بیجنگ : 15 اگست 2005 کو جب شی جن پھنگ نے صوبہ ژی جیانگ کے یو چھون گاؤں کا دورہ کیا تو انہوں نے پہلی بار “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کا تصور پیش کیا۔ گزشتہ 20 سالوں کے دوران ، یہ تصور ماحولیاتی تہذیب کے بیج کی طرح چین کی سرزمین پر جڑ پکڑ چکا ہے اور ابھرا ہے ، جس نے معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے مابین ہم آہنگی کا ایک نیا راستہ تخلیق کیا ہے۔ یو چھون میں “پہاڑوں پر کان کنی ” سے لے کر “ماحولیاتی ترقی” میں تبدیلی کا یہ سفر نہ صرف چین کی سبز ترقی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، بلکہ چین کی سبز ترقی کی گہری دانش مندی کو بھی اجاگر کرتا ہے اور عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک قابل قدر حوالہ فراہم کرتا ہے.
یوچھون کی ترقی کے سفر پر نظر ڈالتے ہوئے ، ہم واضح طور پر “دو پہاڑوں” کے تصور کی عملی منطق دیکھ سکتے ہیں۔ پچھلی صدی کی اسی اور نوے کی دہائیوں کے دوران ، یوچھون نے چونے کے پتھر کی کان کنی اور سیمنٹ فیکٹریاں قائم کرکے تیزی سے معاشی ترقی حاصل کی ، لیکن ماحول کو نقصان پہنچانے والے اس ترقیاتی ماڈل نے بھاری قیمت ادا کی: پہاڑ بے نقاب ہوگئےاور ان کی ساخت خراب ہو گئی ، دریا کیچڑ بن گئے اور ہر جانب دھول پھیل گئی۔ 2005 میں “دو پہاڑوں” کے تصور نے ترقیاتی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کی۔ کانوں کو بند کرنے، ماحولیات کی بحالی، دیہی سیاحت اور خصوصی زراعت کو فروغ دینے کے بعد، یوچھون نے دس سال سے زیادہ عرصے میں ” گرے ڈیولپمنٹ ” سے ” سبز ترقی ” کی طرف ایک شاندار تبدیلی کی تشکیل کی ہے۔ تبدیلی سے پہلے کے مقابلے میں گاؤں والوں کی فی کس آمدنی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور ماحولیاتی خوبصورتی، صنعتی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی سب ایک ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔یو چھون کی کہانی دنیا کو بتاتی ہے کہ ماحولیاتی تحفظ ترقی کے لئے “بوجھ” نہیں ہے، بلکہ پائیدار ترقی کے لئے ایک “سرمایہ” ہے. اس ترقیاتی ماڈل پر پورے چین میں عمل کیا جا رہا ہے: سیہانبا کو صحرا سے جنگلات میں تبدیل کرنا، دریائے لی جیانگ کی “بے ترتیب ترقی” سے “خوبصورتی ” کا دوبارہ جنم لینا، اور چھنگ ہائی میں تین دریاؤں کے منبع کو “حد سے زیادہ چرانے” سے “ماحولیاتی انتظام” میں تبدیل کرنا وغیرہ ، ایک کے بعد ایک واضح اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ “دو پہاڑوں” کا تصور نہ صرف ایک گاؤں کی تقدیر کو تبدیل کر سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، بلکہ چین کے ترقیاتی نمونے کو بھی نئی شکل دیتا ہے، معاشی اور معاشرتی ترقی کی جامع سبز تبدیلی کو فروغ دیتا ہے، اور ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو فروغ دینے میں چین کے ٹھوس اقدامات کا ماخذ بن سکتا ہے.اس سال ” سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں”کے تصور کی 20 ویں سالگرہ ہے۔ گزشتہ ہفتے بیجنگ میں اس تصور کی عالمی اہمیت کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم میں بہت سے ممالک کے نمائندوں نے نشاندہی کی کہ ” دو
پہاڑوں ” کا تصور چینی بھی ہے اور عالمی بھی، اور یہ تصور عالمی حیاتیاتی اور ماحولیاتی مسائل کے حل اور عالمی پائیدار ترقی کے لئے چینی دانش مندی اور چینی حل فراہم کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں چین کے “دو پہاڑوں” کے تصور کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعریف کرتے ہیں، ان کا مانناہے کہ چین کا تجربہ عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک قابل قدر مثال فراہم کرتا ہے.”دو پہاڑوں” کے تصور کے ذریعہ پیش کردہ ماحولیاتی ترجیح اور سبز ترقی کا راستہ مغربی صنعتی ماڈل سے برتری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ماحول کی قیمت پر “پہلے آلودگی اور پھر علاج” سے مختلف ہے، اور یہ تجریدی ماحولیاتی نظریے سے بھی مختلف ہے جو ترقی سے الگ ہے، بلکہ معاشی اور معاشرتی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان اتحاد اور توازن فراہم کرتا ہے. جیسا کہ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف ایکولوجیکل سولائزیشن کے ایگزیکٹو نائب صدر اینڈریو شوارٹز نے کہا: “چین ماحولیاتی تہذیب کی طرف عالمی تبدیلی کو فروغ دینے کی راہ پر ایک رہنما بن رہا ہے۔ چین نے ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کے تمام شعبوں میں “دو پہاڑوں ” کے تصور کو ضم کیا ہے ، جو ترقیاتی ماڈل کے لحاظ سے ایک قابل اعتماد متبادل حل فراہم کرتا ہے۔ ایسی قیادت بروقت، دور اندیش اور متاثر کن ہے۔ “دریائے یانگسی کی اقتصادی پٹی سے لے کر دریائے زرد کے طاس کے ماحولیاتی تحفظ اور اعلی معیار کی ترقی تک، ” کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل ” کے عزم سے لے کر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی تجویز تک ، “دو پہاڑوں” کا تصور چین میں ایک مقامی عمل سے عالمی گورننس کی پبلک پروڈکٹ بن گیا ہے۔ بڑھتے ہوئے شدید ماحولیاتی بحران کا سامنا کرتے ہوئے، انسانیت کو زیرو سم گیمز کی جغرافیائی سیاست کے بجائے “دو پہاڑوں” کے تصور جیسی دانش مند حکمت کی ضرورت ہے جو اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے اور ترقی کی سمت کی رہنمائی کر سکتی ہے. جب زیادہ سے زیادہ ممالک “صاف پانیوں اور سبز پہاڑوں” سے “سنہری پہاڑوں اور چاندی کے پہاڑوں” میں تبدیلی کا اپنا راستہ اپنائیں گے ، تو ایسے میں انسانیت واقعی ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ سکتی ہے جہاں لوگ اور فطرت ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ Post Views: 1
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ:
پائیدار ترقی کے لئے
ماحولیاتی تہذیب
ماحولیاتی تحفظ
اور ماحولیاتی
فراہم کرتا ہے
دو پہاڑوں
اور عالمی
سے زیادہ
کا تصور
کے تصور
یو چھون
کو فروغ
تصور کی
ہے اور
پڑھیں:
پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ ، مسلم لیگ ق کا ” یوم تشکر” منانے کا اعلان
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و ترجمان غلام مصطفیٰ ملک نے
کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ قومی امنگوں کا ترجمان ہے ،اس اہم سنگ میل پر کل قوم سے ” یوم تشکر “منائے کی اپیل کرتے ہیں، اپنے جاری ایک بیان میں مصطفیٰ ملک نے کہا کہ پارٹی سربراہ اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے اس اہم دفاعی مبصوبے پر انتہائی مسرت کا اعلان کیا ہے، وہ ہمیشہ پاک سعودیہ گرم جوش تعلقات کے لیے سرگرم رہتے ہیں،پاکستان کو ارض حرمین الشریفین کی سیکورٹی سعادت کی بات ہے
مصطفیٰ ملک نے کہا کہ میری جماعت سمجھتی ہے کہ
بیان المرصوص کے بعد پاکستان کا بہترین تشخص اقوم عالم کے سامنے ابھرا ہے، وزیراعظم، آرمی چیف کی مشترکہ کوششوں ،دفاعی اداروں ، پارلیمان اور قوم کی بے مثال یکجہتی نے ہمیں یہ خوشی اور عظیم دن دیکھنا نصیب کیا ۔ مصطفیٰ ملک نے کہا کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بہترین حکمت عملی سے پاکستان اقوام عالم کی آنکھوں کا تارا بن گیا ہے،
سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان بھی پاکستان سے خصوصی محبت رکھتے ہیں، سعودی حکومت اور عوام کی محبت ہمارا اثاثہ ہے ، مصطفیٰ ملک جو وزارت اوورسیز پاکستانیز کے فوکل پرسن بھی ہیں نے اپنے وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین کو کاوشوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا انہوں نے کہاکہ انکے مثبت کردار کی وجہ سے اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند کرنے میں سمندر پار پاکستانی بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں،
وزارت خارجہ، وزارت اووسیز پاکستانیز سمیت سمدر پار پاکستانیوں نے بیک ڈور ڈیپلومیسی میں اہم کردار ادا کیا،مصطفیٰ ملک نے بتایا کہ آج وزیراعظم شہباز شریف، چوہدری سالک حسین کی دعوت پر برطانیہ میں سمندر پار پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کریں گے، اس سے قبل آرمی چیف امریکہ، برسلز میں ان اجتماعات سے خطاب کرچکے ہیں،مصطفیٰ ملک کا کہنا تھا کہ
قومی مفادات ہر ایک پاکستانی کو ہر بات پر مقدم ہونے چاہیں۔
وطن کے دفاع، استحکام اور خوشحالی کے لیے سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا ۔
Post Views: 7