اسلام اور آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے ضامن ہیں‘ طاہر اشرفی
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
لاہور (این این آئی)چیئرمین پاکستان علما کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ اسلام اور آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے ضامن ہیں، اسلام انسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے،پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو پاکستان میں برابر کا شہری ہونے کے حقوق حاصل ہیں،پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اور اپنے تہواروں کے موقع پر اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے، پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کو مذہبی ، سماجی ، سیاسی اور معاشی آزادی حاصل ہے اور ان کے جان و مال کا تحفظ اور عبادت گاہوں کی حفاظت حکومت پاکستان کی ہی نہیں مسلمانوں کی بھی بنیادی ذمہ داری ہے، حصول پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔انہوں نے خیالات کا اظہار اقلیتوں کے قومی دن کے حوالے سیمنعقدہ مختلف تقاریب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے مزید کہا کہ دینِ اسلام اعتدال اور رواداری پر مبنی اعلی انسانی و اخلاقی اقدار و تعلیمات کا پیامبر ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کی صفات میں سے ایک سب سے نمایاں صفت آپ ﷺ کا رحم للعالمین ہونا ہے۔اسلام کی تعلیمات میں اس قدر وسعت و رحمت ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی جان و مال کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والے پابند آئین و قانون تمام غیر مسلم شہریوں کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے وہی تمام شہری حقوق حاصل ہیں جو پابند آئین و قانون مسلمانوں کو حاصل ہیں، پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اور اپنے تہواروں کے موقع پر اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک اعلی عدلیہ، دفاع، تعلیم، میڈیکل کے شعبوں میں غیر مسلموں نے خدمات انجام دیں اور دے رہے ہیں۔اقلیتوں کا قومی ترقی میں کردار قابل ستائش ہے ۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان میں اور اپنے مذاہب کے
پڑھیں:
غیرت کے نام پر قتل: انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں ہوتے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوششوں اور حکومتی اقدامات کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اگرچہ کچھ کیسز میں گرفتاریاں ہوئیں لیکن ملزمان کی رہائی کے واقعات انصاف کے نظام پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
حالیہ کیس: بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہحال ہی میں بلوچستان ہائی کورٹ نے سردار شیر باز خان ستکزئی کو ضمانت دی، جو کوئٹہ کے علاقے دگاری میں ایک خاتون اور مرد کے قتل کے الزام میں گرفتار تھے۔
یہ قتل مقامی جرگے کے فیصلے پر کیا گیا تھا اور اس کی ویڈیو وائرل ہونے سے قانون کی حکمرانی پر بحث چھڑ گئی تھی۔قبل ازیں ایک ماتحت عدالت نے ضمانت مسترد کی تھی لیکن ہائی کورٹ نے پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض شیر باز خان کو رہائی دی۔
(جاری ہے)
اس کیس میں پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کیا تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں ضمانت کو ملزموں کے حق میں سمجھتی ہیں۔
نمایاں کیسز اور عدالتی فیصلےقندیل بلوچ کیس: 2016 میں سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے بھائی محمد وسیم نے ان کا قتل کیا۔ سن 2019 میں انہیں عمر قید کی سزا ہوئی لیکن 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے والدین کی معافی اور اعتراف جرم پر قانونی سقم کی بنیاد پر محمد وسیم کو بری کر دیا۔ اس فیصلے کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل،' خواتین کو انصاف کب ملے گا؟
کوہاٹ کیس: سن 2022 میں شریف اللہ کو بیٹی کے قتل کے الزام میں سزا ہوئی لیکن 2023 میں کمزور شواہد کی بنا پر انہیں بری کر دیا گیا۔ اسی طرح 2017 میں سپریم کورٹ نے حافظ آباد کے 2005 کے ایک کیس میں تین افراد کو رہا کیا اور 2021 میں پشاور ہائی کورٹ نے دوہرے قتل کے کیس میں ملزم کو بری کر دیا۔
عدالتی فیصلوں کے حامی کہتے ہیں کہ یہ فیصلے شواہد پر مبنی ہوتے ہیں اور ملزمان کا منصفانہ ٹرائل ان کا حق ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کمزور تفتیش اور خاندانی دباؤ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
قانونی فریم ورک اور اس کی حدودسن 2016 میں پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا، جس کے تحت قاتل کو لازمی عمر قید کی سزا ہوتی ہے۔
سن 2005 میں وہ شق ختم کی گئی، جس کے تحت قاتل خود کو وارث قرار دے کر معافی مانگ سکتا تھا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین موثر ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ خاندان کیس کی نوعیت بدل کر 'غیرت کے نام پر قتل‘ کو عام قتل کا رنگ دے دیتے ہیں، جس سے معافی ممکن ہو جاتی ہے۔ کمزور استغاثہ اور تفتیشی خامیاں بھی ملزمان کی رہائی کا باعث بنتی ہیں۔ 'خاندان شواہد چھپاتے ہیں‘انسانی حقوق کی کارکن منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ خاندان شواہد چھپاتے ہیں یا کیس کی نوعیت ہی بدل دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''خاندان غیرت کے قتل کو عام قتل بنا دیتے ہیں، جس سے معافی کا راستہ کھل جاتا ہے۔‘‘ ان کی والدہ عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ ''ہر خاتون کے قتل کو غیرت کا قتل‘‘ سمجھا جائے تاکہ ریاست ذمہ داری لے۔
پاکستان، غیرت کے نام پر باپ کے ہاتھوں پندرہ سالہ لڑکی کا قتل
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے سکریٹری جنرل حارث خلیق کہتے ہیں کہ معاشرے کے کچھ حصے پرانی روایات میں جکڑے ہوئے ہیں جبکہ ریاست کو اس جرم کو بغاوت سمجھ کر نمٹنا چاہیے۔ دوسری طرف قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شواہد کی بنیاد پر فیصلے ضروری ہیں تاکہ غلط سزائیں نہ ہوں۔
غیرت کے نام پر قتل، اصل تعداد کہیں زیادہایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سن 2024 کے دوران پاکستان میں تقریباً 500 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ سب سے زیادہ واقعات پنجاب (178)، سندھ (134)، خیبر پختونخوا (124)، بلوچستان (33) اور گلگت بلتستان (18) میں رپورٹ ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
سماجی ماہرین کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ پاکستان کے قانونی اور معاشرتی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ تفتیش مضبوط کی جائے، جرگوں پر پابندی لگے اور عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ یہ ظلم ختم ہو۔