پنجاب اسمبلی؛ بار بار مالی بے ضابطگی میں ملوث افسران پر پیڈا ایکٹ لگانے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
لاہور:
پنجاب اسمبلی میں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تھری احمد اقبال نے سرکاری افسران کے احتساب کے لیے بڑا اعلان کرتے ہوئے ایک ہی نوعیت کی دوبارہ مالی بے ضابطگی میں ملوث افسران پر پیڈا ایکٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا۔
ایک ہی نوعیت کی مالی بے ضابطگی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں زیر بحث لانے کے بجائے سرکاری افسران کے خلاف فوری کارروائی ہوگی۔
کرشن میں ملوث افسران کے خلاف پنجاب ایمپلائز ایفشنسی ڈسپلن اینڈ اکاؤٹبلیٹی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی، بار بار مالی بے ضابطگی سرکاری افسران کی نااہلی تصور کی جائے گی۔
احمد اقبال کا کہنا تھا کہ ایک آڈٹ پیرا پر ایک گھنٹہ نہیں لگا سکتے اور کاغذوں کے پلندے اٹھائے نہیں پھر سکتے، غفلت میں ملوث افسران کے خلاف فوری کارروائی کریں گے۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ افسران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں آنے سے گریزاں تھے لیکن اب انہیں جواب دہ بنا دیا گیا ہے، تمام محکموں میں مالی نظم و ضبط بہتر ہو رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ملوث افسران مالی بے ضابطگی افسران کے
پڑھیں:
نوابشاہ ،نجی اسکولز کی لوٹ مار،ایجوکیشن ایکٹ کی کھلی خلاف ورزیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250924-11-14
نوابشاہ (نمائندہ جسارت)نواب شاہ میں تعلیم کے نام پر کاروبار عروج پر پہنچ چکا ہے۔ شہر اور اطراف کے بیشتر نجی اسکولز حکومتِ سندھ کے بنائے گئے قوانین اور ایجوکیشن ایکٹ 2013 کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے محکمہ تعلیم اور ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ انسٹی ٹیوشنز نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔والدین کی جیبوں پر ڈاکہ شہر کے کئی اسکولز بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں، مگر نہ تو معیاری سہولتیں دی جا رہی ہیں اور نہ ہی ایجوکیشن ایکٹ کے تحت غریب اور مستحق بچوں کے لیے 10 فیصد فری نشستیں دی جا رہی ہیں۔ والدین کا کہنا ہے کہ “فیس ہر سال بڑھا دی جاتی ہے، لیکن کلاس رومز تنگ، لائبریری اور لیب موجود نہیں، اور بچے گرمی میں پنکھے تک کے بغیر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔سندھ حکومت کے مطابق نجی اسکولز کے لیے کم از کم پلاٹ سائز 600 گز تک10 سے 15 کمریسائنس و کمپیوٹر لیب لائبریری صاف پانی اور بیت الخلا لازمی ہیں۔ لیکن نواب شاہ میں بیشتر اسکول کرائے کی چھوٹی عمارتوں میں قائم ہیں جہاں یہ بنیادی سہولتیں سرے سے موجود ہی نہیں۔قانون کے مطابق ہر بچے کو 5 سے 16 سال کی عمر میں مفت اور لازمی تعلیم دینا حکومت اور نجی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ نجی اسکولز پر لازم ہے کہ کم از کم 10 فیصد طلبہ کو مفت تعلیم دیں، لیکن نواب شاہ میں بیشتر اسکول نہ صرف اس قانون کو نظر انداز کر رہے ہیں بلکہ بعض نے والدین کو دھمکایا کہ اگر فیس نہ دی تو بچوں کو نکال دیا جائے گا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ اسکولز نواب شاہ کے معاملات پر بالکل خاموش ہے۔ نہ چھاپے مارے جاتے ہیں، نہ اسکولوں کے معیار کی جانچ ہوتی ہے۔ والدین الزام لگاتے ہیں کہ محکمہ تعلیم کے بعض افسران اسکول مالکان سے ساز باز کر کے معاملات کو دبائے بیٹھے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ والدین مالی طور پر کچلے جا رہے ہیں اور بچے معیاری تعلیم اور سہولتوں سے محروم ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت سندھ اور محکمہ تعلیم فوری ایکشن لیں، اسکولز کا آڈٹ کریں، فیسوں کو ریگولیٹ کریں اور ایجوکیشن ایکٹ 2013ء پر سختی سے عمل درآمد کرائیں۔