بھارت کے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اُٹھ گئے، مودی کے انتخابی فراڈ کا پردہ چاک
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
بھارت کے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے، جس سے مودی کے انتخابی فراڈ کا پردہ چاک ہوگیا۔
بی جے پی کے کٹھ پتلی مودی راج میں جمہوریت صرف نام کی اور الیکشن ایک اسٹیج ڈراما بن چکا ہے۔ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے مودی سرکار نے انتخابی فراڈ کو ریاستی پالیسی بنا لیا۔ نریندر مودی کے دور میں ووٹ بے معنی اور ای وی ایم سے جیت فکس کردی گئی ہے۔
بہار الیکشن سے پہلے ہی راہول گاندھی نے مودی کے جعلی مینڈیٹ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں بی جے پی دور کے انتخابی فراڈ کا پردہ چاک کر دیا کرتے ہوئے کہا کہ کروڑوں لوگوں کو انتخابات میں دھاندلی کا شک تھا، کیونکہ بی جے پی کو کبھی عوامی ناراضی کا سامنا نہیں ہوا۔ رائے شماری اور ایگزٹ پولز کچھ اور دکھاتے تھے، لیکن اصل نتائج بالکل مختلف آتے تھے۔
راہول گاندھی نے کہا کہ الیکشن نتائج کے بعد مودی لاڈلی بہنا، آپریشن سندور اور پلواما جیسے قومی سلامتی کے ڈرامے رچا کر جھوٹا بیانیہ بناتا ہے۔ پہلے پورے ملک میں ایک دن میں ووٹنگ ہوتی تھی، اب ای وی ایم کے باعث انتخابات مہینوں تک جاری رہتے ہیں۔ ہریانہ، مہاراشٹر اور مدھیا پردیش میں پولز کے نتائج ہمیشہ مختلف نکلے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے ووٹروں کی تعداد بڑھانے کے لیے جعلی ووٹرز کو شامل کیا جا رہا ہے۔ مہاراشٹر میں صرف 5 ماہ میں اتنے نئے مشکوک ووٹرز شامل ہوئے جتنے پچھلے 5 سالوں میں نہیں ہوئے تھے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن اتحاد جیتا، لیکن اسی ریاست کے اسمبلی الیکشن میں اپوزیشن کا صفایا ہو گیا۔
کانگریس رہنما کا کہنا تھا کہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں ایک کروڑ سے زائد نئے ووٹرز نے ووٹ دیا جو لوک سبھا میں رجسٹر نہیں تھے۔ الیکشن کمیشن نے کہا شام 5:30 بجے زبردست ووٹنگ ہوئی، مگر پولنگ اہلکاروں نے کہا اس وقت لائنیں یا ہجوم نہیں تھا۔ یہ پہلا واضح اشارہ تھا کہ ووٹنگ کے عمل میں کچھ سنجیدہ گڑبڑ ہوئی ہے۔
راہول گاندھی کے مطابق کئی بار درخواستوں کے باوجود، الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ ڈیجیٹل فارمیٹ میں دینے سے انکار کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے 200 سے 300 کلو وزنی کاغذی ریکارڈ فراہم کیا، ڈیجیٹل ڈیٹا دینے سے انکار کیا۔ الیکشن کمیشن کا سی سی ٹی وی فوٹیج 45 دن میں تباہ کرنے کا فیصلہ، مشکوک حرکت اور راز چھپانے کی کوشش تھی۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل دور میں جہاں ڈیٹا محفوظ کرنا آسان ہے، الیکشن کمیشن کا ثبوت مٹانے کا منصوبہ ناقابل فہم تھا۔ تحقیقات بعد میں کرناٹک منتقل ہوئیں، جہاں کانگریس کو 16 نشستوں کی امید تھی، مگر صرف 9 ملیں۔ کرناٹک کی ایک اسمبلی میں 1,02,500 جعلی ووٹوں کا انکشاف انتخابی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔
بھارتی انتخابات میں دھاندلیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے راہول گاندھی نے مزید کہا کہ کرناٹک اسمبلی میں فارم 6 کے 33,692 غلط اندراج، 11,965 ڈپلیکیٹ ووٹرز اور جعلی پتے انتخابی دھاندلی کا ثبوت ہیں۔ مہادیواپورہ اسمبلی حلقہ میں بی جے پی نے 1,14,000 ووٹ کی برتری حاصل کی، جب کہ وہ اس حلقے کی 7 میں سے 6 اسمبلیاں ہار گئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنگلور سینٹرل میں ایک لاکھ سے زائد ووٹ جعلی طریقوں سے ڈالے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈپلیکیٹ ووٹر، جعلی پتے اور فارم 6 کا غلط استعمال انتخابی نظام پر سنگین سوال اٹھاتا ہے۔ 33,692 نئے ووٹروں کی فہرست میں ایک بھی نوجوان شامل نہیں، تمام نام جعلی شناخت کے تھے۔ الیکشن کمیشن کا سارا نظام ہی بی جے پی کے مفادات کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
جمہوریت کے تقدس کو مودی راج نے پامال کردیا ہے، جس کے بعد سچ اب چھپانے سے بھی نہیں چھپ سکتا۔ مودی راج میں جمہوریت صرف ایک دکھاوا ہے، اصل میں اس کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ای وی ایم، جعلی ووٹرز اور اداروں کی خاموشی نے ثابت کر دیا کہ مودی راج میں جمہوریت مر چکی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: راہول گاندھی انتخابی فراڈ الیکشن کمیشن کا پردہ چاک کے انتخابی انہوں نے بی جے پی مودی کے میں ایک نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
روس، بھارت اور امریکا
بھارت اور امریکا کے درمیان اس وقت ایک سرد جنگ نظر آرہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں ٹیرف لگانے کا ابتدائی حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹریڈ ڈیل ابھی تک طے نہیں ہو سکی ہے۔ اس لیے پہلے مرحلہ میں بھارتی مصنوعات پر جو پچیس فیصد ٹیرف لگایا گیا تھا، وہ نافذ العمل ہو گیا ہے۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی تیل خریدنے کے جرم پر بھارت پر اضافی پچیس فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح بھارتی مصنوعات پر کل پچاس فیصد ٹیرف ہو جائے گا۔ لیکن اضافی پچیس فیصد ٹیرف 27 اگست سے نافذ العمل ہوگا لیکن اس کا اعلان ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ روسی تیل خریدنے پر جرمانے لگانے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ بھارت پر پابندیاں لگانے کی بھی بات ہو رہی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت روسی تیل کا ایک بڑا خریدار ہے۔ ویسے تو چین بھی روسی تیل بڑے پیمانے پر خریدتا ہے لیکن بھارت کی صورتحال قدرے مختلف ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے روس اپنا تیل سستا بیچنے پر مجبور ہے۔ بھارت روس سے سستا تیل خریدتا ہے۔
اس کے بعد اس کو دوبارہ عالمی منڈی میں بھی بیچتا ہے۔ اس طرح بھارت جہاں سے کوئی تیل نہیں نکلتا تیل بیچنے والا ایک بڑا ملک بن گیا ہے۔بھارت نے صرف 2024میں 17بلین ڈالر سے زائد کا تیل عالمی منڈی میں فروخت کیا ہے۔ اس نے روسی تیل خریدا، اپنی ریفائنری میں اس کو ریفائن کیا اور دنیا کو بیچ دیا۔ آج امریکا کو بھارت کی جانب سے نہ صرف روسی تیل خریدنے پر اعتراض ہے بلکہ اس کو دوبارہ عالمی منڈی میں بیچنے پر بھی اعتراض ہے۔
اس جرم میں بھارتی ریفائنریوں اور شپنگ کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کاآغاز ہو گیا ہے۔ یورپ نے روسی تیل کی شپنگ اور ریفائن کرنے پر بھارت کی ایک بڑی ریفائنری اور شپنگ کمپنی پر پابندی لگا دی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ جلد امریکا اور یورپ مل کر مزید ایسی پابندیاں لگائیں گے۔
یہ ایک نئی مشکل صورتحال ہے۔ میری رائے میں بھارت کا روسی تیل خریدنا اتنا بڑا جرم نہیں جتنا اس کو بیچنا بڑا جرم ہے۔ امریکا میں بھارتی لابی بھارت کو پابندیوں اور ٹیرف سے بچانے کے لیے یہی دلیل دے رہی ہے کہ چین بھی تو روسی تیل خرید رہا ہے۔ چین پر تو ٹیرف نوے دن کے لیے معطل کر دیے گئے ہیں جب کہ بھارت پر نافذ کیے جا رہے ہیں۔ لیکن فرق نہیں بیان کیا جا رہاہے کہ چین آگے فروخت نہیں کرتا۔ بھارت نے سستے روسی تیل کو کاروبار بنا لیا ہے۔
لیکن آج بھارت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارت اپنی دفاعی ضروریات کے لیے روس پر بہت انحصار کرتا ہے۔ جب کہ معاشی خوشحالی کے لیے امریکا اور یورپ پر انحصار کرتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے اس کو دونوں طرف سے بہت تعاون حاصل تھا۔ مغرب اور امریکا معاشی تعاون بڑھا رہے تھے کہ بھارت کو چین کے مقابلے میں مضبوط کر رہے تھے۔ روس کا ذکر ہی نہیں تھا۔ بھارت کو چین سے مقابلے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ ساری مراعات چین سے مقابلے کے لیے مل رہی تھیں۔
اگر روس یوکرین جنگ اگلے ایک ماہ میں بند نہیں ہوتی تو بھارت مزید مشکل میں پھنس جائے گا۔ روس کا غصہ بھارت پر نکلے گا۔یورپ اور امریکا مل کر بھارت پر دبائو ڈالیں گے کہ روس سے تعلقات اور تعاون ختم کرے۔ روسی تیل کی خریداری ختم کرے۔ بھارت اپنے دفاع میں روس پر بہت انحصار کرتا ہے۔
لیکن اگر روس یوکرین تنازعہ جاری رہتا ہے تو پھر بھارت اور روس کا دفاعی تعاون بھی بھارت کے لیے مسائل بڑھائے گا۔ آج مودی اگر روس سے تعاون ختم کرتے ہیں تو بھارت کو شدید نقصان ہے۔ لیکن بھارت میں مودی پر تنقید ہوگی کہ مودی امریکا سے ڈر گیا ہے، مودی نے امریکا کے سامنے سرنڈر کر دیا۔
مودی کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ لیکن اگر بھارت روس کے ساتھ کھڑا رہتا ہے تو بھی مودی کے لیے مشکلات ہوں گی۔بھارت نہ امریکا کو اور نہ یورپ کو ناراض کر سکتا ہے۔ لیکن اب دونوں کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کی مدد تب ہی ہو سکتی ہے کہ اگر روس اور امریکا کے درمیان ڈیل ہوجائے تو اس میں بھارت کا فائدہ ہو جائے گا۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی راء کے چیف اجیت دول روس میں ہیں۔ امریکا کے خصوصی نمائندے بھی روس میں ہیں۔ ایسے میں مودی کو اپنی سیاست بچانی ہے۔ مودی کو یہ حالات نظر آرہے تھے۔ اسی لیے اس نے پاکستان کے ساتھ جنگ کی پلاننگ کی تھی۔ مودی کی کوشش تھی کہ پاکستان کی فتح کو لے کر روس اور امریکا والی صورتحال کا ملک کے اندر مقابلہ کیا جائے گا۔
ساری توجہ پاکستان پر رکھی جائے اور عالمی مسائل پر توجہ نہ آنے دی جائے۔ لیکن معاملہ الٹ ہوگیا ہے۔ پاکستان سے بھی شکست ہو گئی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے حالیہ مون سون سیزن میں مودی کی مشکلات کھل کر سامنے آگئی ہیں۔
ایک اور بات جس کا بھارت میں بہت شور ہے، وہ مودی کے دوست بزنس مین ایڈانی کے بارے میں امریکا میں تحقیقات ہیں۔ بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی بھارت میں یہ بیانیہ بنا رہے ہیںکہ چونکہ ایڈانی کے خلاف امریکا میں منی لانڈرنگ اور دیگر فنانشل جرائم میں تحقیقات چل رہی ہیں، اس لیے مودی ٹرمپ کو جواب نہیں دے رہے۔
حالانکہ میں سمجھتا ہوں مودی امریکا کے ساتھ محاذ آرائی سے بچنا چاہتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ ٹرمپ کو جواب دینے سے بھارت کو معاشی نقصان ہو گا۔ اس لیے وہ ٹرمپ کے بیانات کے جواب میں خاموش ہیں۔ ٹیرف کا معاملہ بھی بیک چینل سفارتکاری سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جواب نہیں دے رہے۔ بھارتی دفتر خارجہ نے جو پریس ریلیز بھی جاری کی ہے، وہ بہت محتاط اور نرم ہے۔ امریکا کے خلاف ٹیرف لگانے پر کوئی بات نہیں۔ اس لیے بھارت کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان سے جنگ مودی کو بچا سکتی تھی، اب بھی بچا سکتی ہے۔
لیکن شائد اب یہ آپشن بھی مودی کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اب ڈر ہے کہ اگر بھارت کا زیادہ نقصان ہوگیا تو پوری بی جے پی کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ ابھی صرف مودی نشانہ ہے۔ اس لیے مودی کو بدلنے سے شائد مسائل حل ہو جائیں گے۔