Jasarat News:
2025-11-07@18:08:54 GMT

سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ: اسلام بطور نظامِ حیات

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-03-5

 

میر بابر مشتاق

دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جو اپنے فکر و عمل کے ذریعے نہ صرف اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کا چراغ جلا گئیں۔ بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایسی ہی ایک شخصیت سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو محض عقیدہ، چند رسوم اور عبادات کا مجموعہ بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ اسے ایک مکمل اور ہمہ گیر نظامِ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے رکھا۔ یہ وہ پہلو ہے جس نے انہیں بیسویں صدی کی سب سے مؤثر اسلامی شخصیتوں میں شامل کر دیا۔

جب انہوں نے آنکھ کھولی تو برصغیر پر انگریز سامراج کی گرفت مضبوط تھی۔ مغل سلطنت کا چراغ گل ہو چکا تھا اور مسلمان اپنی تہذیبی، علمی اور سیاسی حیثیت کھو بیٹھے تھے۔ ایک طبقہ مغربی تہذیب کے سامنے مسحور ہو کر اسلام کو محض نجی عبادات تک محدود کر دینا چاہتا تھا، جبکہ دوسرا طبقہ خانقاہی رسوم اور پیر پرستی میں گم تھا۔ اس ماحول میں سید مودودیؒ نے یہ پیغام دیا کہ اسلام صرف مسجد اور خانقاہ تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی انفرادی، اجتماعی اور ریاستی زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس چاہتے ہیں تو انہیں اسلام کو مکمل ضابطہ ٔ حیات کے طور پر اپنانا ہوگا۔

ان کے نزدیک اسلام کی بنیاد توحید ہے، اور توحید محض زبان سے پڑھ لینے کا عقیدہ نہیں بلکہ عملی نظام کی اساس ہے۔ اگر انسان اللہ کی حاکمیت کو مان لیتا ہے تو پھر کسی اور قانون، فلسفے یا نظام کے آگے سر جھکانا اس کے لیے جائز نہیں رہتا۔ سیاست میں ان کا نظریہ تھا کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کے پاس ہے اور انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کسی فرد، خاندان یا طبقے کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کے احکام کی تابع ایک ادارہ ہے۔ معاشی میدان میں انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو استحصالی اور سود کو صریح ظلم قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سود پر مبنی معیشت انسانیت کو غلام بنا دیتی ہے جبکہ اسلام کا عدل پر مبنی نظام انسان کو سکون اور انصاف فراہم کرتا ہے۔ معاشرت کے باب میں انہوں نے خاندان کی بنیاد پر قائم ایک ایسی معاشرت کا تصور دیا جو تعلیم، اخلاق، عدل اور فطرت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ یہی فکر آگے چل کر جماعت اسلامی کی بنیاد بنی جسے انہوں نے اس مقصد کے لیے قائم کیا کہ اسلامی نظام کو محض کتابوں میں نہ چھوڑا جائے بلکہ ایک منظم جدوجہد کے ذریعے عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔

سید مودودیؒ کی تصنیفی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے درجنوں کتب تحریر کیں اور سیکڑوں مضامین لکھے۔ ان کی کتاب تفہیم القرآن ان کے فکری کارنامے کا سنگ ِ میل ہے جس میں انہوں نے قرآن کو جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے سادہ اور عقلی زبان میں بیان کیا۔ اس کے علاوہ الجہاد فی الاسلام میں جہاد کے صحیح مفہوم کو اُجاگر کیا، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی میں اسلامی تمدن کی اساسات بیان کیں، سود میں سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں پر روشنی ڈالی اور اسلامی ریاست میں ایک مکمل سیاسی تصور پیش کیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف اردو خواں طبقے کے لیے مشعل ِ راہ بنیں بلکہ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ نئی ریاست کا نظام کیا ہوگا، تو سید مودودیؒ کی فکر نے ہی اس بحث کا رُخ متعین کیا۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں 1949 کی قراردادِ مقاصد سامنے آئی جس میں یہ طے ہوا کہ پاکستان کا نظام اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔ بعدازاں 1973 کے آئین میں بھی اسلام کو بنیادی حیثیت دینے میں ان کے افکار اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کا کردار نمایاں رہا۔ یہ ان کی فکری اور تحریکی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ پاکستان محض ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریاتی ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا۔یقینا ہر بڑی شخصیت کی طرح سید مودودیؒ کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکولر طبقہ انہیں مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے والا قرار دیتا رہا جبکہ بعض علماء نے ان پر جدید تعبیرات کے الزامات لگائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی سب سے بڑی خدمت یہی تھی کہ انہوں نے اسلام کو مسجد سے نکال کر معیشت، سیاست، عدالت، تعلیم اور معاشرت کے ہر میدان تک پہنچایا۔ وہ کہتے تھے: ’’اسلام کو صرف عبادات تک محدود کر دینا، اس کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی ہے‘‘۔

آج جب دنیا سرمایہ دارانہ ظلم، اخلاقی انارکی اور تہذیبی بحران کا شکار ہے، نوجوان نسل ایک ایسے متبادل کی تلاش میں ہے جو انہیں سکون، عدل اور رہنمائی دے سکے۔ مغربی فلسفے ناکام ہو چکے ہیں۔ سرمایہ داری نے چند ہاتھوں میں دولت کو سمیٹ لیا ہے، اشتراکیت نے انسان کی آزادی کو ختم کیا اور سیکولر ازم نے روحانی سکون چھین لیا۔ ایسے وقت میں سید مودودیؒ کی فکر پہلے سے زیادہ زندہ اور متحرک دکھائی دیتی ہے۔ انہیں یقین تھا کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ اس یقین کی بنیاد صرف جذبات نہیں بلکہ قرآن کی وہ بشارت تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے‘‘۔ (الصف: 9) ان کے نزدیک اسلام انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے، اسی لیے یہ لازماً غالب آ کر رہے گا۔ آج دنیا بھر میں اسلامی تحریکیں، چاہے وہ مشرقِ وسطیٰ میں ہوں، ترکی، افریقا یا جنوبی ایشیا میں، سب کسی نہ کسی درجے میں ان کی فکر سے فیض یاب ہو رہی ہیں۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اسلام کو محض ایک مذہب نہیں بلکہ مکمل اور ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے بتا دیا کہ اسلام انسان کی نجی زندگی سے لے کر ریاستی نظام تک ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ آج کی دنیا جس فکری اور تہذیبی بحران سے دوچار ہے، اس کا حل صرف اسی نظام میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام آج بھی تازہ ہے، ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور ان کی فکر آج بھی کروڑوں دلوں کو بیدار کر رہی ہے۔یقینا مستقبل اسلام کا ہے۔ یہ قرآن کا وعدہ بھی ہے اور تاریخ کا ناگزیر انجام بھی۔ سید مودودیؒ نے اسی مستقبل کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اب یہ ذمے داری امت کی ہے کہ وہ اس فکر کو آگے بڑھائے اور دنیا کو عدل، سکون اور رہنمائی کا حقیقی پیغام دے۔

 

میر بابر مشتاق.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انہوں نے اس انہوں نے ا نہیں بلکہ کے طور پر کہ اسلام کی بنیاد اسلام کو کی فکر کے لیے کو محض تھا کہ بلکہ ا

پڑھیں:

اجتماع عام سے نظام کی مکمل تبدیلی کی ملک گیر تحریک کا آغاز ہوگا‘ حافظ نعیم الرحمن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251107-01-13
لاہور(نمائندہ جسارت)امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اجتماع عام کے موقع پر جماعت اسلامی نظام کی مکمل تبدیلی کے لیے منظم ملک گیر جدوجہد کا آغاز کرے گی۔ ہماری مزاحمتی تحریک آئینی فریم ورک کے اندر ہوگی۔ ’’بدل دو نظام‘‘ کے نعرہ کے تحت مینار پاکستان پر ہونے والا اجتماع عام دنیا کی حالیہ سیاسی تحریکوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔ گریٹر اقبال پارک کے 329 ایکڑ میں انسانوں کا سمندر نظر آئے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو مینار پاکستان گراؤنڈ میں اجتماع عام کے مرکزی کیمپ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب اور بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔افتتاحی تقریب کے اہم شرکا میں نائب امرا لیاقت بلوچ، پروفیسر محمد ابراہیم، میاں محمد اسلم، ڈاکٹر اسامہ رضی، ڈاکٹر عطاالرحمن، ڈپٹی سیکرٹریز اظہر اقبال حسن، مولانا عبدالحق ہاشمی، شیخ عثمان فاروق، ممتاز سہتو، امیر پنجاب وسطی جاوید قصوری، امیر پنجاب شمالی ڈاکٹر طارق سلیم، امیر ہزارہ عبدالرزاق عباسی، امیر لاہور ضیاالدین انصاری ایڈووکیٹ شامل تھے۔ ڈپٹی سیکرٹری وقاص انجم جعفری نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن نے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور ناظم اجتماع کی متعلقہ امور کو احسن طریقے سے انجام دینے پر تحسین کی۔ انہوں نے ترکی میں 129 ایکڑ پر ہونے والے دنیا کی حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی اجتماع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ جماعت اسلامی کا 21، 22 اور23 نومبر کو ہونے والا اجتماع ترکی کا ریکارڈ توڑ دے گا۔ انھوں نے کہا کہ اجتماع عام میں عالم اسلام کے پویلین قائم کریں گے۔ تاجر، صنعتکار، نوجوان اور طلبہ تحریکوں کے کارکنان اور رہنما جمع ہوں گے۔ اس موقع پر قومی معاشی پالیسی کی قرارداد پاس ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ سود کی لعنت کے ہوتے ہوئے معیشت بہتر نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ اجتماع عام میں خواتین کی بہت بڑی تعداد جمع ہوگی جن کے لیے علیحدہ انتظامات کیے گئے ہیں۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جماعت اسلامی اجتماع عام کے موقع پر قوم کے سامنے تعلیم کے شعبے میں بہتری، عدالتی اصلاحات کا مکمل ایجنڈا پیش کرے گی۔ استحصالی نظام نے مزدوروں، چھوٹے کسانوں کو کچل کر رکھ دیا ہے، زراعت میں کارپوریٹ سیکٹر کا نیا رجحان جاگیرداری نظام کا تسلسل ہے،ملک میں افسر شاہی اپنے آپ کو حاکم تصور کرتی ہے، سیاست وراثت، خاندان اور ذات کے گرد گھوم رہی ہے۔ ان حالات میں ایک منظم سیاسی جماعت ہی فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی نے آئی پی پیز کے خلاف کامیاب تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں قوم کو سستی بجلی ملی اور خزانے کو اربوں کا فائدہ ہوا۔ اجتماع عام سے نظام کی تبدیلی کی منظم ملک گیر تحریک کا آغاز ہوگا۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے 26ویں ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کیا اور اس موقع پر اپوزیشن کو حکومت سے بات چیت میں نہ الجھنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ہم مجوزہ 27ویں ترمیم کو بھی مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔نائب امیر اور ناظم اجتماع عام لیاقت بلوچ نے انتظامات سے متعلق بریفنگ دی اور بتایا کہ انتظامی امور کے لیے 4 سو کے قریب ارکان پر مشتمل 37کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ اجتماع عام میں شرکت کے لیے آن لائن رجسٹریشن کا آغاز ہوچکا ہے، تمام پروگرامات سوشل میڈیا پر براہ راست نشر ہوں گے، معلومات سے مکمل آگاہی کے لیے خصوصی ویب سائٹ اور ایپ تیار کی گئی ہے۔ جماعت اسلامی کے 50ویں سالانہ اجتماع کے لیے 10 ترانے بھی تیار ہوئے ہیں۔

لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن مینار پاکستان گراؤنڈ میں اجتماع عام کے مرکزی کیمپ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • 27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم
  • اجتماع عام سے نظام کی مکمل تبدیلی کی ملک گیر تحریک کا آغاز ہوگا‘ حافظ نعیم الرحمن
  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • اجتماع عام جلسہ نہیں انقلاب اسلامی کی پکار ہوگا ، جماعت اسلامی اٹک
  • اجتماع عام عوام کے اندر سے مایوسی کا خاتمہ کرے گا ، احمد
  • جمعیت سے وابستہ رہا، سید مودودیؒ کی تحریریں ذہن پر نقش ہیں، سعد رفیق
  • اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اور کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں بطور مہمان خصوصی ورچوئل خطاب کررہے ہیں
  • وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کا ٹمبر مافیا کے خلاف اعلانِ جنگ
  • اجتماع عام بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا،جماعت اسلامی پنجاب
  • مسائل و بحرانوں کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں ہے‘ مولانا عبد الماجد