27ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوری طریقے سے کی جا رہی ہے،سینیٹر عبدالقادر
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
سینیٹ اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے پاکستان کی عدالتیں دنیا میں 129ویں نمبر پر ہیں، جبکہ عوام کو بروقت انصاف نہیں مل رہا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام کی عزت اور احترام لازمی ہے، دنیا نے ترقی اسی وقت کی جب جمہوریت کو مضبوط کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اب بھی 50 ہزار سے زائد کیسز زیرِ التوا ہیں، جس سے عدالتی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: 27 ویں آئینی ترمیم کی جُزوی حمایت سے لیکر یکسر مخالفت تک کون سی سیاسی جماعت کیا سوچ رہی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو انصاف حاصل کرنے کے لیے سفارش اور لابنگ کی ضرورت پیش آتی ہے، جو افسوسناک ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ فیڈرل آئینی عدالت صرف آئینی معاملات کے لیے قائم کی جائے تاکہ عدالتی وسائل سیاسی یا مالیاتی کیسز پر ضائع نہ ہوں اور غریب عوام کے مقدمات کو بروقت سنا جا سکے۔
سینیٹر عبدالقادر نے مزید کہا کہ پاکستان کا سول جسٹس سسٹم دنیا میں 124ویں اور کریمنل جسٹس سسٹم 108ویں نمبر پر ہے، جس سے عدالتی اصلاحات کی فوری ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں:27ویں ترمیم، آئینی عدالت کے قیام سے متعلق اہم نکات سامنے آگئے
انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوری طریقے سے کی جا رہی ہے، تاہم چھوٹی سیاسی جماعتوں کے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور باپ پارٹی کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
27ویں آئینی ترمیم سینیٹ اجلاس سینیٹر عبدالقادر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 27ویں ا ئینی ترمیم سینیٹ اجلاس سینیٹر عبدالقادر سینیٹر عبدالقادر کہا کہ رہی ہے
پڑھیں:
دباؤ، دھمکیوں اور زبردستی ترامیم منظور کرانا پارلیمانی وقار کی توہین ہے، سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس
چئیرمین ایم ڈبلیو ایم نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1973ء کا آئین پاکستانی تاریخ کی ایک متفقہ دستاویز تھا، جو قومی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے منظور ہوا، مگر افسوس ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے وقت تاریخی قومی روایات پامال کر دی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1973ء کا آئین پاکستانی تاریخ کی ایک متفقہ دستاویز تھا، جو قومی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے منظور ہوا، مگر افسوس ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے وقت تاریخی قومی روایات پامال کر دی ہیں جن پر یہ آئین قائم تھا، آئین کو متنازع بنانا ایک سنگین جرم ہے، دباؤ، دھمکیوں اور زبردستی کے ذریعے ترامیم منظور کرانا پارلیمانی وقار کی توہین ہے، ایسی قانون سازی جس میں اپوزیشن، عوام یا صوبائی نمائندوں کو اعتماد میں نہ لیا جائے، وہ کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بطورِ اپوزیشن اس وقت اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ یہ سب کچھ عوام اور نمائندوں سے چھپ کر کیوں کیا گیا؟ ایسے طرزِ عمل سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، جو لوگ یہ سب کروا رہے ہیں، نقصان اُنہی کا ہوگا، جب آئین متنازع ہو جائے، عوام کا اعتماد ختم ہو جائے، تو ملک بحرانوں میں ڈوب جاتا ہے، جب 1971 میں پاکستان ٹوٹا تھا تو اُس وقت بھی ہمارے پاس کوئی واضح آئین نہیں تھا، اگر اب بھی یہ آئین عوام کی نظر میں متنازع ہو گیا، تو لوگ ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات کریں گے، اس طرح راتوں رات ترامیم لانا پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے، قانون کے سامنے ہر فرد جوابدہ ہے، جو کچھ بھی حکمران بیرون ممالک جا کر طے کر رہے ہیں انہیں پارلیمنٹ میں بحث کے ذریعے منظور کروانا چاہیے ورنہ تمام ادارے اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب آئین عوام کے اتفاق سے نہ چلے تو ریاستی ادارے کمزور اور قوم تقسیم کا شکار ہو جاتی ہے، آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت واضح ہے، اسے کمزور کرنے والی ترامیم نہ صرف آئینی بلکہ دینی اصولوں کے بھی منافی ہیں، اگر چھبیسویں ترمیم پر عوامی ریفرنڈم کرایا جائے تو قوم اسے مسترد کر دے گی، اس قسم کے اقدامات ریاستی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں، پارلیمنٹ کو چاہیئے کہ وہ آئین کی روح کو مقدم رکھے اور ہر ترمیم اتفاقِ رائے سے منظور کرے، جلدبازی اور دباؤ کے تحت ترامیم لانا پاکستان کے آئینی، سیاسی اور اخلاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچائے گا، وقت آ گیا ہے کہ پارلیمنٹ اپنی اصل حیثیت بحال کرے، عوامی نمائندگی کو یقینی بنائے اور آئین کے تقدس کی حفاظت کرے۔