی ان کے بھی میئر ہوتے۔ان کی انتخابی مہم سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں چلائی گئی، جس کا انداز موجودہ نسل یعنی ملی نیئلز سے مطابقت رکھتا تھا، مہم کے اختتام پر انہوں نے نیویارک کے مشہور سب وے نظام کی ایک 10 سیکنڈ کی ویڈیو شیئر کی جس میں وہ کہتے نظر آئے کہ اگلا اسٹاپ، سٹی ہال۔پاکستانی شوبز شخصیات نے بھی زہران ممدانی کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا۔نیویارک میں مقیم اور زہران ممدانی کے دوست گلوکار علی سیٹھی نے انسٹاگرام پر بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ نیویارک میں ووٹ دیا، جو زہران ممدانی کے لیے تھا۔زہران ممدانی کی کامیابی پر انٹرنیٹ پر جشن کا سماں ہے، ان کے حامی نیویارک کے شہری ہونے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔میزبان شائستہ لودھی نے کہا کہ زہران ممدانی نے ثابت کیا ہے کہ اصل تبدیلی تب آتی ہے جب آپ لوگوں تک ان کی زبان میں پہنچیں اور ان کی عزت و وقار کے لیے جدوجہد کریں۔آسکر کے لیے نامزد فلم ساز میرا نائر کے بیٹے زہران ممدانی نے اپنی فتح کی تقریر میں بولی وڈ کا رنگ بھی شامل کیا۔انہوں نے اپنے اہلخانہ کو اسٹیج پر بلانے سے قبل 2004 کی بولی وڈ فلم ’دھوم‘ کا مشہور ٹائٹل ٹریک بجایا۔اداکارہ میرا نے بھی زہران ممدانی کی جیت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی والدہ کو مبارکباد پیش کی۔صحافی مہدی حسن نے زہران ممدانی کی جیت کو نسل پرستی کے خلاف ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے مذاق میں لکھا کہ زہران ممدانی اتنی کم عمری میں اتنے کامیاب ہوگئے ہیں کہ اب شادیوں میں آنٹیاں نوجوانوں کو مسترد کرنے کے لیے نئے معیار طے کریں گی۔انتخابی مہم کے دوران زہران ممدانی کو نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کا سامنا بھی کرنا پڑا، امریکی صدر نے انہیں یہودی مخالف کہا، جب کہ ہاتھ سے کھانا کھانے پر بھی مذاق اڑایا گیا. ان تمام چیلنجز کے باوجود ان کی جیت کو امریکا میں مسلمانوں کے لیے ایک تاریخی موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔تاہم، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ زہران ممدانی اپنے بلند بانگ اہداف میں سے کتنا حاصل کر پاتے ہیں، کیونکہ انہیں امریکا کے امیر طبقے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو ان کے حریف اینڈریو کومو کے حامی تھے کی مخالفت کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔فی الحال نیویارک سمیت دنیا بھر کی نظریں امریکی سیاست کے اس نئے دور پر مرکوز ہیں، ایک ایسا دور جس میں امید ہے کہ شمولیت، برابری اور سماجی انصاف کو حقیقی طور پر سیاست میں جگہ ملے گی۔