شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی زندگی پر ایک نظر
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: علامہ سید عارف حسین الحسینی کو مرحوم قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین کے بعد پاکستان کی ملت جعفریہ کا قائد منتخب کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے ملت تشیع پاکستان میں انقلابی فکر اور سیاسی شعور کی ایک ایسی روح پھونکی، جس کی حرارت آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ انہیں پاکستان میں امام خمینی کا نمائندہ اور وکیل مقرر کر دیا گیا۔ علامہ سید عارف الحسینی نے نہ صرف تحریک جعفریہ کو فعال کیا بلکہ ملت کو مجموعی طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ رپورٹ: سید عدیل عباس
بعض شخصیات ایسی پیدا ہوتی ہیں، جو اس دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی سحرانگیز اور طسلماتی شخصیت کیوجہ سے لوگوں کے دلوں پر راج کرتی ہیں، ایسی ہی ایک شخصیت کو پاکستان میں علامہ سید عارف حسین الحسینی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے انتہائی قلیل عرصہ تک ملت جعفریہ پاکستان کی قیادت کی اور عین جوانی میں منصب شہادت پر فائز ہوگئے۔ سید عارف حسین الحسینی نے کرم کے معروف مذہبی سادات گھرانے میں 25 نومبر 1946ء کو آنکھ کھولی، آپ کے والد گرامی کا نام سید فضل حسین تھا، چونکہ ان کا سلسلہ نسب حسین الاصغر ابن امام علی بن الحسین (ع) تک پہنچتا ہے، لہذا آپ کا خاندان "حسینی” کے عنوان سے مشہور ہے۔ شہید عارف الحسینی کے آباء و اجداد میں سے متعدد افراد علماء اور مبلغین تھے اور اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کی غرض سے پاراچنار کے سرحدی علاقہ پیواڑ جو کہ آپ کا آبائی علاقہ ہے، میں میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ قائد شہید سید عارف حسین الحسینی نے اپنا بچپن آبائی علاقہ میں ہی گذارا، جہاں انہوں نے قرآن کریم اور ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔
بعدازاں انہوں نے مقامی اسکول میں داخلہ لیا اور پرائمری اور متوسطہ کے بعد پاراچنار کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے، سنہ 1964ء میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد علوم آل محمد (ص) سے روشناس ہونے کیلئے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے حاجی غلام جعفر سے کسب فیض کا آغاز کیا اور مختصر عرصہ میں مقدمات (ادبیات عرب) مکمل کر لئے۔ شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی نے 1967ء میں نجف اشرف اور بعدازاں قم میں عربی ادب کے نامور استاد مدرس افغانی کے ہاں تکمیلی مراحل طے کئے اور ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ کے ہاں فقہ اور اصول فقہ کے اعلیٰ مدارج مکمل کئے۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی نجف میں آیت اللہ مدنی کے حلقہ درس میں شریک ہوئے اور ان کے توسط سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خمینی سے واقف ہوئے۔ 1973ء میں انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں عراق کی بعثتی حکومت نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور کچھ عرصہ بعد ملک بدر کردیا۔
علامہ عارف الحصینی نے 1974ء میں دوبارہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اور نجف جانے کا فیصلہ کیا، لیکن حکومت عراق نے ویزا جاری کرنے سے انکار کیا، چنانچہ وہ اسی سال قم روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ شہید استاد مرتضیٰ مطہری، آیت اللہ مکارم شیرازی، وحید خراسانی، میرزا جواد تبریزی، محسن حرم پناہی اور سید کاظم حائری سے فلسفہ، کلام، فقہ، اصول اور تفسیر جیسے علوم میں کسب فیض کیا۔ قم میں رہائش اور حصول علم کے دوران وہ پہلوی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرتے تھے، لہذا اس وقت انہیں گرفتار کیا گیا۔ انہیں ایک ضمانت نامے پر دستخط کرنے کیلئے کہا گیا کہ "وہ مظاہروں اور انقلابی قائدین کی تقاریر میں شرکت نہیں کریں گے اور انقلابی علماء و رہنماوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے” لیکن انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، چنانچہ جنوری 1979ء میں آپ کو ایران چھوڑ کر پاکستان واپس جانا پڑا۔ 1979ء سے 1984ء تک مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں مصروف رہے۔ وہ ہر جمعرات کے دن مدرسہ جعفریہ سے پشاور جاکر جامعہ پشاور میں اخلاق اسلامی کی تدریس کیا کرتے تھے۔
علامہ سید عارف حسین الحسینی کو مرحوم قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین کے بعد پاکستان کی ملت جعفریہ کا قائد منتخب کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے ملت تشیع پاکستان میں انقلاب فکر اور سیاسی شعور کی ایک ایسی روح پھونکی، جس کی حرارت آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ انہیں پاکستان میں امام خمینی کا نمائندہ اور وکیل مقرر کر دیا گیا۔ علامہ سید عارف الحسینی نے نہ صرف تحریک جعفریہ کو فعال کیا بلکہ ملت کو مجموعی طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ آپ کی یہ فعالیت اور اتحاد بین المسلمین کی کوششیں کسی صورت استعماری طاقتوں اور پاکستان میں ان کے گماشتوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھیں، جس کے نتیجے میں علامہ سید عارف حسین الحسینی کو آج سے سینتیس سال قبل مورخہ 5 اگست 1988ء کو پشاور میں واقع ان کے مدرسے دارالمعارف الاسلامیہ میں نماز صبح کے موقع پر فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔
آپ کی شہادت پر امام خمینی (رح) نے جنازے میں شرکت کے لئے ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان بھیجا اور پاکستان کے علماء اور قوم و ملت کے نام ایک مفصل پیغام جاری کیا، جس میں شہید کو اپنا "فرزند عزیز” قرار دیا۔ ادھر پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پشاور جاکر شہید کے جنازے میں شرکت کی۔ آیت اللہ جنتی نے نماز جنازہ کی امامت کی، بعدازاں شہید کی میت ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے آبائی شہر پارچنار منتقل کی گئی اور تدفین ان کے آبائی گاؤں پیواڑ میں ہوئی۔ شہید قائد نے چند ہی سال ملت تشیع پاکستان کی قیادت کی، تاہم یہ قلیل عرصہ ملت کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آپ کے معنوی فرزندان آج بھی تمام تر مشکلات کے باوجود میدان عمل میں حاضر ہیں اور آپ کے خط پر چلتے ہوئے مشن حسینی کی تکمیل میں کوشاں ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ سید عارف حسین الحسینی پاکستان میں پاکستان کی الحسینی نے ملت جعفریہ ا یت اللہ میں شرکت انہوں نے کے بعد کر دیا
پڑھیں:
ترک خاتون کی داستانِ غزہ: ’زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘
غزہ اپنی جدید تاریخ کے سب سے المناک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں ایک ترک خاتون، جنہوں نے 24 سال اس محصور خطے میں گزارے، وہاں کی زندگی، جنگوں، ناکہ بندیوں اور ایمان کی پختگی کو یاد کرتی ہیں۔
کیفسَر یلماز جارادہ 1999 میں شادی کے بعد غزہ منتقل ہوئیں اور 2 دہائیوں سے زائد عرصے تک وہیں مقیم رہنے کے بعد اپنے آپ کو فلسطینی ہی سمجھتی ہیں۔
’میں نے غزہ کے عوام کے ساتھ جنگیں، ناکہ بندیاں اور مشکلات جھیلیں، خود کو ان ہی میں سے ایک سمجھتی ہوں، مجھے لگتا ہے میں بھی غزہ کی ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیں: دو سالہ جنگ کے بعد ملبہ اٹھانے کا عمل شروع، 5 لاکھ سے زیادہ فلسطینی غزہ لوٹ آئے
وہ 2023 کی گرمیوں میں علاج کے لیے ترکی آئیں، اور کچھ ہی دن بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
کیفسَر یلماز جارادہ نے بتایا کہ 2005 تک اسرائیلی آبادکار فلسطینی زمینوں پر قابض تھے اور غزہ میں ’نظر نہ آنے والے علاقوں‘ میں پرتعیش زندگی گزارتے تھے۔
ان کے پاس وسیع فارم، اسکول اور کارخانے تھے، جب کہ مقامی آبادی انتفاضہ اور شدید معاشی دباؤ میں زندگی گزار رہی تھی۔
ان کے مطابق غزہ کے عوام نے مزاحمت کرتے ہوئے قبضہ کرنے والوں کو اپنی زمین پر سکون سے رہنے نہیں دیا، اور آخرکار ایک بھی آبادکار وہاں باقی نہ رہا۔
’غزہ میں زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘کیفسَر یلماز جارادہ کے مطابق تعلیم غزہ میں ہمیشہ اولین ترجیح رہی۔ ’’جنگ ہو یا امن، تعلیم کبھی نہیں رکتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اسکول کے بعد بچے عام طور پر مساجد کا رخ کرتے، جو سماجی مراکز کا کردار ادا کرتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ غزہ سے باہر نکلنا بے حد مشکل تھا، طلبا اور مریضوں کو مہینوں پہلے نام درج کروانے اور اجازت کی فہرستوں کے انتظار میں رہنا پڑتا۔
غزہ کی زندگی بجلی اور پانی کی قلت سے جڑی ہوئی تھی، جہاں بجلی عام طور پر 4 سے 8 گھنٹے کے لیے آتی تھی اور کبھی کبھار بالکل نہیں۔
مزید پڑھیں: چین کا غزہ میں ’مستقل اور جامع‘ جنگ بندی پر زور، فلسطینیوں کے اپنے علاقے پر حق حکمرانی کی حمایت
’اگر رات کو بجلی آتی تو ہم اسی وقت کپڑے دھوتے، استری کرتے اور کھانا بناتے, 8 گھنٹے بجلی ملنا خوشی کی بات ہوتی تھی۔‘
پانی بھی 2 یا 3 دن بعد آتا، تو لوگ ٹینک بھر کر ذخیرہ کرتے۔ ان مشکلات کے باوجود طلبا نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی۔
’غزہ کے عوام کی شکرگزاری اور ثابت قدمی نے ہمیں قیمتی سبق دیا۔‘
’غزہ کے لوگ کبھی نہیں کہتے، ہم ہار گئے‘کیفسَر کے مطابق، غزہ کی مشکلات نے وہاں کے لوگوں کو ٹوٹنے کے بجائے مضبوط بنایا۔
’زندگی سخت تھی، مگر اس نے انہیں طاقتور بنا دیا، ان کا ایمان پختہ ہے، وہ جلد سنبھل جاتے ہیں اور کبھی نہیں کہتے کہ ہم ختم ہو گئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ الاقصیٰ مسجد پر حملوں نے غزہ کے عوام کو متحد کر دیا۔
مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر کے خاندان سمیت 91 فلسطینی شہید
’انہوں نے قربانیاں دیں، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جنگ کیوں شروع ہوئی، بلکہ سب نے اپنی طاقت پہچانی۔‘
جارادہ کہتی ہیں کہ 2 سال گزرنے کے باوجود غزہ شکست خوردہ نہیں۔ ’اسرائیل نہ اپنے تمام قیدی واپس لا سکا، نہ غزہ پر مکمل قبضہ، اس لیے غزہ ابھی بھی سر بلند ہے۔‘
’لوگ کنویں یا سمندری پانی پر زندہ رہے‘8 اکتوبر 2023 کے بعد کے حالات یاد کرتے ہوئے جارادہ کہتی ہیں کہ بمباری اور ناکہ بندی کے دوران لوگ کنویں یا سمندری پانی پر زندہ رہے، حتیٰ کہ جنگلی پودے کھائے۔
’میرے بچے 2 ہفتے صرف پانی پر گزارہ کرتے رہے، ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے مرغیوں کا دانہ پیس کر روٹی بنائی۔‘
ان کے مطابق اسپتالوں پر حملوں سے صحت کا نظام تباہ ہو گیا، زخمیوں کو علاج نہ مل سکا، اور ہزاروں بے گھر خاندان خیموں یا ملبے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
’غزہ کے لوگ دوبارہ سنبھلنا جانتے ہیں‘کیفسَر یلماز جارادہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے معاشرے میں ’خود کو ازسرنو تعمیر کرنے کی فطری صلاحیت‘ موجود ہے۔
’جیسے ہی جنگ بندی ہوتی ہے، سب سے پہلے مساجد کی مرمت کی جاتی ہے، لوگ دوبارہ جمع ہوتے ہیں، گھر بنتے ہیں، گلیاں صاف کی جاتی ہیں اور زندگی پھر سے شروع ہو جاتی ہے۔‘
مزید پڑھیں: غزہ پر اسرائیلی حملے، ایک دن میں 57 فلسطینی جاں بحق
وہ کہتی ہیں کہ غزہ کے لوگ فیاض، شاکر اور باہمت ہیں، وہاں گزارے گئے 24 سالوں نے انہیں صبر، شکر اور یکجہتی سکھائی۔
اپنے بچوں کو غزہ میں پالنا ان کے لیے اعزاز تھا۔
’دنیا نے غزہ کے عوام کی ہمت اور وقار دیکھا ہے، دعا ہے کہ ایک دن ہم سب مل کر آزاد القدس میں نماز ادا کریں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
القدس بمباری ترک خاتون تعلیم جنگ بندی شکست خوردہ غزہ ناکہ بندی