اسلام دوسرے مذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے‘ منور حسین‘ شعیب
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251111-02-6
کراچی (اسٹاف رپورٹر)میونسپل کمشنر نیو کراچی ٹاؤن منور حْسین ملاح اور ٹاؤن وائس چیئرمین شعیب بن ظہیر نے بین المذاہب ہم آہنگی اور مساواتِ شہری کے فروغ کے لیے ایک مثالی قدم اٹھاتے ہوئے عیسائی ملازمین و زائرین کو سیالکوٹ کنونشن 2025ء میں شرکت کے لیے مالی معاونت فراہم کی ہے۔ نیو کراچی ٹاؤن کی جانب سے آٹھ عیسائی ملازمین کو فی کس پچیس ہزار روپے کے چیک تقسیم کیے گئے تاکہ وہ اپنے مذہبی فرائض اور رسومات باآسانی ادا کر سکیں۔اس موقع پرٹاؤن کمیٹی چیئرمین برائے قلیتی امور آصف روجر بھٹی ،فنانس آفیسر محمد سلمان شیخ بھی موجود تھے۔سیالکوٹ کنونشن جو 1904ء سے ہر سال منعقد ہوتا آرہا ہے، ملک بھر کے عیسائی زائرین کے لیے روحانی تجدید، عبادت اور برکتوں کا ایک تاریخی اجتماع ہے۔ میونسپل کمشنر منور حْسین ملاح نے عیسائی ملازمین کو چیک تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ہمیں رواداری، مساوات اور دوسرے مذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر شہری، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا عقیدے سے وابستہ ہو، ریاست اور اداروں کی توجہ و سہولت کا یکساں حق رکھتا ہے۔ نیو کراچی ٹاؤن کی انتظامیہ کا یہ عزم ہے کہ کوئی بھی فرد محض وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے مذہبی فریضے یا روحانی اجتماع میں شرکت سے محروم نہ رہ جائے۔ ٹاؤن وائس چیئرمین شعیب بن ظہیر نے کہا کہ مذہبی رواداری دراصل امن، محبت اور باہمی احترام کی بنیاد ہے، اور یہی جذبہ ایک مضبوط اور متحد معاشرے کی ضمانت بنتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔
مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔
ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔
اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔
سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔
قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔