Express News:
2025-08-07@23:21:18 GMT

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT

موجودہ حالات کے تناظر میں عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کو دنیا بھر میں بالعموم اور ایشیا میں بالخصوص نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان کی حیثیت عالمی سطح پر مسلمہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی عالمی سیاست میں پاکستان کے کردارکو اہمیت دی جا رہی ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خود آگے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی پرجوش قیادت میں بھارت سے جنگ جیتنے کے بعد پوری دنیا میں نہ صرف پاکستان کی عزت و وقار میں اضافہ ہوا بلکہ امریکا، یورپی اور مغربی ممالک میں ہماری اہمیت اور حیثیت کو پوری طرح سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔

جغرافیائی، سیاسی، نظریاتی اور معاشی اعتبار سے پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک، اسلامی دنیا اور عالمی برادری سے خارجہ تعلقات کی بنیاد کیا ہو اور کیا نہ ہو، یہ موضوع آج کی عالمی سیاست میں ماہرین، مفکرین، مدبرین، تجزیہ نگاروں اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان اب زیر بحث آتا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قیادت عالمی برادری اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات استوار کر رہی ہے ۔برادر عرب ممالک میں سعودی عرب، بحرین، قطر اور بنگلہ دیش کے علاوہ ایران کے ساتھ ہمارے ہمیشہ سے دوستانہ مراسم رہے ہیں۔

ایران ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو تسلیم کیا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا اور تہران کی بھرپور سفارتی حمایت حاصل رہی۔

28 مئی 1998 کو جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا تو ایران میں اس خوشی کے موقع پر باقاعدہ جشن منایا گیا تھا، بعینہ 13 مئی 2025 کو جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان نے برادرانہ مراسم کا حق ادا کرتے ہوئے اسرائیلی حملوں کی خدمت اور ایران کی بھرپور حمایت کی اور ایران اسرائیل جنگ رکوانے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا تو ایرانی پارلیمنٹ میں ’’تشکر پاکستان، تشکر پاکستان‘‘ کے نعرے لگائے گئے جو ایران کے پاکستان سے دوستی کے اظہار کی علامت ہے۔

اسی پس منظر میں گزشتہ ہفتے ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پاکستان کا دو روزہ سرکاری دورہ کیا تاکہ وہ ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کے مثبت کردار ادا کرنے کا ذاتی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کر سکیں۔ صدر پزشکیان کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ تھا، اس دورے کے دوران انھوں نے صدر مملکت آصف زرداری، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور وفاقی وزرا سے بھی تفصیلی ملاقاتیں کیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر پزشکیان کے مابین ہونے والی ملاقات کے دوران علاقائی و عالمی معاملات کے پہلو بہ پہلو کئی دیگر موضوعات اور مسائل پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی جن میں پھلوں، چاول، گوشت کی برآمد، سرحدی بازاروں کو فعال کرنے سمیت دو طرفہ تجارتی حجم کو تین ارب ڈالر سالانہ سے بڑھا کر دس ارب ڈالر کرنے کے معاہدات شامل ہیں۔

ایران سلک روڈ اور گوادر تا چاہ بہار منصوبوں میں اشتراک اور زمینی رابطے بڑھانے پر بھی متفق ہے۔اگرچہ ایران پاکستان تجارتی معاہدے کے حجم میں 10 ارب ڈالر سالانہ تک لے جانے کے عزائم کا اتفاق کیا گیا ہے، تاہم مبصرین و تجزیہ نگار یہ اندیشے بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکی پابندیوں کے باعث اتنے بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے درمیان میں حائل کئی رکاوٹوں کو بھی عبور کرنا پڑے گا۔

گزشتہ پانچ سالوں کے درمیان ایران کے لیے پاکستانی برآمدات کا حجم محض ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر تک تھا۔ خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے کہ اگر ایران نے ایٹمی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے پیش قدمی جاری رکھی تو اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سردست تو امریکا مطمئن ہے کہ اس نے ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دی ہیں اور ساتھ ہی ایران کو انتباہ کر دیا ہے کہ اگر اس نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوئی جرأت کی تو اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑے واضح طور پر ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران کو پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی حاصل کرنے کا اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت پورا حق حاصل ہے۔

یہ امریکی پابندیوں کے ہی ثمرات ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبہ ابھی تک پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا ہے۔ ایرانی صدر کے حالیہ دورے کے دوران بات چیت میں اس مسئلے کو کورٹ کے بجائے اتفاق رائے سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

صدر پزشکیان نے اس گرم جوشی کا مظاہرہ کیا کہ ایران پاکستان کو اپنا ہمسایہ نہیں بلکہ بھائی سمجھتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف کا اظہار کیا کہ اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ صدر پزشکیان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایران کے دورے کی دعوت بھی دی۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ایرانی صدر کے دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کا خاتمہ اور تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: وزیر اعظم شہباز شریف صدر پزشکیان کے درمیان ایران کے کے لیے

پڑھیں:

’یوم استحصالِ کشمیر‘ اور عمران خان حکومت کی سفارتی ناکامی

آج 5 اگست 2019 کو کشمیری عوام پر بھارت کے جبری تسلط کے اس خوفناک اور افسوس ناک واقعے پر ’یومِ استحصال کشمیر‘ منایا جا رہا ہے۔

اس دن بھارتی حکومت نے یک طرفہ طور پر اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر دیا تھا اور ’جموں کشمیر‘ کی خصوصی حیثیت کو بغیر کسی رکاؤٹ کے مؤثر طریقے سے ختم کر دیا تھا۔

بھارت کا یہ ایک ایسا اقدام تھا جس نے نہ صرف خطے کے قانونی اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے رکھ دیا، بلکہ 1972 کے دوطرفہ شملہ معاہدے کی بنیادوں اور روح کو بھی مسخ کر کے رکھ دیا، وہ ’شملہ معاہدہ‘ جو تنازعات کو کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اہم دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے۔

1971 کی جنگ کے بعد ہونے والے اس ’شملہ معاہدے‘ کو ایک سفارتی سنگ میل کے طور پر سراہا گیا تھا۔ اس میں دو طرفہ بات چیت، خودمختاری کے باہمی احترام اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے تقدس کو بحال رکھنے، اسے یک طرفہ طور پر قطعاً تبدیل نہ کرنے اور تنازع کشمیر کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

اس میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک میں سے کوئی بھی کشمیر تنازع پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، اس معاہدے کے تحت مکمل سفارتی، تجارتی اور عوام سے عوام کے درمیان تعلقات بحال کرنے اور طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کا بھی عہد کیا تھا۔

تاہم، وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی نگرانی میں بھارت کی 2019 کی آئینی حکمت عملی نے نہ صرف اس معاہدے کی روح کو پامال کیا بلکہ یہ معاہدہ عملاً بے اثر ہو کر رہ گیا۔

بھارت نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35-اے کا خاتمہ کر کے مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا، جو شملہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے ایک کھلا پیغام بھی تھا۔

اس پر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کے اس انتہائی قدم کے باوجود اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی حکومت مؤثر ردعمل دینے یا پیشگی بین الاقوامی سفارتی دباؤ ڈالنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

شملہ معاہدے جیسی اہم دستاویز ہونے کے باوجود 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے آئینی تبدیلیوں کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنا اس معاہدے کی روح اور متن دونوں کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

پاکستان میں اس وقت کی عمران خان حکومت نے بھارت کے اس اقدام پر اگرچہ اپنے بیانات میں سخت لہجہ اپنایا، مگر ’شملہ معاہدے‘ جیسی اہم دو طرفہ دستاویز ہونے کے باوجود کوئی پیشگی حکمتِ عملی یا سنجیدہ سفارتی کوششیں نظر نہ آ سکیں۔

گو کہ پاکستان میں عمران خان حکومت نے بھارت کے یک طرفہ اقدام اور تنازع کشمیر کی اس سنگینی کو اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر اٹھایا، مگر نہ کوئی قرارداد منظور ہوئی، بھارت پر پابندیاں لگیں نہ کوئی عملی دباؤ پڑا۔ عالمی طاقتیں خاموش رہیں یا پھر غیر جانبدار رہیں۔

یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ عمران خان حکومت نے متعدد اندرونی و بیرونی رکاوٹوں کے بہانے پاکستان کی جانب سے بھارت کو مؤثر جواب دیا نہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو لے کر بھارت کے اس جابرانہ تسلط کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جانے کی کوئی سہی کی گئی۔

عمران خان حکومت بھارت کے اس اقدام سے بخوبی آگاہ بھی تھی، لیکن 5 اگست 2019 سے قبل، عمران خان حکومت عملاً عالمی سطح پر بھارت پر پیشگی سفارتی دباؤ بڑھانے میں ناکام رہی۔

بھارت کی ممکنہ کارروائی پر کوئی عالمی تشویش پیدا کی گئی، نہ اس حوالے سے کشمیری قیادت سے کوئی مؤثر یا سنجیدہ روابط قائم کیے گئے۔

یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ عمران خان حکومت کی جانب سے ’ہر آپشن میز پر ہے‘ جیسے بیانات نے عوامی توقعات تو بڑھا دیں، لیکن عملی طور پر بھارت کے خلاف کوئی عسکری، سفارتی یا اقتصادی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

نتیجتاً آر پار کشمریوں میں مایوسی پیدا ہوئیِ، تنازع کشمیر پس پشت چلا گیا اور بھارت کو مقبوٖضہ کشمیر پر اپنا جابرانہ قبضہ مزید مضبوط کرنے کے لیے عالمی سطح پر تسلیم شدہ خصوصی حیثیت ختم کرنے کا عملاً موقع مل گیا۔

یوں بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35-  اے کو منسوخ کر کے جموں کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کر دیا اور خطے کو 2 وفاقی علاقوں ’جموں کشمیر‘ اور ’لداخ‘ میں تقسیم کر کے بھارتی وفاق کے زیرِ انتظام کر دیا۔

بھارت نے کشمیر میں آبادی کے تناسب کو کم کرنے کے لیے 83  ہزار سے زیادہ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفیکیٹس جاری کر دیے، جس سے یہ غیر کشمیری یہاں زمین خریدنے اور مقامی سطح پر نوکریاں حاصل کرنے کے اہل ہو گئے۔

کشمیری عوام اسے ہندو توا نظریے کا ایک عملی منصوبہ سمجھتے ہیں، جس کا مقصد خطے کی مسلم اکثریتی شناخت کو مٹانا ہے۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک شدید مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کر دیا، جس میں انٹرنیٹ، موبائل اور لینڈ لائن سروسز معطل کر دی گئیں۔ ہزاروں مزید فوجی دستے تعینات کیے گئے اور مقامی قیادت کو نظربند کر دیا گیا۔

بھارت کی مرکزی نریندر مودی حکومت کے زیر سایہ تشدد، جبری گمشدگیوں اور حراستی شہادتوں کی اطلاعات بڑھ گئیں۔3 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی دستے شہری آبادیوں میں دن رات گشت کرنے لگے۔کرفیو، تلاشی آپریشنز، اور احتجاج پر پابندیاں عائد کر دی گئیں جس سے پورے کشمیر کا عملاً  محاصرہ کر دیا گیا۔

بھارت ان اقدامات کو قومی خودمختاری اور سلامتی کا معاملہ قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا، لیکن یہ اقدامات نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی تھے بلکہ شملہ معاہدے جیسے دو طرفہ معاہدوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی تھے۔

اگرچہ چند بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کے اس جابرانہ تسلط پر آواز اٹھائی، لیکن عالمی برادری کا ردعمل کمزور اور محتاط رہا ہے، کیونکہ اس وقت کی پاکستانی حکومت کی ناقص کارکردگی، حکمت عملی، کمزور سفارتی پالیسیوں اور اندرونی خلفشار کے باعث دنیا بھارت کو ایک بڑی معیشت اور عالمی پارٹنر  کے طور پر دیکھ رہی تھی۔

اب موجودہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ایک مربوط، طویل مدتی اور عملی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے مؤثر عالمی سفارت کاری کا راستہ اپنائے، آپریشن سندور میں ناکامی کے بعد بھارت کی سفارتی تنہائی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا، چین، یورپی یونین اور روس جیسی عالمی طاقتوں سے اپنے سفارتی رابطہ اور تعلقات کو مزید مضبوط کرے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں خصوصی ایلچی کی تعیناتی کا مطالبہ کرے، بھارت پر کثیرالملکی سفارتی دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کرے اورآزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو قریب لا کر انہیں عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سفارتی رول دینا چاہیے۔

بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے حقائق کو دنیا کے سامنے لانے چاہییں اور جہاں ممکن ہو وہاں بین الاقوامی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہییے۔

5 اگست 2019 کے بعد بھارت کے اقدامات نے کشمیر کے سیاسی، سماجی اور قانونی نقشے کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ شملہ معاہدے کی بنیادی روح، بات چیت، عدم مداخلت اور طاقت کے استعمال سے گریز، سب پامال ہو چکے ہیں۔

اب حکومت پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی سفارتی حکمتِ عملی کو ازسرنو تشکیل دے، عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے اور کشمیری عوام کی خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑی ہو۔ تنازع کشمیر کا ایک منصفانہ، پُرامن اور کشمیریوں کی مرضی پر مبنی حل ہی خطے میں پائیدار امن کا ضامن ہو سکتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد اقبال

متعلقہ مضامین

  • ایران؛ 22 سال میں 11 شوہروں کو قتل کرنے والی سیریل کلر بیوی پر فرد جرم عائد
  • دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے پر پاکستانی شہریت ختم نہیں ہوگی،بل پیش
  • پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کو آئرلینڈ کے ہاتھوں پہلے ٹی20 میچ میں 11 رنز سے شکست
  • امریکا بھارت کشیدگی: نریندر مودی کا 7 برس بعد چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ
  • ایران؛ اسرائیل کو شہید جوہری سائنسدان کی ’لوکیشن‘ فراہم کرنے والے کو پھانسی دیدی گئی
  • پاکستانی طلباء کے لیے برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کا نادر موقع
  • عالمی سطح پر بھارت کی دوغلی پالیسی
  • ایران میں گرمی کی شدید لہر، دفاتر بند کرنے کا حکم
  • ’یوم استحصالِ کشمیر‘ اور عمران خان حکومت کی سفارتی ناکامی