گاؤں یو چھون کی بیس سالہ تبدیلیاں: “دو پہاڑوں” کے تصور کی چینی دانش مندی اور عالمی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
گاؤں یو چھون کی بیس سالہ تبدیلیاں: “دو پہاڑوں” کے تصور کی چینی دانش مندی اور عالمی اہمیت WhatsAppFacebookTwitter 0 7 August, 2025 سب نیوز
بیجنگ : 15 اگست 2005 کو جب شی جن پھنگ نے صوبہ ژی جیانگ کے یو چھون گاؤں کا دورہ کیا تو انہوں نے پہلی بار “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کا تصور پیش کیا۔ گزشتہ 20 سالوں کے دوران ، یہ تصور ماحولیاتی تہذیب کے بیج کی طرح چین کی سرزمین پر جڑ پکڑ چکا ہے اور ابھرا ہے ، جس نے معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے مابین ہم آہنگی کا ایک نیا راستہ تخلیق کیا ہے۔
یو چھون میں “پہاڑوں پر کان کنی ” سے لے کر “ماحولیاتی ترقی” میں تبدیلی کا یہ سفر نہ صرف چین کی سبز ترقی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، بلکہ چین کی سبز ترقی کی گہری دانش مندی کو بھی اجاگر کرتا ہے اور عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک قابل قدر حوالہ فراہم کرتا ہے.
دریا کیچڑ بن گئے اور ہر جانب دھول پھیل گئی۔ 2005 میں “دو پہاڑوں” کے تصور نے ترقیاتی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کی۔ کانوں کو بند کرنے، ماحولیات کی بحالی، دیہی سیاحت اور خصوصی زراعت کو فروغ دینے کے بعد، یوچھون نے دس سال سے زیادہ عرصے میں ” گرے ڈیولپمنٹ ” سے ” سبز ترقی ” کی طرف ایک شاندار تبدیلی کی تشکیل کی ہے۔ تبدیلی سے پہلے کے مقابلے میں گاؤں والوں کی فی کس آمدنی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور ماحولیاتی خوبصورتی، صنعتی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی سب ایک ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
یو چھون کی کہانی دنیا کو بتاتی ہے کہ ماحولیاتی تحفظ ترقی کے لئے “بوجھ” نہیں ہے، بلکہ پائیدار ترقی کے لئے ایک “سرمایہ” ہے. اس ترقیاتی ماڈل پر پورے چین میں عمل کیا جا رہا ہے: سیہانبا کو صحرا سے جنگلات میں تبدیل کرنا، دریائے لی جیانگ کی “بے ترتیب ترقی” سے “خوبصورتی ” کا دوبارہ جنم لینا، اور چھنگ ہائی میں تین دریاؤں کے منبع کو “حد سے زیادہ چرانے” سے “ماحولیاتی انتظام” میں تبدیل کرنا وغیرہ ، ایک کے بعد ایک واضح اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ “دو پہاڑوں” کا تصور نہ صرف ایک گاؤں کی تقدیر کو تبدیل کر سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، بلکہ چین کے ترقیاتی نمونے کو بھی نئی شکل دیتا ہے، معاشی اور معاشرتی ترقی کی جامع سبز تبدیلی کو فروغ دیتا ہے، اور ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو فروغ دینے میں چین کے ٹھوس اقدامات کا ماخذ بن سکتا ہے.اس سال ” سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں”کے تصور کی 20 ویں سالگرہ ہے۔
گزشتہ ہفتے بیجنگ میں اس تصور کی عالمی اہمیت کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم میں بہت سے ممالک کے نمائندوں نے نشاندہی کی کہ ” دو پہاڑوں ” کا تصور چینی بھی ہے اور عالمی بھی، اور یہ تصور عالمی حیاتیاتی اور ماحولیاتی مسائل کے حل اور عالمی پائیدار ترقی کے لئے چینی دانش مندی اور چینی حل فراہم کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں چین کے “دو پہاڑوں” کے تصور کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعریف کرتے ہیں، ان کا مانناہے کہ چین کا تجربہ عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک قابل قدر مثال فراہم کرتا ہے.”دو پہاڑوں” کے تصور کے ذریعہ پیش کردہ ماحولیاتی ترجیح اور سبز ترقی کا راستہ مغربی صنعتی ماڈل سے برتری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ماحول کی قیمت پر “پہلے آلودگی اور پھر علاج” سے مختلف ہے، اور یہ تجریدی ماحولیاتی نظریے سے بھی مختلف ہے جو ترقی سے الگ ہے، بلکہ معاشی اور معاشرتی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان اتحاد اور توازن فراہم کرتا ہے. جیسا کہ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف ایکولوجیکل سولائزیشن کے ایگزیکٹو نائب صدر اینڈریو شوارٹز نے کہا: “چین ماحولیاتی تہذیب کی طرف عالمی تبدیلی کو فروغ دینے کی راہ پر ایک رہنما بن رہا ہے۔
چین نے ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کے تمام شعبوں میں “دو پہاڑوں ” کے تصور کو ضم کیا ہے ، جو ترقیاتی ماڈل کے لحاظ سے ایک قابل اعتماد متبادل حل فراہم کرتا ہے۔ ایسی قیادت بروقت، دور اندیش اور متاثر کن ہے۔ “دریائے یانگسی کی اقتصادی پٹی سے لے کر دریائے زرد کے طاس کے ماحولیاتی تحفظ اور اعلی معیار کی ترقی تک، ” کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل ” کے عزم سے لے کر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی تجویز تک ، “دو پہاڑوں” کا تصور چین میں ایک مقامی عمل سے عالمی گورننس کی پبلک پروڈکٹ بن گیا ہے۔
بڑھتے ہوئے شدید ماحولیاتی بحران کا سامنا کرتے ہوئے، انسانیت کو زیرو سم گیمز کی جغرافیائی سیاست کے بجائے “دو پہاڑوں” کے تصور جیسی دانش مند حکمت کی ضرورت ہے جو اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے اور ترقی کی سمت کی رہنمائی کر سکتی ہے. جب زیادہ سے زیادہ ممالک “صاف پانیوں اور سبز پہاڑوں” سے “سنہری پہاڑوں اور چاندی کے پہاڑوں” میں تبدیلی کا اپنا راستہ اپنائیں گے ، تو ایسے میں انسانیت واقعی ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ سکتی ہے جہاں لوگ اور فطرت ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا کی پاکستان کے تانبے میں دلچسپی، آفر آگئی امریکا کی پاکستان کے تانبے میں دلچسپی، آفر آگئی پاکستان پہلی بار متحدہ عرب امارات کو گوشت برآمد کرے گا، تاریخی معاہدہ طے پاگیا پاکستان سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، ہنڈرڈ انڈیکس بلند ترین سطح پر پہنچ گیا چین کی آزاد تجارتی بندرگاہ میں پاکستانی کاروباری شخصیت کے لئے بھرپور مواقع پاکستان کو خطے میں سب سے کم امریکی ٹیرف سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے ،عاطف اکرام شیخ زراعت شماری 2024: جدید ٹیکنالوجی اور شفافیت کے ساتھ 14 سال بعد تاریخی واپسیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کے تصور کی دو پہاڑوں اور عالمی یو چھون چھون کی
پڑھیں:
حکومت ماحولیات کے تحفظ کیلئے سنجیدہ نظر آ رہی ہے. لاہور ہائیکورٹ
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 اگست ۔2025 )لاہور ہائیکورٹ نے سموگ کے تدارک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ حکومت ماحولیات کے تحفظ کیلئے سنجیدہ نظر آ رہی ہے لاہور ہائیکورٹ میں سموگ کے تدارک کے لیے دائر درخواستوں پر جسٹس شاہد کریم نے سماعت کی، جس دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز عدالت کے روبرو پیش ہوئے.(جاری ہے)
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے کینال روڈ یلو ٹرین منصوبے سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ منصوبے کا پی سی ون ابھی تک تیار نہیں کیا گیا، کینال روڈ سے متعلق فی الحال کوئی باضابطہ دستاویز یا ریکارڈ موجود نہیں امجد پرویز نے یقین دہانی کروائی کہ اگر حکومت مستقبل میں کینال روڈ پر یلو ٹرین منصوبہ لاتی ہے تو اس کا پی سی ون عدالت میں پیش کیا جائے گا. عدالت نے اس موقع پر واضح ہدایات جاری کیں کہ اگر ایسا کوئی منصوبہ پیش کیا جائے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ درختوں کو نقصان نہ پہنچے، کینال روڈ پر موجود چھوٹے درخت اب بڑے ہو چکے ہیں، ان کی افزائش میں برسوں کی محنت شامل ہے اور یہ علاقہ قومی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے. عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز کی سنجیدہ قانونی معاونت پر ان کی تعریف کی اور ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے پنجاب حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت ماحولیات سے متعلق کافی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور عملی اقدامات بھی کر رہی ہے. واضح رہے کہ عدالت یہ سماعت شہری ہارون فاروق سمیت دیگر کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پر کر رہی تھی جن میں سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے مثر حکومتی اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے ماضی میں مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے کینال روڈکے توسیعی منصوبوں کے دوران نہرکے کنارے سینکڑوں سال پرانے درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی کا معاملہ بھی عدالتوں میں زیرسماعت رہا ہے. ماحولیاتی امورکے ماہرین بھی مسلم لیگ نون اور جنرل پرویزمشرف کے دور میں مسلم لیگ قاف کی پنجاب حکومتوں کو لاہور کوماحولیات اور آلودگی سمیت دیگر مسائل کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں کیونکہ ان ادوار حکومت میں شہر کو بغیرکسی منصوبہ بندی کے توسیع دی گئی جس سے شہر کے چاروں طرف زرعی علاقے‘جنگلات اور آبائی ذخائرختم ہوتے گئے اور ان کی جگہ ہاﺅسنگ سوئیٹیاں بنتی گئیں اس کے علاوہ شہر میں ٹریفک کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی آج لاہور میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعدادایک کروڑکے قریب بتائی جاتی ہے جن میں نصف کے قریب موٹرسائیکلیں ہیں . ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ تقریبا ایک صدی پہلے بدترین ماحولیاتی آلودگی سامنا کرچکا ہے جب صنعتی ترقی اورگاڑیوں کی اچانک بہتات ہونے سے ماحولیاتی آلودگی نے پورے خطے کو لپیٹ میں لے لیا تھا آج یورپی ماہرین ٹریفک کو ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ اسی لیے قراردیتے ہیں . انہوں نے کہاکہ یورپ نے اس سے سبق سیکھا اور ایندھن کے لیے معیار مقررکیا اسی طرح گاڑیاں بنانے والے کارخانوں کے لیے سخت ضوابط طے کیئے گئے جن کے تحت وہ گاڑیوں میں خصوصی آلات لگانے کے پابند ہیں جن سے آلودگی پھیلنے کے خطرات کم سے کم ہوں جبکہ یورپ میں ایندھن کے لیے مقررمعیار کو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ملکوں نے بھی اپنایا تاہم پاکستان جیسے ملکوں میں حکومتیں ماحولیات کو مسلہ ہی نہیں سمجھتیں جس کی مثال نمائشی شجر کاری کی مہمات ہیں جن میں ایسے پودوں کو پرموٹ کیا جاتا ہے جن کا ہمارے ماحول‘زمین اور آب وہوا سے کوئی تعلق نہیں .