برازیلی ہیئر ڈریسر کون ہیں جو نریندر مودی کے مبینہ’ووٹ فراڈ‘ کا چہرہ بن گئیں؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
برازیل کی ہیئر ڈریسر لارسا نری اس ہفتے بھارت میں خبروں کی زینت بنی ہیں، جب ان کی تصویر ایک مبینہ انتخابی فراڈ کے الزام میں خبریں بن گئی۔
لارسا نری نے بی بی سی کو بتایا کہ شروع میں وہ یہ سب ایک غلط فہمی یا مذاق سمجھ رہی تھیں۔ لیکن پھر ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہلچل مچ گئی اور لوگ انہیں انسٹاگرام پر ٹیگ کرنے لگے۔
’شروع میں چند بے ترتیب پیغامات آئے، میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے کسی اور کے ساتھ غلطی سے نتھی کر رہے ہیں۔ پھر انہوں نے وہ ویڈیو بھیجی جس میں میری تصویر بڑی اسکرین پر تھی۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ AI ہے یا کوئی مذاق۔ لیکن جب ایک وقت میں بہت سے لوگ مجھے پیغامات بھیجنے لگے، تو مجھے احساس ہوا کہ واقعی کچھ گڑبڑ ہے۔‘
لارسا نری، جو برازیل کے جنوب مشرقی شہر بیلو ہوریزونٹے میں رہتی ہیں اور کبھی بھارت نہیں گئی، نے گوگل پر تلاش شروع کردی کہ اصل میں مسئلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے بھارتی انتخابات میں برازیلی خاتون نے سیما، سویٹی، سرسوتی، رشمی اور ولما کے نام سے 22 ووٹ ڈالے، اہم انکشاف
یہ واقعہ بھارت کے اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کی پریس کانفرنس کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی BJP اور الیکشن کمیشن پر ہریانہ میں پچھلے سال کے انتخابات میں ووٹ فراڈ کرنے کے الزامات لگائے۔ BJP نے ان الزامات کی تردید کی۔
پریس کانفرنس کے چند گھنٹوں بعد، ہریانہ کے چیف الیکٹورل آفیسر نے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے X (سابق ٹوئٹر) پر پوسٹ کیا، جس میں بتایا گیا کہ وہ راہول گاندھی کو اگست میں ایک حلف نامہ بھیج چکے تھے جس میں غیر اہل ووٹروں کے نام شامل تھے تاکہ ضروری قانونی کارروائی کی جا سکے۔ تاہم لارسا نری کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
راہول گاندھی نے اگست سے اب تک الیکشن کمیشن پر ’ووٹ چوری‘ کے الزامات لگائے ہیں۔ ان کے تازہ دعووں کے مطابق، انہوں نے کمیشن کی ووٹر لسٹ کا جائزہ لیا اور پایا کہ تقریباً 20 ملین ووٹروں میں سے 2.
یہ بھی پڑھیے راہول گاندھی کی ’ووٹ چور؛ گدی چھوڑ‘ مہم، بھارت کا انتخابی بحران بے نقاب
انہوں نے ہریانہ کے انتخاب میں اپنی پارٹی کی شکست کو ووٹ لسٹ میں مبینہ ہیر پھیر سے جوڑا۔ اپنے دعوے کی تصدیق کے لیے، گاندھی نے بڑی اسکرین پر کئی سلائیڈز دکھائیں۔
میڈیا میں وائرل ہونے والی ایک تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک سلائیڈ میں راہول گاندھی کھڑے ہیں اور بڑی تصویر میں لارسا نری کی تصویر دکھائی گئی، جبکہ دوسری میں 22 مختلف ناموں اور پتوں والے ووٹروں کی تصاویر تھیں، جن میں سب لارسا نری کی تصویر استعمال ہوئی تھی۔
راہول گاندھی پوچھتے ہیں کہ یہ خاتون کون ہے؟ اس کی عمر کیا ہے؟ یہ ہریانہ میں 22 بار ووٹ ڈالتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ایک اسٹاک فوٹو جسے برازیلی فوٹوگرافر میتھیوس فیریرو نے لیا تھا، متعدد ووٹروں کی اندراجات میں مختلف ناموں کے ساتھ بار بار استعمال ہوا۔ لارسا نری نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ہاں، وہ تصویر میں موجود ہیں، اگرچہ اس وقت وہ کم عمر تھیں۔
نری نے وضاحت کی کہ وہ ماڈل نہیں بلکہ ہیئر ڈریسر ہیں اور تصویر مارچ 2017 میں ان کے گھر کے باہر لی گئی تھی۔ فوٹوگرافر نے کہا تھا کہ وہ خوبصورت لگ رہی ہیں اور تصویر لینا چاہتا ہے۔
اب چند دنوں میں بھارت کے لوگ، جن میں کئی صحافی بھی شامل ہیں کی غیرمعمولی توجہ نے لارسا نری کو خوفزدہ کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ہریانہ انتخابات: برازیلی ماڈل کے متعدد ووٹس، راہول گاندھی نے مودی حکومت کی دھاندلی کا پردہ فاش کردیا
’میں خوفزدہ ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم یہ میرے لیے خطرناک ہے یا یہاں بات کرنے سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میں نہیں جانتی کون صحیح ہے اور کون غلط کیونکہ مجھے پارٹیوں کا علم نہیں۔‘
نری نے بتایا کہ وہ صبح کام پر نہیں جا سکی کیونکہ اپنے کلائنٹس کے پیغامات بھی دیکھنا ناممکن ہوگیا تھا۔ کئی صحافی ان سے رابطہ کر رہے تھے، حتیٰ کہ ان کے کام کی جگہ تک پہنچ گئے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پروفائل سے سلیکون کے نام کو ہٹا دیا تاکہ کام متاثر نہ ہو۔
میتھیوس فیریرو، جنہوں نے لارسا نری کی تصویر لی تھی، بھی اچانک توجہ کے بوجھ تلے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بھارت ان کے لیے صرف برازیلی ٹی وی شو ’کامینھو داس انڈیاس‘ کے نام سے معروف تھا۔
فیریرو نے کہا کہ کچھ لوگوں نے ان سے پہلے بھی رابطہ کیا تھا، لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔ پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بے قابو ہو گئی۔
فیریرو نے وضاحت کی کہ بعض ویب سائٹس نے ان کی تصاویر بغیر اجازت لارسا نری کی تصویر کے ساتھ لگا دی تھیں، اور لوگ انہیں میمز اور لطیفوں کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
2017 میں، فیریرو فوٹوگرافی میں نیا تھا اور نری کو تصاویر کے لیے مدعو کیا۔ تصاویر فیسبک اور Unsplash پر ان کی اجازت سے پوسٹ کی گئی تھیں۔
’تصاویر بہت وائرل ہو گئیں، تقریباً 57 ملین ویوز تک پہنچیں۔ میں نے انہیں بعد میں حذف کر دیا کیونکہ تصاویر غلط استعمال ہو رہی تھیں۔‘
لارسا نری کا کہنا ہے کہ ’یہ میری حقیقت سے بہت دور ہے۔ میں نہ تو برازیل میں ہونے والے انتخابات میں دلچسپی لیتی ہوں، نہ ہی کسی اور ملک میں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برازیلی ہیئر ڈریسر بھارتی انتخابات راہول گاندھی ووت چوریذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برازیلی ہیئر ڈریسر بھارتی انتخابات راہول گاندھی لارسا نری کی تصویر راہول گاندھی ہیئر ڈریسر انہوں نے ہیں اور کے لیے کے نام
پڑھیں:
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم
ڈاکٹر سلیم خان
امسال قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی نے 11ستمبر کو اپنے پارلیمانی حلقے رائے بریلی کے اندر یہ انکشاف کرکے پورے ملک کو چونکا دیا کہ ‘جب ہائیڈروجن بم آئے گا تو سب صاف ہو جائے گا” اور پھر جب وہ واقعی ہریانہ بم پھوٹا تو الیکشن سمیت بی جے پی کا سُپڑا صاف ہوگیا۔ اپنے دو روزہ دورے پر راہل گاندھی نے الزام لگایا تھاکہ ملک میں ووٹ چوری کرکے حکومتیں بنائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا تھاکہ ”مہاراشٹر، ہریانہ اور کرناٹک کے انتخابات میں ووٹ چوری ہوئی ہے ۔ ہم نے اس کے بلیک اینڈ وائٹ ثبوت دیئے ہیں۔ انتظار کیجیے ، بہت جلد ووٹ چوری کے مزیدانکشافات سامنے آنے والے ہیں۔ بی جے پی والے پریشان نہ ہوں، ووٹ چوری کا ہائیڈروجن بم آنے والا ہے ، سب کچھ صاف ہو جائے گا”۔ اس وقت راہل گاندھی نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا تھا کہ بی جے پی ووٹ چوری کر کے جیتی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے ملک میں ایک کروڑ جعلی ووٹ بڑھائے ہیں۔اس کے بعد راہل گاندھی نے اپنے "ووٹ چور گدی چھوڑ مشن کی مدد سے کارکنوں میں جوش بھرنے کے بعد نعرے لگوائے تھے ۔
راہل گاندھی نے اس وقت مہاراشٹر اور کرناٹک اسمبلی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے بی جے پی کی ووٹ چوری پکڑنے کا جوا الزام لگایا تھا اسے بالآخر انہوں نے مع شواہد ہریانہ تک پھیلا دیا۔ انہوں نے اس حکومت پر آئین کو خطرات میں ڈالنے اور عام لوگوں کے حقوق کو کچلنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا جو پھر ایک بار ثابت ہوگیا۔ راہل گاندھی نے اس ووٹ چوری کے اسکینڈل یعنی ‘ہائیڈروجن بم’ کو گرا کر ووٹ چوری اور ووٹر لسٹوں میں بے ضابطگیوں کے الزامات کو پہلے کرناٹک کے مہادیو پورہ کی مثال سے ثابت کیا اور اب ہریانہ کے حوالے سے کئی ثبوت پیش کیے ۔اس طرح الیکشن کمیشن کے ساتھ بی جے پی کی ملی بھگت کو منظر عام پر آگئی۔ کانگریس ہیڈکوارٹر میں ‘دی ایچ فائلز’ کے نام سے کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران راہل گاندھی نے ‘ووٹ چوری’ کے تازہ ثبوت پیش کر زبردست سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے ۔ ‘ووٹ چوری’ کے شواہد ایک پریزنٹیشن کے صورت میں پیش کرکے گاندھی نے کئی طرح کی بے ضابطگیوں کو طشت از بام کر دیا۔
راہل گاندھی نے اپنی کانفرنس میں یہ واضح کیا کہ انہیں کئی ریاستوں سے ووٹ چوری کی شکایات موصول ہوئی اور اب تحقیق کے بعد ہریانہ میں ووٹ چوری کا سچ سامنے لا یا جارہاہے جو 101 فیصد سچائی ہے ۔ ا س بابت سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ یہ دھوکہ دہی بوتھ کی سطح پر نہیں بلکہ مرکزی سطح پر ہوئی ہے ۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ ہریانہ میں ایگزٹ پول میں کانگریس آگے تھی۔ بعد میں بی جے پی جیت گئی۔ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان صرف چند ہزار ووٹوں کا فرق تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں 25 لاکھ ووٹ چوری ہوئے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ کرناٹک کے مہادیو پورہ میں پیش آیا۔انہوں نے ہریانہ کے 10 بوتھوں پر ووٹ ڈالنے والی ایک لڑکی کو مثال کے طور پر پیش کیا جس نے جعلی شناختی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے 22 بار ووٹ ڈالا۔ یہ کام اس قدر ڈھٹائی سے کیا گیا کہ کئی ووٹر لسٹوں میں برازیلین ماڈل کی تصویر استعمال کی گئی۔ اپنی دھوکہ دہی کو چھپانے کے لیے ہریانہ میں دو بوتھوں سے ویڈیو فوٹیج کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
راہل گاندھی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہریانہ میں جملہ دو کروڈ ووٹرس ہیں ان میں کے ہر آٹھ میں سے ایک ووٹر فرضی تھا۔ جعلی فوٹو والے 100,000 سے زیادہ ووٹر تھے ۔ یہ سب کرنے کے باوجود بی جے پی کوصرف سوالاکھ ووٹ کے فرق سے الیکشن کمیشن کی مدد سے کامیاب کیا گیا ۔ اعدادو شمار سے ہٹ کر راہل نے بی جے پی رہنما سینی کی آڈیو ریکارڈنگ بھی چلا کر دکھا دی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ بی جے پی کے پاس ”عظیم انتظام” ہے ۔ اس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاملات حل ہو جائیں گے ، فکر نہ کریں اور بی جے پی جیت گئی۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ملک بھر میں جعلی ووٹنگ ہو رہی ہے ۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں صریح جھوٹا قرار دیا۔اس طرح قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے بی جے پی سے کیا جانے والا اپنا وعدہ پورا کردیا۔ اتنے سارے ثبوت پیش کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن کو شرم نہیں آئی ۔ اس نے اپنی غلطی کو تسلیم کرنا تو دور یہ بھی نہیں کہا کہ ہم ان شواہد کی تفتیش کریں گے بلکہ الٹا راہل گاندھی کو دھمکی دینے پر اتر آیا۔
ملک کے اندر اس سیاسی بمباری کے بعد چند گھنٹوں کے اندر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا کہ کانگریس نے نظرثانی کے عمل کے دوران ووٹر لسٹوں پر کوئی اعتراض یا اپیل دائر نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ کسی قتل کے بعد اگر مقتول کے وارثین نے شکایت درج نہیں کرائی تو کیا اس کی آڑ میں قاتل کو چھوڑ دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن عین انتخاب سے قبل ووٹر لسٹ جاری کرتا ہے جبکہ سیاسی جماعتیں تشہیر میں مصروف ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لسٹ کی سافٹ کاپی شائع نہیں کرتا جس سے جانچ پڑتال میں آسانی ہوتی ہو۔ پہلے تو خواتین کے ڈیٹا کی آڑ میں کچھ بھی شائع نہیں کرتا تھا۔ یہ عجب تماشا ہے کہ یوگی برقع کے خلاف بکواس کرتا ہے اور الیکشن کمیشن خواتین کی معلومات چھپاتا ہے ۔ اب پی ڈی ایف کی جو لسٹ شائع کی جاتی ہے اس کی جانچ پڑتال میں وقت لگتا ہے تو ای سی کو شکایت ہے کہ وقت کیوں لگا حالانکہ وہ خود اس کے لیے ذمہ دار ہے ۔ای سی آئی میں اگر ہمت ہے تو راہل گاندھی کے الزامات کی تردید کرے وہ تو ہوتا نہیں اس لیے تکنیکی حیلے بہانے بنا کر چوری چھپائی جارہی ہے ۔الیکشن کمیشن یہ کیوں نہیں کہتا کہ ہریانہ انتخابات کے دوران برازیلی ماڈل کے نام پر ٢٢ ووٹ نہیں پڑے ؟
الیکشن کمیشن نے ان الزامات پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے الٹا سوال کردیا کہ ‘راہل گاندھی جامع ووٹر لسٹ کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟’ ای سی کو پہلے الزامات کا جواب دینا چاہیے پھر سوال کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن یہ پوچھتا ہے کہ’پولنگ اسٹیشنوں پر موجود کانگریس پارٹی کے ایجنٹ کیا کر رہے تھے ‘؟ ۔ اس کا جواب اگر یہ ہے کہ وہ جھک مار رہے تھے یا غافل تھے تو کیا اس سے الیکشن کمیشن کو ووٹ چوری کا حق مل جاتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے پہلے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس کو ایک بھی شکایت نہیں ملی مگر جب اکھلیش نے ان شکایتوں کا پلندہ پیش کردیا تو اسے شرمسار ہونا پڑا مگر اصل بات یہ ہے کہ کس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا یہ پوچھنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کہ انتخابات کو غیر جانبداری کے ساتھ منعقد کرانے کے لیے اس نے کیا کیا ؟ کیونکہ بنیادی طور پر یہ کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔
ای سی کی یہ بات درست ہے کہ ہریانہ میں انتخابی فہرستوں کے خلاف صفر اپیلیں تھیں مگرہریانہ کی 90 اسمبلی سیٹوں کے لئے ہونے والے انتخابات سے متعلق 22 درخواستیں فی الحال ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ان الیکشن پٹیشن قانون کے تحت مقدمات میں پارلیمانی، اسمبلی یا مقامی انتخابات کے انتخاب کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ انتخابی درخواست نتائج کے اعلان کی تاریخ سے 45 دن کے اندر اسے دائر کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ مدت گزر بھی جائے تب مجرم تو مجرم ہی رہتا ہے ۔
سیاست میں مثل مشہور ہے کہ جب لوہا گرم ہو تبھی ہتھوڑا مارنا چاہیے ۔ راہل گاندھی اور تیجسوی یادو نے ”ووٹ چور گدی چھوڑ” کے نعرے کی تمازت سے انتخابی مہم کے دوران لوہا گرم کیا اور جب وہ نرم ہوگیا تو عین پہلی پولنگ کی شام کو یہ دھماکہ کردیا ۔ اس بہترین حکمتِ عملی نے بہاری رائے دہندگان کے اندر زبردست بیداری پیدا کردی ۔ ان لوگوں نے ووٹ کی چوری کے خطرات کو خوب اچھی طرح محسوس کرکے سب سے پہلے تو ووٹر فہرست کی جانب دوڑ پڑے اور اپنا نام تلاش کرنا شروع کردیا۔ امید ہے کہ اس بیداری کے بعد ووٹ دینے والے عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال اور اس کی حفاظت بھی کریں گے اور للن سنگھ جیسا کوئی بدمعاش دھاندلی کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو سبق سکھا دیں گے ۔ اقتدار کی ہوس میں پاگل ہوکر بی جے کے رہنما آگ سے کھیل رہے ہیں اور اگر یہ خدا نخواستہ یہ بھڑک گئی تو اس کی قیمت پورا ملک چکائے گا۔ بہار کے نوجوانوں میں زبردست جوش و خروش ہے جسے تیجسوی ، راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی اور عمران پرتاپگڈھی کے خطابات عام میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ہائیڈروجن بم نے نئی نسل میں جو بیداری پیدا کی ہے اس نے این ڈی اے کا سیاسی جنازہ اٹھا دیا ہے ۔ اس صورتحال پرمیرٹھ کی جواں سال شاعرہ ہمانشی بابرا کا یہ شعر صادق آتا ہے
آج اٹھا ہے مداری کا جنازہ لوگو
کل سے بستی میں تماشہ نہیں ہونے والا