Jasarat News:
2025-11-09@16:21:45 GMT

امریکا، برطانیہ: عالمی سیاست کا رخ متعین کرتی ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-03-3

 

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

 

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی حالیہ ملاقات نے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ یہ دورہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی کی علامت ہے بلکہ موجودہ عالمی بحرانوں کے تناظر میں بڑی طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی کی اشد ضرورت کو بھی واضح کرتا ہے۔ دفاعی و ترویراتی شراکت داری کے معاہدوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ اپنی باہمی تجارت و صنعت کو نئی جہتوں سے آراستہ کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی پروسپرٹی ڈیل (TPD) میں شامل کوانٹم کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت اور ایٹمی توانائی جیسے حساس شعبے اس بات کا اظہار ہیں کہ مستقبل کی معیشت اور سلامتی انہی عناصر پر استوار ہوگی۔ برطانیہ کی دفاعی خریداری میں 80 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور امریکا میں برطانوی کمپنیوں کے 30 بلین ڈالر کے منصوبے صرف معاشی تعاون نہیں بلکہ اسٹرٹیجک اعتماد کی علامت بھی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاہدے صرف برطانیہ اور امریکا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یورپی منڈیوں اور ناٹو کے دفاعی ڈھانچے پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوں گے۔

عالمی تنازعات پر دونوں رہنماؤں کے بیانات بظاہر امن و استحکام کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں، مگر عملی صورتحال اس سے مختلف ہے۔ یوکرین میں جنگ کے طول پکڑنے سے یہ واضح ہے کہ مغربی طاقتیں درپردہ عسکری دباؤ کو ترجیح دیتی ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے متعدد حلقے اس پرامن تصفیے کے لیے مذاکراتی راہ ہموار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اسی طرح غزہ میں انسانی بحران پر امریکا اور برطانیہ کی محدود سفارت کاری نے عالمی سطح پر ان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے بھی بارہا اس بات پر زور دیا کہ محض ’’تحمل کی اپیل‘‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس تناظر میں دونوں ممالک کی پالیسیوں کو دوہرے معیار کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ چا بہار بندرگاہ کے مسئلے پر ایران پر پابندیوں کی تجدید نے خطے میں طاقت کے توازن کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بھارتی ماہرین معیشت کے مطابق اس اقدام سے بھارت کی وسطی ایشیا اور یورپ سے تجارتی روابط متاثر ہوں گے۔ پاکستان اور چین کے لیے یہ صورتحال ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ گوادر پورٹ اور سی پیک کے منصوبوں کو زیادہ پرکشش اور فعال بنا کر خطے میں اپنی اقتصادی پوزیشن مستحکم کریں۔ ماہرین کے نزدیک خطے کی جغرافیائی سیاست اب دو دھڑوں میں بٹتی جا رہی ہے، جہاں ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ہیں جبکہ دوسری طرف چین، روس اور ایران جیسے ممالک ایک نئے تجارتی و عسکری بلاک کی تشکیل میں مصروف ہیں۔

برطانیہ کے اندرونی حالات بھی اس ملاقات کے پس منظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ برطانوی عوام کا ایک بڑا طبقہ امریکی پالیسیوں سے ناخوش ہے۔ امیگریشن، موسمیاتی تبدیلی اور اسرائیل نواز رویہ ایسے نکات ہیں جن پر عوامی دباؤ اسٹارمر حکومت کو محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایپسٹین اسکینڈل جیسے پرانے تنازعات کا دوبارہ موضوع بحث بننا اس ملاقات کے تاثر کو مزید متنازع بنا گیا ہے۔ مستقبل کے امکانات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امریکا برطانیہ کی بڑھتی ہوئی قربت عالمی فورمز جیسے ناٹو، جی 7 اور جی 20 میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ یہ اتحاد چین کی بڑھتی ہوئی معیشت اور روس کے عسکری دباؤ کے مقابلے میں ایک مضبوط مغربی بلاک کے طور پر سامنے آئے گا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا یہ بلاک حقیقی طور پر عالمی امن، انصاف اور پائیدار ترقی کے تقاضوں کو پورا کرے گا یا محض طاقت کے توازن کی روایتی کشمکش کو مزید شدت دے گا۔

یوں ٹرمپ اور اسٹارمر کی ملاقات بظاہر سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کی گئی ہے، لیکن اصل امتحان اس وقت ہوگا جب یہ معاہدے زمینی حقائق میں ڈھلیں گے۔ اگر امریکا اور برطانیہ عالمی برادری میں اپنی ساکھ کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یوکرین، غزہ اور دیگر تنازعات میں غیر جانب دارانہ اور عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ بصورت دیگر یہ ملاقات ایک عارضی مظاہرہ ہی ثابت ہوگی، جو تاریخ کے اوراق میں محض ایک رسمی صفحہ بن کر رہ جائے گی۔ لہٰذا ٹرمپ اور کیئر اسٹارمر کی ملاقات محض دو طاقتور ممالک کی رسمی گفت و شنید نہیں بلکہ اس نے عالمی سیاست کی نئی ترجیحات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ معاشی تعاون، دفاعی شراکت داری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں معاہدے اگر اپنی عملی صورت اختیار کر جائیں تو یہ عالمی معیشت اور سیکورٹی پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ معاہدے صرف بیانات اور اعداد وشمار تک محدود رہیں تو ان کی حیثیت وقتی سیاسی مظاہرے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔ یوکرین، غزہ اور مشرق وسطیٰ جیسے بحرانوں میں امریکا اور برطانیہ کا رویہ اصل پیمانہ ہوگا جس سے دنیا فیصلہ کرے گی کہ آیا یہ شراکت عالمی امن کے لیے ہے یا صرف طاقت کے توازن اور معاشی مفادات کے لیے۔ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے فیصلے صرف اپنے مفادات تک محدود رہیں تو ان کے نتائج دیرپا نہیں ہوتے۔ اگر ٹرمپ اور اسٹارمر واقعی ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو انہیں طاقت کی سیاست سے آگے بڑھ کر انصاف، انسانیت اور عالمی امن کو اپنی پالیسیوں کا مرکز بنانا ہوگا، ورنہ یہ ملاقات بھی ماضی کی سفارتی تقریبات کی طرح تاریخ کے ہنگامہ خیز دھارے میں گم ہو جائے گی۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امریکا اور برطانیہ ٹرمپ اور ہیں تو کے لیے اور اس

پڑھیں:

’خیبر یونین آف جرنلسٹس م آزادی صحافت کے لیےآواز بلند کرتی رہے گی‘، اسپیکر بابر سلیم کے بیان پر ردعمل

خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر کاشف الدین سید نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر بابر سلیم کے بیان پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں اسپیکر نے مبینہ طور پر صحافیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:نوشہرہ میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے صحافی قتل

کاشف الدین سید نے اپنے بیان میں کہا کہ اسپیکر کو اس منصب کے تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اپنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور صحافی جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، اس لیے ان کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیانات قابلِ مذمت ہیں۔

صدر خیبر یونین آف جرنلسٹس نے اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے بیان پر وضاحت دیں اور آئندہ ایسے ریمارکس سے گریز کریں۔

انہوں نے حکومتِ خیبر پختونخوا سے بھی اپیل کی کہ وہ آزادیِ صحافت کے فروغ اور صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔

یہ بھی پڑھیں:4 سال، پاکستان میں 42 صحافی قتل

کاشف الدین سید نے کہا کہ خیبر یونین آف جرنلسٹس میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے وقار کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرتی رہے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسپیکر اسمبلی اسپیکر بابر سلیم خیبر پختونخوا خیبر یونین آف جرنلسٹس کاشف الدین سید

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتی ہے، سینیٹر علی ظفر
  • پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتی ہے، سینیٹر علی ظفر
  • سعودی عرب، امارات، برطانیہ اور امریکا سے پاکستان میں ترسیلات زر میں نمایاں بہتری
  • امریکا اور اقوام متحدہ کی شامی صدر پر عائد پابندیاں ختم، دہشتگردوں کی فہرست سے نام خارج
  • امریکا، پاکستانی سفیر کی وسط ایشیا امور کے معاون سیکریٹری سے ملاقات
  • امریکا نے شامی صدر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا
  • ’خیبر یونین آف جرنلسٹس م آزادی صحافت کے لیےآواز بلند کرتی رہے گی‘، اسپیکر بابر سلیم کے بیان پر ردعمل
  • برطانوی وزیر ٹریڈ پالیسی کی ملاقات، دوطرفہ تجارت کے وسیع مواقع موجود: احسن اقبال
  • شادی عورت کی شخصیت یابنیادی حقوق ختم نہیں کرتی،عدالت عظمیٰ
  • خون میں چربی کی زیادتی (ڈس لپیڈی میا) پر تحقیقی جائزہ