پاک، سعودی دفاعی معاہدہ۔۔ ایک اور ایک گیارہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250923-03-6
جاوید احمد خان
قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں عرب ممالک کے جو اجلاس ہوئے اور پھر دوسرے اجلاس میں ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، اور پاکستان کے سربراہان نے شرکت کی اس سے قبل عرب ممالک کے اجلاس میں بھی پاکستان کو خصوصی طور پر بلایا گیا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ان اجلاسوں میں اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کا اعلان کیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اسرائیل کو بھی معلوم تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ لیکن ان اجلاسوں میں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ شرکائے اجلاس کا مجموعی تاثر یہ ابھر کر سامنے آیا کہ قطر پر حملے میں امریکا معصوم نہیں ہے اس کو معلوم تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ یہی امریکا ہے جس نے دوحا کے تحفظ کے لیے اس کے یہاں فوجی اڈے بنائے اور تیرہ ہزار امریکی فوجی وہاں پر ہیں اسی طرح سعودی عرب میں بھی ہے۔ پھر کئی ماہ قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر گئے تو سعودی عرب اور قطر نے نہ صرف ان کا عظیم الشان استقبال کیا بلکہ کئی ٹریلین ڈالر کی امریکا میں سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا ان دونوں ممالک نے امریکا کو یہ بھتا اس لیے دیا کہ ان کا تحفظ ہوگا اور اسرائیل کی طرف سے کسی بھی قسم کے حملے کا کوئی اندیشہ نہ ہو کہ اس سے قبل اسرائیل لبنان، یمن اور شام پر حملہ کرچکا ہے اور ایران سے تو باقاعدہ جنگ ہوئی۔ قطر پر اسرائیلی حملے اور امریکا کی منافقت نے عرب ممالک کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ایک طرح سے امریکا پر عرب ملکوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے اور ان کی سلامتی خطرات میں محصور ہوگئی کہ جب نیتن یاہو کا یہ بیان آیا کہ وہ جس ملک پر چاہے گا حملہ کرے گا اور اس کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ امریکا ہر صورت میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ اگر اسرائیل نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو امریکا اسرائیل کے ساتھ ہوگا۔
بس یہی وہ وقت تھا جب سعودی عرب اور پاکستان نے دفاعی معاہدے پر تبادلہ خیال کیا اور دور رس فیصلے کیے، معاہدے تیار بھی ہوئے اور دستخط بھی ہوگئے ہم ایک جملہ اکثر سنتے رہے ہیں کہ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی اب اس کو پلٹ کر یوں کہا جاسکتا ہے لمحوں نے وفا کی صدیوں نے اماں پائی۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے یہ دونوں ہی اقوال مشرق وسطیٰ کے معاملات میں پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں عرب اور دیگر مسلم ممالک کے سربراہان کے اجلاسوں کے جو نتائج سامنے آئیں ہیں اس میں تو یہی قول فٹ نظر آتا ہے کہ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی یعنی یہی وہ لمحات تھے جس کو گرفت میں لینے کی ضرورت تھی کم از کم یہی اعلان ہوجاتا کہ ہم امریکا میں کئی ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر نظر ثانی کریں گے، آج کی مادی دنیا میں قرارداد کے سخت الفاظ سے زیادہ کاروبار کی چوٹ محسوس ہوتی ہے، کچھ مسلم ممالک اپنے ملک پر اسرائیلی طیاروں کے لیے فضائی پابندی کا اعلان کرتے غزہ کے بچے جو بھوک سے مائوں کی گودوں میں دم توڑ رہے ہیں ان بھوکوں کی غذائی رسد کے حوالے سے کوئی عملی قدم اٹھانے کا فیصلہ ہوتا کچھ ممالک جو اربوں ڈالر کی اسرائیل سے تجارت کررہے ہیں وہ اس کو روکنے کا اعلان کرتے، مسلمانوں کی اپنی اقوام متحدہ کے حوالے سے کوئی بات کی جاتی یعنی کچھ تو ہوتا جس سے مسلم امہ کے کچھ آنسو رک جاتے۔ اب آئندہ آپ کو یہ موقع ملے یا نہ ملے بلکہ جو موقع مل رہا تھا اسے ضائع کردیا۔
20 ستمبر کے اخبارات میں اسحاق ڈار کایہ بیان آیا ہے کہ یہ معاہدہ ایک رات میں طے نہیں پایا بلکہ اس میں کئی ماہ کا وقت لگا، اسحاق ڈار وزیر خارجہ ہیں ہم ان کے بیان کو رد بھی نہیں کرتے لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہمارا ملک وہ ہے جہاں قدم قدم پر امریکا کے وفادار بیٹھے ہیں جن کی دولت، جن کے خاندان، جن کے کاروبار اور جن کا مستقبل باہر کے ملکوں میں ہو اور وہ یہاں حکومت کرنے، کمیشن اور کک بیکس لینے کے لیے آتے ہوں ان کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن تھا کہ مہینوں سے کسی پروجیکٹ پر کام ہورہا ہو اور امریکا کو کانوں کان خبر نہ ہو سکے اگر یہ سب کچھ اچانک نہ ہوتا تو آج مغربی میڈیا میں بھونچال اور بھارتی میڈیا پر پاگل پن کیوں آیا ہوا ہے۔ اس معاہدے کی وجوہات میں تین فیکٹر بہت اہم ہیں کہ پہلی وجہ تو اسرائیل کا دوحا پر حملہ ہی ہے کہ اس نے ان عرب ملکوں کو جن کے یہاں ان کی ملکی سلامتی کی آڑ میں امریکا نے اپنے فوجی اڈے قائم کیے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا یہی سوچ اس معاہدے کی دوسری وجہ ہے اور تیسری سب سے اہم وجہ اس سال ماہ مئی میں پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی شاندار فتح ہے کہ بھارت کی وہ متھ ملیا میٹ ہوگئی کہ ہم جب چاہیں پاکستان کو سبق سکھا سکتے ہیں، ابھی تاز دھمکی پھر مودی نے دی ہے کہ ہم گھس کر ماریں گے، چلیے دیکھتے ہیں یہ بھی شوق پورا کرلیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک نے اپنے دفاع کے لیے کیا ہے نہ کہ کسی ملک پر جارحیت کے لیے یعنی اگر پاکستان پر کوئی ملک حملہ کرے گا تو سعودی عرب اسے خود پر حملہ سمجھے گا اور اگر سعودی عرب پر کوئی ملک حملہ کرے گا تو پاکستان اس کو اپنے اوپر حملہ سمجھے گا۔ اب یہ دونوں اس وقت کیا کریں گے یہ اسٹرٹیجی اسی وقت طے کرنے کی ہے اس نکتے پر پہلے سے کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ اس طرح کے اتحاد دنیا میں پہلے سے موجود بھی ہیں کچھ پہلے بنائے بھی گئے تھے جس میں بظاہر یہ کہا گیا کہ یہ ممالک اپنے اپنے دفاع کے لیے یہ معاہد ہ کررہے ہیں لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ انہوں نے یہ معاہدے دفاع کے لیے نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک پر جارحیت کے لیے کیے تھے۔
پہلی مثال اس کی یہ ہے کہ 1970 میں روس اور بھارت نے مل کر ایک دفاعی معاہدہ کیا تھا اور اس میں یہی تھا کہ کسی نے حملہ کیا تو مل کر جواب دیں گے اس میں اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت روس کو اپنے اوپر کس ملک کے حملے کا خطرہ تھا اور بھارت کو کس سے خطرہ تھا اگر بات کی جائے کہ پاکستان سے تھا تو پاکستان تو اس وقت خود اپنے اندرونی مسائل میں الجھا ہوا تھا۔ دراصل بھارت نے روس سے یہ معاہدہ دفاع کے لیے نہیں بلکہ پاکستان پر جارحیت کے لیے کیا تھا اور 1971 میں اس نے پاکستان پر روس کی معاونت سے حملہ کرکے مشرقی پاکستان کو علٰیحدہ کردیا اور اس بات کا اقرار تو خود نریندر مودی نے 2015 میں ڈھاکا میں ایک جلسے میں کیا تھا۔
دوسرا اتحاد جو اس وقت موجود بھی ہے وہ ناٹو ممالک کا اتحاد ہے جو 32 ممالک پر مشتمل ہے اس میں ترکی بھی شامل ہے ہم نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ اس اتحاد نے اپنے کسی ملک کے دفاع کے لیے کسی سے جنگ کی ہو بلکہ جہاں بھی جنگ کی وہ جنگ نہیں جارحیت تھی، نائن الیون ایک دہشت گردی کا واقعہ تھا اسے امریکا نے شروع سے اپنے اوپر حملہ کہا اس میں جو لوگ پکڑے گئے وہ سب عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے لیکن امریکا نے افغانستان کو اس حملے کا ذمے دار ٹھیرایا اور ناٹو کے تمام ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر جارحیت کی اور پھر بیس سال بعد شکست خوردہ ہوکر واپس گیا۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ پاک سعودی معاہدہ کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک کے دفاع کے لیے ہے بلکہ کسی کی طرف سے جارحیت روکنے کا اسپیڈ بریکر ہے اس کے باوجود کسی نے جارحیت کی تو یہ ویسے تو ایک اور ایک دو ملک ہیں لیکن وقت پڑا تو اپنی کارکردگی کے اعتبار سے ایک اور ایک گیارہ ثابت ہوں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جارحیت کے لیے دفاع کے لیے پر جارحیت عرب ممالک ممالک کے نے اپنے پر حملہ ملک کے کہ کسی ملک پر تھا کہ اور اس
پڑھیں:
دفاعی معاہدہ، پاکستان اور ہندوستان کے تناظر میں
اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیساتھ تعلقات میں سرد مہری آئی اور ہندوستان کے ساتھ سعودی تعلقات میں اضافہ ہوا، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، اور سعودی عرب ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا تیل فراہم کرنے والا ملک بن گیا۔ لیکن روس کی جانب سے یوکرین کیخلاف جنگ شروع کیے جانے اور روس پر امریکہ اور یورپ کی پابندیوں کی وجہ سے ہندوستان کو سستے روسی تیل کی برآمدات میں اضافے سے بھارت کے لئے تیل کی خریداری کے لئے سعودی عرب کا کردار کمزور پڑ گیا۔ ان ڈیپتھ پوڈ کاسٹ:
مغربی ایشیا کے اہم ترین رجحانات، پیش رفتوں اور شخصیات کا جائزہ لینے والے "ان ڈیپتھ" پوڈ کاسٹ کی حالیہ قسط میں منصور باراتی نے میزبانی کی، پروگرام میں مہمان ماہر حمید کاظمی نے نئے سعودی پاکستانی معاہدے کے بارے میں "ان ڈیپتھ" سوالات کے جوابات دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں پیوست ہے۔ ان تعلقات میں اہم موڑ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے دوران آیا۔
80 کی دہائی میں دونوں ممالک نے امریکہ کی حمایت سے سوویت افواج کیخلاف جنگ میں حصہ لیا اور دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی شراکت داری مزید مستحکم ہوئی۔ ایک اہم اور تاریخی پہلو پاکستان کا پہلی اٹیمی طاقت ہونا ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کی مالی معاونت میں سعودی عرب کے کردار اور ریاض کے لیے ایٹمی چھتری فراہم کرنے کے امکان کے بارے میں ماضی میں بھی افواہیں آتی رہی ہیں، حالانکہ سرکاری طور پر اس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی روایتی طور پر اسلامی ممالک کے ساتھ تعاون پر مبنی رہی ہے اور اس حکمت عملی میں سعودی عرب کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔ لیکن یمن کیخلاف سعودی جارحیت اور جنگ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک منفی نقطہ تھا۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے اپنے فوجیوں کی تعیناتی کی مخالفت کی اور اسلام آباد نے تنازع میں جانے سے گریز کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں سعودی مالی امداد میں کمی اور پاکستانی شہریوں کے لیے کام پر پابندیاں لگ گئیں۔
اس دوران سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیساتھ تعلقات میں سرد مہری آئی اور ہندوستان کے ساتھ سعودی تعلقات میں اضافہ ہوا، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، اور سعودی عرب ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا تیل فراہم کرنے والا ملک بن گیا۔ لیکن روس کی جانب سے یوکرین کیخلاف جنگ شروع کیے جانے اور روس پر امریکہ اور یورپ کی پابندیوں کی وجہ سے ہندوستان کو سستے روسی تیل کی برآمدات میں اضافے سے بھارت کے لئے تیل کی خریداری کے لئے سعودی عرب کا کردار کمزور پڑ گیا۔
اس پیش رفت سے سیاسی تعلقات بھی متاثر ہوئے، یہاں تک کہ ریاض نے ہندوستانی عازمین کو حج کے لیے بھیجنے پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ پاکستانی حکام اور امریکی رہنماؤں کے درمیان ملاقاتیں اور سعودی عرب کے ساتھ حالیہ سٹریٹجک معاہدہ جو کہ جوہری چھتری کے بارے میں پرانی افواہوں کی گونج ہے، ظاہر کرتا ہے کہ اسے ایک رسمی اور قانونی پہلو حاصل ہو چکا ہے۔ یہ معاہدہ برصغیر میں طاقت کے علاقائی توازن کے لیے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔