اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کے علیمہ خان پر گالم گلوچ کے الزامات پر معروف تجزیہ کار نسیم زہرا نے کہاکہ گالم گلوچ وغیرہ تو ان کا شیوہ نہیں ہے آپ کو بھی معلوم ہے ، مجھے نہیں معلوم آپ کس کی بات کررہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے 24نیوز کے پروگرام نسیم زہراایٹ پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کی دو دفعہ نکالنے کے باوجود بھی پاکستان تحریک انصاف کے ورکر بھی میرے لئے آواز اٹھاتے تھے،وہ کہتے تھے کہ اس کو واپس لاؤتو انہوں نے یہ سوچا کہ اثرزائل کرنے کیلئے بہتر ہے کہ اس کی کردار کشی کریں ،پی ٹی آئی سے وابستہ اکاؤنٹس نے ہر الزام مجھ پر لادا ،نو، دس ماہ کے اندر تمام یوٹیوبرز،باہر بھاگے ہوئے صحافیوں نے میرے خلاف لابنگ کی،ایک منظم کوشش تھی۔

5لاکھ روپے تنخواہ والے سرکاری ملکیتی ایک ادارے کے سی ای او نے 32 ماہ میں 35 کروڑ50 لاکھ کے فوائد حاصل کرلیے

چونکہ سوشل میڈیا محترمہ کے ساتھ ہے،محترمہ اس وقت سے مجھے نکالنے کے درپے تھی گزشتہ ایک سال سے ،میں پہلے نام نہیں لیتا تھالیکن جب گالم گلوچ تک بات آ گئی ۔

نسیم زہرا نے کہاکہ میں آپ کو بتاؤں یہ جو ان کی بہن ہیں چونکہ سکول میں ہم ساتھ تھے،گالم گلوچ وغیرہ تو ان کا شیوہ نہیں ہے آپ کو بھی معلوم ہے ، مجھے نہیں معلوم آپ کس کی بات کررہے ہیں۔

علیمہ خان نے مجھے گالیاں دیں ! شیر افضل مروت
علیمہ خان میرے ساتھ اسکول میں تھیں گالیاں دینا ان کا شیوہ نہیں ہے مجھے نہیں پتہ آپ کس کی بات کر رہے ہیں ! نسیم زہرا ۔۔۔۔ pic.

twitter.com/DSbwlAIb3s

— AMJAD KHAN (@iAmjadKhann) August 10, 2025

مزید :

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: شیر افضل مروت علیمہ خان گالم گلوچ

پڑھیں:

ڈیجیٹل دنیا میں مستعمل نشان ’ @‘: جانیے اس کا مطلب اور ہزاروں سال پرانی دلچسپ تاریخ

آج ’@‘ کا نشان ہمیں ای میل ایڈریس، سوشل میڈیا ہینڈل اور ڈیجیٹل دنیا میں ہر جگہ دکھائی دیتا ہے لیکن اس سادہ سے کرخت نشان کے پیچھے ایک کہانی ہزاروں سال پرانی ہے جو قدیم یونان کی مٹی کی برتن سازی سے شروع ہوتی ہے اور آج کی ڈیجیٹل دنیا تک جا پہنچتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نیویارک کے مشہور میوزیم ’میوزیم آف ماڈرن آرٹ‘کی کیوریٹر پاولا انتونیلی نے سنہ 2010 میں ایک منفرد قدم اٹھایا اور ’@ کا نشان‘ میوزیم کے مستقل ذخیرے میں شامل کر لیا۔

ان کا مقصد ایسے روزمرہ کے معمولی سمجھے جانے والی اشیا کو اجاگر کرنا تھا جنہوں نے انسانی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے جیسے پوسٹ اٹ نوٹ، کاغذی کلپ، ایم اینڈ ایمز اور کچن ٹولز۔

دنیا بھر میں @ (ایٹ) کے دلچسپ نام

یہ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ’@‘ کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ تائیوان میں اسے ’چھوٹا چوہا‘، روس میں ’کتا‘، ہالینڈ میں ’بندر کی دم‘ اور یونان میں ’چھوٹا بطخ’ کہا جاتا ہے۔ اٹلی میں اسے ’چیوتچولا‘ یعنی گھونگا، چیک ریپبلک میں ’زاویناچ‘ یعنی ہیرنگ رول جبکہ اسپین و پرتگال میں اسے ’آروبا‘  کہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: زبان کا جادو: کیا آپ اصل انٹرنیٹ دیکھ بھی پاتے ہیں؟

عبرانی زبان میں ’@‘ کو غیر رسمی طور پر ’اسٹرُوڈل‘ کہا جاتا ہے جو ایک یورپی مٹھائی ہے۔ یہ تہہ دار (لچھے دار) آٹے سے بنائی جاتی ہے جس کے اندر عام طور پر سیب، دار چینی یا دیگر میٹھے اجزا بھرے جاتے ہیں۔ ’@‘ کی گول، لپٹی ہوئی شکل اس پیسٹری سے مشابہت رکھتی ہے اس لیے عبرانی بولنے والوں نے اسے مزاحیہ اور تخلیقی انداز میں ’اسٹرُوڈل‘ کا نام دے دیا۔ ایک علامت جو اب صرف انٹرنیٹ کا حصہ نہیں بلکہ مختلف ثقافتوں میں اپنی الگ پہچان بھی رکھتی ہے۔

@  کی قدیم جڑیں یونانی برتنوں سے لے کر ٹائپ رائٹر تک

علامت @ کی جڑیں قدیم یونانی مٹی کے برتن ’ایمفورا‘  سے جڑی ہوئی ہیں جنہیں تیل، اناج اور شراب ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ، ایمفورا ایک تجارتی پیمانہ بن گیا اور تاجروں نے ’a‘ کو ایک دم دار انداز میں لکھنا شروع کیا جو آخرکار ’@‘ کی شکل اختیار کر گیا۔

سنہ 1536 میں ایک اطالوی تاجر فرانچسکو لاپی نے ’@‘ کی موجودہ طرز پر پہلی بار اس علامت کو ایمفورا کے لیے استعمال کیا جب اس نے روم کو ایک خط میں شراب کی قیمت ’70 یا 80 ڈکٹ فی ایمفورا‘ کے حساب سے بتائی۔

ٹائپ رائٹرز اور بزنس اکاؤنٹنگ میں ‘@’ کی بقا

19ویں صدی میں جب ٹائپ رائٹرز کا استعمال عام ہوا تو @ نے بطور کاروباری علامت اپنی جگہ بنائی خاص طور پر قیمتوں کے اظہار کے لیے (مثلاً 5 items @ $2 each)۔یہی کاروباری اہمیت اسے ہر نسل کے ٹائپ رائٹر میں زندہ رکھتی رہی۔

مزید پڑھیے: انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟

انٹرنیٹ انقلاب: ’@‘ کی شناخت کا نیا جنم

سنہ1971  میں امریکی کمپیوٹر سائنس دان رے ٹاملِن سن نے پہلی ای میل بھیجنے کے لیے @ کا انتخاب کیا تاکہ یوزرنیم کو نیٹ ورک کے ایڈریس سے جوڑا جا سکے۔ یوں @ انٹرنیٹ کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ بن گیا اور تب سے یہ ہماری ڈیجیٹل شناخت کا جزو لا ینفک بن چکا ہے۔

آن لائن شناخت اور ‘@’ کا گہرا تعلق

ماہرین لسانیات کے مطابق آج کے ڈیجیٹل دور میں ’@‘ محض ایک علامت نہیں، بلکہ ہماری آن لائن شناخت کا عکاس ہے۔ لوگ اپنے یوزرنیمز کو بہت سوچ سمجھ کر چنتے ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنے جذبات، شخصیت اور شناخت کے اظہار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بغیر کوئی ای میل، سوشل میڈیا ہینڈل یا آن لائن گفتگو مکمل نہیں سمجھی جاتی۔

دی میوزیم آف ماڈرن آرٹ میں @ کا اعزاز

دی میوزیم آف ماڈرن آرٹ کی نمائش میں جب @ کو شامل کیا گیا تو مقصد یہ تھا کہ لوگ عام اشیا کو نئے زاویے سے دیکھیں۔

پاؤلا انتونیلی نے کہا کہ اس چھوٹے سے نشان کے اندر ایک پوری دنیا چھپی ہوئی ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی خوشی اور فخر دلاتا ہے کہ ہم ایک ایسے ڈیزائن شدہ دور کا حصہ ہیں جہاں ہر چیز کے پیچھے ایک کہانی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟

آج بھی دنیا کے کچھ حصوں میں @ کو اس کی شکل کی بنیاد پر نام دیا جاتا ہے کوئی اسے گھونگا کہتا ہے، کوئی بندر کی دم، اور کوئی چھوٹی بطخ!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

@ کا مطلب @ کا نشان ایٹ جنرل (ر) قمر باجوہ قدیم کہانی

متعلقہ مضامین

  • ڈیجیٹل دنیا میں مستعمل نشان ’ @‘: جانیے اس کا مطلب اور ہزاروں سال پرانی دلچسپ تاریخ
  • ایک اور معروف سوشل میڈیا سٹار جوڑی کی راہیں جدا
  • ایم کیو ایم کے الزامات بے بنیاد، کراچی کو نعروں نہیں عملی خدمت کی ضرورت ہے، سعدیہ جاوید
  • کاپ 30 سے پہلے سیکرٹری جنرل کی موسمیاتی کانفرنس کے بارے میں جانیے
  • نواز شریف موجودہ حکومتی نظام کو تسلیم نہیں کرتے، ندیم افضل چن
  • روس نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے پولینڈ الزامات مسترد کردیے
  • بھارتی گلوکار کمار سانو مشکل میں، سابق اہلیہ نے سنگین الزامات لگادیے
  • مجھے اپنے ملک سے محبت ہے، مگر یہ اب پہچانا نہیں جاتا: انجلینا جولی
  • ایس ای سی پی کیخلاف کیس؛ وکیل درخواست گزار کے التوا مانگنے پر جسٹس محسن برہم
  • اب اندھوں کی ٹیم سے توقع رکھنی چاہیے، شیر افضل مروت کا پاکستانی ٹیم کی انڈیا سے شکست پر ردعمل