بیجنگ میں روبوٹ مال کھل گیا، انواع و اقسام کیی مشینی پروڈکٹس دستیاب
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
چین نے مصنوعی ذہانت اور روبوٹک ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایک اور اہم قدم اٹھاتے ہوئے دارالحکومت بیجنگ میں ’روبوٹ مال‘ کے نام سے ایک منفرد اسٹور کھول دیا ہے جہاں عام عوام کے لیے ہیومینائیڈ روبوٹس، مکینیکل بٹلرز اور مشہور شخصیات کی مشینی نقلیں دستیاب ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: روبوٹس کو کھا کر طاقت بڑھانے والا نیا روبوٹ، کہیں اس کا اگلا شکار انسان تو نہیں؟
یہ اسٹور ملک کے ان اولین مراکز میں شامل ہے جہاں انسان نما اور صارفین کے لیے تیار کردہ روبوٹس کو براہ راست فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس منفرد مال میں 100 سے زائد اقسام کے روبوٹس رکھے گئے ہیں جن میں مختلف قیمتوں اور صلاحیتوں کے ماڈلز شامل ہیں۔
اس منصوبے کے نگران وانگ یفان کا کہنا ہے کہ روبوٹس کو عام گھروں تک پہنچانے کے لیے صرف روبوٹ بنانے والی کمپنیوں پر انحصار کافی نہیں۔ ان کے مطابق، روبوٹس کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں صارفین کی براہ راست دسترس میں لایا جائے۔
مزید پڑھیے: انسان نما روبوٹ کا کمال، ملکہ الزبتھ کے بعد شاہ چارلس کی بھی تصویر بنا ڈالی
روبوٹ مال کو ایک کار شوروم کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں صرف فروخت ہی نہیں، بلکہ پرزہ جات کی دستیابی، مرمت اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس میں ایک علیحدہ سیکشن مخصوص طور پر اسپیئر پارٹس اور سروسز کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
اس جدید اسٹور میں دستیاب روبوٹس کی قیمتیں 2 ہزار یوآن (تقریباً 278 امریکی ڈالر) سے شروع ہو کر کئی ملین یوآن تک پہنچتی ہیں۔ صارفین یہاں مختلف اقسام کے روبوٹس سے براہ راست گفتگو اور تعامل کر سکتے ہیں جن میں شطرنج کھیلنے والے روبوٹس، کتے جیسے روبوٹ، اور آئن اسٹائن جیسے دکھنے والے ہیومینائیڈ شامل ہیں۔
اس مال کے ساتھ ایک تھیمڈ ریستوران بھی قائم کیا گیا ہے جہاں کھانے کی تیاری سے لے کر پیش کرنے تک کا تمام عمل روبوٹس انجام دیتے ہیں۔ باورچی خانے میں مشینی شیف کام کرتے ہیں جبکہ روبوٹس ہی ویٹرز کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں جو اس تجربے کو مزید منفرد بناتے ہیں۔
چین حالیہ برسوں میں روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ صرف گزشتہ سال حکومت نے روبوٹک صنعت کو فروغ دینے کے لیے 20 ارب ڈالر سے زائد کی سبسڈی دی اور اب ایک ٹریلین یوآن کا خصوصی فنڈ قائم کرنے کا منصوبہ بھی سامنے آ چکا ہے جو کہ نئی روبوٹک اور اے آئی کمپنیوں کو سہارا دینے کے لیے استعمال ہوگا۔
چین کے سامنے سست معاشی ترقی اور عمر رسیدہ آبادی جیسے بڑے چیلنجز موجود ہیں، اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ٹیکنالوجی کو بطور حل اپنا لیا ہے۔ بیجنگ کا یہ روبوٹ مال اس سمت میں ایک اہم علامتی قدم تصور کیا جا رہا ہے جو ممکنہ طور پر مستقبل کی زندگی کا عملی آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسان نما روبوٹس بیجنگ بیجنگ روبوٹ مال چین روبوٹ اسٹور روبوٹ مال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسان نما روبوٹس بیجنگ روبوٹ مال چین روبوٹ اسٹور روبوٹ مال روبوٹ مال روبوٹس کو ہے جہاں کے لیے
پڑھیں:
ہائپرسونک طیارہ، بیجنگ سے پیرس ایک گھنٹے کا سفر، پہلی کب پرواز ہوگی؟ رپورٹ سامنے آگئی
امریکا، روس اور چین دنیا کی تین سپر پاورز ہیں جن کے درمیان معیشت، دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت تمام شعبوں میں سخت مقابلہ ہوتا ہے اور تینوں ممالک اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے نت نئی سائنسی ایجادات خاص طور پر دفاعی اور معاشی میدان میں مشکل فیصلے کرتے ہیں، جس سے دوسرے ممالک مشکلات کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔
چین عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات اور خام مال کی برآمدات میں دیگر دو بڑے ممالک سے آگے ہے اور یہاں تک امریکا بھی چین سے خام مال درآمد کرتا ہے جبکہ امریکا اور چین کے درمیان معاشی رساکشی بھی جاری ہے۔
دفاعی شعبے میں بھی چین اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اسلحے کی مارکیٹ میں امریکا، فرانس اور اسرائیل مختلف حوالوں سے نمایاں ہیں لیکن اب چین ان کو بھی مات دے رہا ہے۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق چین ہائپرسونک میزائل کی تیاری کے بعد ہائپرسونک جہاز بھی تیار کر رہا ہے اور اگر یہ جہاز تیار ہوگیا تو یہ طیارہ صرف 7 گھنٹوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے کا سفر کرے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین کی اسپیس ٹرانپورٹیشن نامی کمپنی نے یونکسنگ پروٹائپ طیاروں کا کامیابی سے تجربہ کرلیا ہے اور یہ کمرشل طیارہ میک 4 اسپیڈ سے پرواز کرے گا یعنی آواز سے 4 گنا تیز اس کی رفتار ہوگی۔
مذکورہ طیارے کی رفتار کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہائپر سونک طیارہ 3 ہزار 69 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرے جو تقریباً 5 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ بنتا ہے، جو تقریباً ریٹائرڈ کونکورڈ ایئرکرافٹ کی رفتار ہے۔
رپورٹ کے مطابق سپرسونک کونکورڈ دو ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرسکتا ہے جو آواز کی رفتار سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔
چین کے ہائپرسونک طیارے متعلق رپورٹس میں بتایا گیا کہ یہ طیارہ لندن سے نیویارک تک سفر صرف ڈیڑھ سے دو گھنٹوں میں مکمل کرلے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ طیارہ بیجنگمیں قائم کمپنی لنگکونگ ٹیانکسنگ ٹیکنالوجی بنا رہی ہے، کمپنی کا حوالہ دے کربتایا گیا کہ اس کا یونکسنگ پروٹوٹائپ طیارہ کامیاب پرواز کر چکا ہے تاہم انجن کے مزید ٹیسٹ نومبر میں ہوں گے۔
مزید بتایا گیا کہ اس پروجیکٹ کے تحت مکمل طور پر تیار ہائپرسونک مسافر طیارے کا 2027 تک پروازیں شروع کرنے کا منصوبہ ہے اور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ برق رفتار طیارہ میک 4 رفتار کا حامل ہوگا۔
طیارہ ساز کمپنی کا دعویٰ ہے کہ تیار ہونے والا سپر سونک طیارہ پیرس سے بیجنگ کے درمیان سفر محض ایک گھنٹے میں طے کرے گا اور بیجنگ سے نیویارک کا سفر دو گھنٹوں میں مکمل ہوجائے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب یہ طیارہ اپنی پروازیں شروع کرے گا تو ممالک کے درمیان سفر کا وقت انتہائی مختصر ہوسکتا ہے۔
اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو مذکورہ طیارہ پہلا سپرسونک جہاز ہوگا جس سے چین نے 25 سال میں تیار کیا ہے کیونکہ کونکورڈ نے اپنی پہلی پرواز 2003 میں بھری تھی۔
رپورٹ کے مطابق امریکا بھی کمرشل سپرسونک طیارے کے منصوبے بنا رہا ہے اور دیگر کمپنیاں بھی اس ریس میں ہیں لیکن اسپیس ٹرانسپورٹیشن اس کو حقیقت کا روپ دینے جا رہا ہے، امریکی کمپنی وینس ایرواسپیس ایک جیٹ انجن بنا رہی ہے، جس کے بارے میں خفیہ دعوے سامنے آئے ہیں کہ وہ میک 6 رفتار عبور کرسکتا ہے۔
اس مقابلے کی دوڑ سے ہائپرسونک معیشت کے دروازے کھل سکتے ہیں اور رپورٹ کے مطابق ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک ایلون مسک نے بھی ایسے اشارے دیے ہیں کہ وہ سپرسونک طیارے بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاہم وہ اپنے دیگر کئی بڑے کمرشل منصوبوں میں مصروف ہیں اور اس دوڑ میں اترنے کے لیے بے تاب نہیں ہیں۔