گاؤں یو چھون کی بیس سالہ تبدیلیاں: “دو پہاڑوں” کے تصور کی چینی دانش مندی اور عالمی اہمیت WhatsAppFacebookTwitter 0 7 August, 2025 سب نیوز

بیجنگ : 15 اگست 2005 کو جب شی جن پھنگ نے صوبہ ژی جیانگ کے یو چھون گاؤں کا دورہ کیا تو انہوں نے پہلی بار “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کا تصور پیش کیا۔ گزشتہ 20 سالوں کے دوران ، یہ تصور ماحولیاتی تہذیب کے بیج کی طرح چین کی سرزمین پر جڑ پکڑ چکا ہے اور ابھرا ہے ، جس نے معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے مابین ہم آہنگی کا ایک نیا راستہ تخلیق کیا ہے۔

یو چھون میں “پہاڑوں پر کان کنی ” سے لے کر “ماحولیاتی ترقی” میں تبدیلی کا یہ سفر نہ صرف چین کی سبز ترقی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، بلکہ چین کی سبز ترقی کی گہری دانش مندی کو بھی اجاگر کرتا ہے اور عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک قابل قدر حوالہ فراہم کرتا ہے.

یوچھون کی ترقی کے سفر پر نظر ڈالتے ہوئے ، ہم واضح طور پر “دو پہاڑوں” کے تصور کی عملی منطق دیکھ سکتے ہیں۔ پچھلی صدی کی اسی اور نوے کی دہائیوں کے دوران ، یوچھون نے چونے کے پتھر کی کان کنی اور سیمنٹ فیکٹریاں قائم کرکے تیزی سے معاشی ترقی حاصل کی ، لیکن ماحول کو نقصان پہنچانے والے اس ترقیاتی ماڈل نے بھاری قیمت ادا کی: پہاڑ بے نقاب ہوگئےاور ان کی ساخت خراب ہو گئی ،

دریا کیچڑ بن گئے اور ہر جانب دھول پھیل گئی۔ 2005 میں “دو پہاڑوں” کے تصور نے ترقیاتی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کی۔ کانوں کو بند کرنے، ماحولیات کی بحالی، دیہی سیاحت اور خصوصی زراعت کو فروغ دینے کے بعد، یوچھون نے دس سال سے زیادہ عرصے میں ” گرے ڈیولپمنٹ ” سے ” سبز ترقی ” کی طرف ایک شاندار تبدیلی کی تشکیل کی ہے۔ تبدیلی سے پہلے کے مقابلے میں گاؤں والوں کی فی کس آمدنی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور ماحولیاتی خوبصورتی، صنعتی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی سب ایک ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

یو چھون کی کہانی دنیا کو بتاتی ہے کہ ماحولیاتی تحفظ ترقی کے لئے “بوجھ” نہیں ہے، بلکہ پائیدار ترقی کے لئے ایک “سرمایہ” ہے. اس ترقیاتی ماڈل پر پورے چین میں عمل کیا جا رہا ہے: سیہانبا کو صحرا سے جنگلات میں تبدیل کرنا، دریائے لی جیانگ کی “بے ترتیب ترقی” سے “خوبصورتی ” کا دوبارہ جنم لینا، اور چھنگ ہائی میں تین دریاؤں کے منبع کو “حد سے زیادہ چرانے” سے “ماحولیاتی انتظام” میں تبدیل کرنا وغیرہ ، ایک کے بعد ایک واضح اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ “دو پہاڑوں” کا تصور نہ صرف ایک گاؤں کی تقدیر کو تبدیل کر سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، بلکہ چین کے ترقیاتی نمونے کو بھی نئی شکل دیتا ہے، معاشی اور معاشرتی ترقی کی جامع سبز تبدیلی کو فروغ دیتا ہے، اور ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو فروغ دینے میں چین کے ٹھوس اقدامات کا ماخذ بن سکتا ہے.اس سال ” سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں”کے تصور کی 20 ویں سالگرہ ہے۔

گزشتہ ہفتے بیجنگ میں اس تصور کی عالمی اہمیت کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم میں بہت سے ممالک کے نمائندوں نے نشاندہی کی کہ ” دو پہاڑوں ” کا تصور چینی بھی ہے اور عالمی بھی، اور یہ تصور عالمی حیاتیاتی اور ماحولیاتی مسائل کے حل اور عالمی پائیدار ترقی کے لئے چینی دانش مندی اور چینی حل فراہم کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں چین کے “دو پہاڑوں” کے تصور کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعریف کرتے ہیں، ان کا مانناہے کہ چین کا تجربہ عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک قابل قدر مثال فراہم کرتا ہے.”دو پہاڑوں” کے تصور کے ذریعہ پیش کردہ ماحولیاتی ترجیح اور سبز ترقی کا راستہ مغربی صنعتی ماڈل سے برتری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ماحول کی قیمت پر “پہلے آلودگی اور پھر علاج” سے مختلف ہے، اور یہ تجریدی ماحولیاتی نظریے سے بھی مختلف ہے جو ترقی سے الگ ہے، بلکہ معاشی اور معاشرتی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان اتحاد اور توازن فراہم کرتا ہے. جیسا کہ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف ایکولوجیکل سولائزیشن کے ایگزیکٹو نائب صدر اینڈریو شوارٹز نے کہا: “چین ماحولیاتی تہذیب کی طرف عالمی تبدیلی کو فروغ دینے کی راہ پر ایک رہنما بن رہا ہے۔

چین نے ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کے تمام شعبوں میں “دو پہاڑوں ” کے تصور کو ضم کیا ہے ، جو ترقیاتی ماڈل کے لحاظ سے ایک قابل اعتماد متبادل حل فراہم کرتا ہے۔ ایسی قیادت بروقت، دور اندیش اور متاثر کن ہے۔ “دریائے یانگسی کی اقتصادی پٹی سے لے کر دریائے زرد کے طاس کے ماحولیاتی تحفظ اور اعلی معیار کی ترقی تک، ” کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل ” کے عزم سے لے کر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی تجویز تک ، “دو پہاڑوں” کا تصور چین میں ایک مقامی عمل سے عالمی گورننس کی پبلک پروڈکٹ بن گیا ہے۔

بڑھتے ہوئے شدید ماحولیاتی بحران کا سامنا کرتے ہوئے، انسانیت کو زیرو سم گیمز کی جغرافیائی سیاست کے بجائے “دو پہاڑوں” کے تصور جیسی دانش مند حکمت کی ضرورت ہے جو اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے اور ترقی کی سمت کی رہنمائی کر سکتی ہے. جب زیادہ سے زیادہ ممالک “صاف پانیوں اور سبز پہاڑوں” سے “سنہری پہاڑوں اور چاندی کے پہاڑوں” میں تبدیلی کا اپنا راستہ اپنائیں گے ، تو ایسے میں انسانیت واقعی ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ سکتی ہے جہاں لوگ اور فطرت ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا کی پاکستان کے تانبے میں دلچسپی، آفر آگئی امریکا کی پاکستان کے تانبے میں دلچسپی، آفر آگئی پاکستان پہلی بار متحدہ عرب امارات کو گوشت برآمد کرے گا، تاریخی معاہدہ طے پاگیا پاکستان سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، ہنڈرڈ انڈیکس بلند ترین سطح پر پہنچ گیا چین کی آزاد تجارتی بندرگاہ میں پاکستانی کاروباری شخصیت کے لئے بھرپور مواقع پاکستان کو خطے میں سب سے کم امریکی ٹیرف سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے ،عاطف اکرام شیخ زراعت شماری 2024: جدید ٹیکنالوجی اور شفافیت کے ساتھ 14 سال بعد تاریخی واپسی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کے تصور کی دو پہاڑوں اور عالمی یو چھون چھون کی

پڑھیں:

عالمی یکجہتی پائیدار ترقی کی ضمانت

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان سماجی انصاف، جامع ترقی اور عالمی یکجہتی کے لیے پرعزم ہے، قطر کے شہر دوحہ میں دوسری عالمی سماجی ترقی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات چوبیس کروڑ پاکستانیوں کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا حالیہ خطاب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والی سماجی ترقی کے لیے دوسری عالمی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی قومی پالیسی، علاقائی خدشات اور عالمی تعلقات کے حوالے سے ایک جامع اور بامعنی اظہارِ خیال کیا۔ یہ خطاب محض ایک سفارتی تقریر نہیں بلکہ پاکستان کے اجتماعی شعور، خطے کی حساس صورتحال اور عالمی برادری کے ساتھ ہمارے تعلقات کے نئے رخ کی عکاسی کرتا ہے۔

صدر مملکت نے جہاں سماجی انصاف، پائیدار ترقی اور جامعیت کے اصولوں پر بات کی، وہیں انھوں نے ایک نہایت اہم اور تشویش ناک مسئلے کی نشاندہی بھی کی اور وہ ہے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا خطرہ۔ ان کا یہ انتباہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی معیشت، ثقافت اور طرزِ زندگی سب دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ، جو 1960میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی ضامنوں کی نگرانی میں طے پایا تھا، اسی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ پانی کسی بھی صورت میں جنگ یا سیاسی دباؤ کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

تاہم گزشتہ چند برسوں میں بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزیاں اور دریاؤں کے بہاؤ میں غیر فطری تبدیلیاں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ صدر مملکت نے جب دوحہ کے عالمی فورم پر اس خطرے کو اجاگر کیا تو درحقیقت انھوں نے دنیا کو متنبہ کیا کہ اگر پانی کے مسئلے پر سنجیدگی نہ برتی گئی تو مستقبل کی جنگیں تیل یا زمین کے بجائے پانی پر لڑی جائیں گی۔

یہ امر قابلِ غور ہے کہ پاکستان کے پاس پہلے ہی پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ خوراک کے مطابق، پاکستان پانی کی قلت والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ ایک طرف گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، دوسری جانب دریاؤں کا قدرتی بہاؤ متاثر ہو رہا ہے، ایسے میں اگر سرحد پار سے پانی کو بطور سیاسی دباؤ استعمال کیا جائے تو یہ پاکستان کی زراعت، صنعت، توانائی اور انسانی بقا کے لیے شدید خطرہ بن سکتا ہے۔ صدر زرداری نے اس مسئلے کو چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے سنگین خطرہ قرار دے کر نہ صرف ایک قومی موقف پیش کیا بلکہ عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ پانی کے مسئلے کو انسانیت کے مشترکہ چیلنج کے طور پر دیکھے۔

صدر مملکت کا یہ بیان محض انتباہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی قانونی اور اخلاقی سوال بھی اٹھاتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور بھارت اس کا فریق ہے، اگر ایک فریق اپنی ذمے داریوں سے انحراف کرتا ہے تو اس کے اثرات صرف ایک ملک پر نہیں بلکہ پورے خطے کے امن پر پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اس مؤقف کو عالمی فورمز پر بار بار پیش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

صدر زرداری کا یہ اقدام سفارتی سطح پر ایک درست اور بروقت کوشش ہے، جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک اخلاقی جواز فراہم کرتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں صرف خطرات پر بات نہیں کی بلکہ حل کی راہ بھی دکھائی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان سماجی انصاف، جامع ترقی اور عالمی یکجہتی کے اصولوں پر کاربند ہے۔ انھوں نے دوحہ سیاسی اعلامیے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا وژن اس اعلامیے کی روح سے ہم آہنگ ہے۔

یہ بات اس لیے اہم ہے کہ دنیا اس وقت ایک غیر متوازن ترقی کے دور سے گزر رہی ہے۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی ڈھانچہ ایسے نظام پر کھڑا ہے جس میں طاقتور ممالک کو زیادہ اور کمزور ممالک کو کم مواقع ملتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی سطح پر ان اصولوں کی حمایت کرے جو برابری، انصاف اور مشترکہ ترقی پر مبنی ہوں۔

صدر آصف علی زرداری نے دوحہ کانفرنس میں ایک اور اہم نکتہ اٹھایا، تعلیم اور خواندگی۔ انھوں نے کہا کہ آیندہ پانچ سالوں میں پاکستان میں خواندگی کی شرح 90 فیصد تک بڑھانے اور ہر بچے کے اسکول جانے کو یقینی بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ ایک بلند ہدف ہے، مگر قابلِ تعریف بھی۔ پاکستان میں اس وقت دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جو ایک قومی المیہ ہے، اگر واقعی حکومت اس سمت میں مؤثر پالیسی اپناتی ہے تو یہ صرف تعلیمی میدان میں کامیابی نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب ہوگا۔ تعلیم وہ بنیاد ہے جس پر پائیدار ترقی کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔

صدر مملکت کے خطاب میں بار بار ’’ جامعیت‘‘ اور ’’ پائیداری‘‘ کے الفاظ دہرائے گئے، جو ان کے وژن کی کلید ہیں۔ جامع ترقی کا مطلب ہے کہ ترقی کے ثمرات صرف چند طبقوں تک محدود نہ رہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد تک پہنچیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اکثر ترقی پذیر ممالک میں نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ اگر ترقی صرف GDP یا معیشت کے اعداد و شمار تک محدود رہے اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہ آئے، تو ایسی ترقی کھوکھلی ہے۔ صدر زرداری نے اس تضاد کی طرف بالواسطہ توجہ دلائی کہ اصل ترقی وہ ہے جو عام شہری کی زندگی کو بہتر بنائے، غربت کم کرے، تعلیم عام کرے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔

ان کا دوحہ میں دیا گیا پیغام بین الاقوامی سیاست کے موجودہ تناظر میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا اس وقت کئی بحرانوں سے گزر رہی ہے، ماحولیاتی تبدیلی، علاقائی تنازعات، معاشی دباؤ، مہنگائی اور پناہ گزینوں کے بڑھتے مسائل۔ ایسے وقت میں پاکستان کا مؤقف کہ ’’ عالمی یکجہتی ہی پائیدار ترقی کی ضمانت ہے‘‘ ایک متوازن اور دانشمندانہ سوچ کی علامت ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے عالمی برادری میں ایک ذمے دار ملک کے طور پر ابھرا ہے، جس نے امن، تعاون اور انسانیت کے اصولوں کی حمایت کی ہے۔اگر صدر زرداری کے خطاب کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ پاکستان تصادم نہیں بلکہ تعاون کی راہ پر یقین رکھتا ہے۔

پاکستان کا جغرافیہ اسے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک قدرتی پل بناتا ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو علاقائی ہم آہنگی اور اقتصادی روابط کے فروغ کے لیے استعمال کرے۔ پانی کے مسئلے پر آواز اٹھانا، دراصل امن کے حق میں آواز بلند کرنا ہے۔پاکستان کو اپنے داخلی چیلنجز پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا مؤقف مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا۔ پانی کا مسئلہ صرف ایک ماحولیاتی معاملہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔

 پاکستان کو اپنے آبی ذخائر میں بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ نئے ڈیموں کی تعمیر، پانی کے ضیاع کو روکنے، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، اور عوامی شعور بیدار کرنے کی مہمات شروع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم صرف دوسروں پر الزام لگا کر بیٹھ جائیں تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پانی کے تحفظ کو قومی ایجنڈے میں اولین ترجیح دینا ہوگی۔تاہم اس وژن کو حقیقت بنانے کے لیے صرف بیانات کافی نہیں۔ حکومت کو مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ، شفاف نظام، اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہوگا۔

صدر زرداری کا یہ خطاب پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک مثبت تاثر پیدا کرتا ہے کہ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں بلکہ عالمی ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ تاہم، ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بیانات سے زیادہ اہم عمل ہے۔ دنیا اُن ممالک کی بات سنتی ہے جو اپنے داخلی معاملات کو سنبھال کر عالمی سطح پر فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو تسلسل دے، سیاسی استحکام کو ترجیح دے، اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو ذاتی یا جماعتی سیاست سے بالاتر رکھے۔

صدر آصف علی زرداری کا دوحہ میں خطاب اس لحاظ سے تاریخی بھی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پاکستان کی ترقیاتی پالیسیوں کو عالمی فریم ورک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے پاکستان ایک ذمے دار، پرعزم اور ترقی پسند ریاست کے طور پر عالمی برادری میں اپنی شناخت مزید مستحکم کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان الفاظ کو عملی اقدامات سے تقویت دی جائے، تاکہ دنیا یہ دیکھ سکے کہ پاکستان صرف وعدے نہیں کرتا بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی یکجہتی پائیدار ترقی کی ضمانت
  • شامی صدر احمد الشرعہ کا برازیل میں ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کا اعلان
  • افغان حکومت امن کیلیے دانش مندی سے فیصلے کرے، خواجہ آصف کا مشورہ
  • افغان حکومت امن کیلیے دانش مندی سے فیصلے کرے، وزیر دفاع کا مشورہ
  • “ہر آغاز کا ایک انجام ہوتا ہے” رونالڈو نے ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے دیا
  • عالمی انوائرمنٹ کانفرنس میں شرکت؛ مریم نواز کل سرکاری دورے پر برازیل روانہ ہونگی
  • چینی کی سرکاری قیمت پر عدم دستیابی
  • “ژالہ باری کی سرد چپ”
  • عالمی سیمی کنڈکٹر سپلائی چین میں افراتفری کی پوری ذمہ داری نیدرلینڈز پر عائد ہے، چینی وزارت تجارت
  • مقبوضہ جموں وکشمیر کے اسکولوں میں “وندے ماترم” پڑھنا لازمی قرار