کبھی بھی لوگوں کو بہکانے کے لیے فلمیں نہیں بناؤں گا، جان ابراہم
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
بالی وڈ کے معروف اداکار جان ابراہم نے نئی فلم ‘تہران’ کی ریلیز سے قبل سنسرشپ اور سیاسی حساسیت کے موضوع پر کھل کر بات کی ہے۔ انہوں نے انڈین فلم انڈسٹری میں تخلیقی آزادی اور ضابطہ کاروں کے درمیان نازک توازن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی ایسی فلمیں نہیں بنائیں گے جو لوگوں کو سیاسی طور پر متاثر کرنے کی غرض سے ہوں۔
انڈیا ٹوڈے سے گفتگو میں جان ابراہم نے بتایا کہ ‘تہران’ کو سینما گھروں میں دکھانے کی اجازت ملنا ایک چیلنج تھا، اور انہوں نے وزارت خارجہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے فلم کی نمائش کی اجازت دی۔ انہوں نے سنسر بورڈ کی ضرورت کو تسلیم کیا مگر اس کے موجودہ طریقہ کار پر سوال اٹھایا۔
مزید پڑھیں: شاہ رخ خان پہلے ہندوستانی اداکار، جن کے نام سے سونے کا سکہ جاری
جان نے کہا کہ میں نہ دائیں بازو کا ہوں، نہ بائیں، میں سیاسی طور پر باشعور ہوں اور اپنی فلموں میں ایمانداری کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تجارتی فائدے کے لیے سیاسی یا جارحانہ موضوعات پر مبنی فلمیں بنانے کے حق میں نہیں، بلکہ اپنی تخلیقی شناخت پر قائم رہتے ہیں۔
فلم ‘تہران’ 14 اگست سے زی 5 پر اسٹریم ہوگی اور اسے ارون گوپالان نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ جان ابراہم نے اپنی فلمی ذمہ داری اور رسک لینے کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا، کہا کہ بڑا رسک لینا ہی بڑا اثر پیدا کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بالی وڈ کے معروف اداکار جان ابراہم فلم 'تہران'.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جان ابراہم فلم تہران جان ابراہم انہوں نے
پڑھیں:
جاپانی سیاسی جماعت نے قیادت ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کو سونپنے کا اعلان کر دیا
دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (AI) صرف سائنسی تجربات یا کارپوریٹ منصوبوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب وہ سیاست جیسے انسانی و جذباتی شعبے میں بھی قدم رکھ چکی ہے۔ تازہ ترین مثال جاپان کی ہے، جہاں ایک سیاسی جماعت نے حیران کن قدم اٹھاتے ہوئے اپنی قیادت ایک AI ماڈل کو سونپنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ فیصلہ جاپان کی چھوٹی مگر منفرد جماعت “پیتھ ٹو ری برتھ پارٹی” (Path to Rebirth Party) نے حالیہ انتخابات میں بدترین شکست کے بعد کیا ہے۔ پارٹی کے بانی اور سابق سربراہ شنجی ایشیمارو کے مستعفی ہونے کے بعد، انسانی قیادت سے مایوس ہو کر پارٹی نے اب “مشینی دماغ” سے امیدیں باندھ لی ہیں۔
شنجی ایشیمارو، جو ماضی میں جاپان کے ایک چھوٹے شہر کے میئر رہ چکے ہیں، نے 2024 کے ٹوکیو گورنر الیکشن میں اپنی غیر معمولی آن لائن مقبولیت کی بنیاد پر دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اسی کامیابی کے جذبے سے انہوں نے جنوری 2025 میں “پیتھ ٹو ری برتھ پارٹی” کی بنیاد رکھی۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ پارٹی کے پاس کوئی واضح منشور یا نظریہ نہیں تھا۔ اس کے اراکین آزاد تھے کہ وہ اپنی مرضی کا ایجنڈا رکھیں۔ یہی بے سمتی اس جماعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی، اور جون و جولائی کے الیکشن میں ایک بھی نشست نہ جیتنے کے بعد ایشیمارو نے پارٹی چھوڑ دی۔
لیڈر ایک AI ہوگا
پارٹی کے ترجمان اور کیوٹو یونیورسٹی کے 25 سالہ پی ایچ ڈی اسکالر کوکی اوکومورا نے اعلان کیا کہ پارٹی کی قیادت اب ایک “AI ماڈل” سنبھالے گا، جو انسانی رہنما کے بجائے “ڈیجیٹل دماغ” کی صورت میں کام کرے گا۔
اوکومورا کا کہنا تھا AI لیڈر کا کردار یہ نہیں ہوگا کہ وہ پارٹی ممبران کو حکم دے یا کنٹرول کرے، بلکہ وہ وسائل کی منصفانہ تقسیم، پالیسی سازی، اور انتخابی حکمتِ عملی میں رہنمائی فراہم کرے گا۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ AI سسٹم کس انداز میں، کس وقت اور کس دائرہ کار کے تحت پارٹی کی باگ ڈور سنبھالے گا۔
سیاست اور AI کا غیر متوقع ملاپ
یہ پہلا موقع نہیں جب AI کو سیاست میں آزمایا جا رہا ہو۔ کچھ ماہ قبل البانیہ میں بھی بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے AI کو کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اب جاپان میں ایک مکمل سیاسی جماعت کی کمان AI کے سپرد کرنے کا قدم دنیا بھر کے لیے ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔