زندگی نشیب وفراز کا نام ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم، کبھی دھوپ کبھی چھاؤں، کبھی ہنسی تو کبھی آنسو۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ نہ غم دائمی ہے اور نہ خوشی ہمیشہ اور ہمیں نہیں پتا اگلے موڑ پر زندگی ہمارے لیے کیا لا رہی ہے، ہر تکلیف و پریشانی سے پاک آرام و مطمئن زندگی موجودہ نفسا نفسی کے دور میں اب خواب بن کر رہ گئی ہے۔
خواتین کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی سطح کی ذہنی الجھنوں کا شکارہیں، جس کی بنا پر ذہنی سکون کے لیے خواب آور ادویات اور مختلف چیزوں کا استعمال بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ عورت صنف نازک ہے، مگر بعض پہلوؤں میں وہ مرد سے زیادہ جرأت مند اور باحوصلہ دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عام انسان بھی ہے۔ دکھ تکلیف مصائب و پریشانیاں اس کے اعصاب پر بالکل ایسے ہی حملہ آور ہوتی ہیں، جیسے کسی مرد پر۔ مگر بعض خواتین زندگی کی تلخیاں سہتے سہتے ہمت و حوصلہ ہار بیٹھتی ہیں اور شدید دباؤ اور نفیساتی الجھنوں کا شکار ہو کر ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
ذہنی دباؤ اور نفیساتی الجھنیں ایک طرح کا انتہائی سنگین اور خطرناک مرض ہے، جو آگے چل کر ڈپریشن میں تبدیل ہو جاتا ہے، سخت ذہنی ہیجان اور دباؤ انسان کو بالکل اسی طرح چاٹ جاتا ہے، جس طرح دیمک لکڑی کو۔ اس کا بروقت اور مناسب علاج بے حد ضروری ہے، مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اول تو اسے مرض سمجھا ہی نہیں جاتا اور اگر سمجھا بھی جائے تو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
سنگین معاشی مسائل، شوہر و سسرال والوں کی بے اعتنائی، بچوں کے گمبھیر مسائل یا پھر کوئی اور ذہنی پریشانی خواتین کو ایک مستقل ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتی ہے اور اس مرض کی بروقت آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈپریشن جیسے خطرناک مرض کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ایسی اداسی، جس میں مبتلا مایوسی و ناامید فرد دنیا کی صعوبتوں سے خوف زدہ اور زندگی سے بے زار ہو جاتا ہے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم متوقع ڈپریشن کی بنا پر خواب آور اور سکون کی ادویات بغیر کسی ڈاکٹر کے مشورے لینا شروع کر دیتے ہیں، جو آگے چل کر بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے، اگر آپ یہ محسوس کر رہی ہیں کہ ذہنی و نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے آپ کے اندر مایوسی و ناامیدی اور ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، تو ان طریقوں پر عمل کر کے آپ ذہنی و نفسیاتی دباؤ سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہیں۔
حساس ہونا اچھی بات ہے، مگر حد سے زیادہ حساسیت ہمارے لیے ایک زہر قاتل ہے۔ موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے دل و دماغ کو مضبوط کر لیں اور یہ اس صورت ممکن ہے، جب ہم لوگوں کے سلوک اور تلخ رویوں پر کڑھنا چھوڑ دیں۔ بے حس ہونا اور بات ہے لیکن آپ کم سے کم فضول اور بے کار لوگوں کی باتوں کو محسوس کرنے کے بہ جائے اپنے اعصاب کو مضبوط بنائیے۔
اپنے لیے وقت نکالیے۔ اکثر خواتین بچوں اور گھر داری میں الجھ کر اپنی ذات سے بے پروا ہو جاتی ہیں، لگی بندھی زندگی میں مثبت تبدیلی کے لیے اپنے لیے وقت نکالیے، اپنی سہیلیوں سے رابطے کریں اور ہفتے میں کم از کم ایک بار ان سے ملاقات یا بات ضرور کیجیے، اپنے احساسات اور معاملات پر تبادلہ خیال کیجیے، اس سے آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گی۔
کہتے ہیں کہ سرخ و نارنجی اور اسی طرح کے تیز و شوخ رنگ ڈپریشن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ ہلکے رنگ پسند کرتی ہیں یا اپنی عمر کی بنا پر ایسے رنگوں کے استعمال سے کتراتی ہیں تو محض اپنے مزاج میں تبدیلی کی خاطر کبھی ان رنگوں کا استعمال بھی کیجیے۔ صرف ملبوسات میں ہی نہیں، بلکہ گھر کے پردوں، قالین، بیڈ شیٹ وغیرہ میں بھی آپ ان رنگوں کا استعمال کر سکتی ہیں۔
کسی بھی بناوٹ اور مصنوعی پن سے آزاد بچے فرشتوں کا روپ ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بچے ہمارے ذہنی تناؤ کو کم کرنے میں بہت معاون ہوتے ہیں، لہٰذا کوشش کیجیے کہ بچوں کے ساتھ مگن ہوکر اپنے ذہن کو منفی سوچوں سے پاک کرلیں۔ چہل قدمی کی عادت ہمیں بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ چہل قدمی کرنے سے ہمارے ذہن کے خلیات متحرک ہو جاتے ہیں، جو ذہنی دباؤ کم کرنے کے لیے خاصے مفید ہیں۔ اس لیے صبح یا شام کے وقت چہل قدمی کے لیے وقت نکالیے۔
لوگوں سے الگ تھلک رہ کر اکیلے وقت بِتانا ذہنی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے ، لہٰذا کوفت کے لمحات میں تنہا کمرے میں بند کر کے خود کو مزید کوفت میں مبتلا نہ کریں۔ اپنی اس کیفیت کے دوران ایسے لوگوں کے درمیان آ کر بیٹھیے، جو آپ کو پسندیدہ ہوں، اگر ایسے لوگ میسر نہیں تو پھر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ جائیے یا پھر اچھی سی کوئی من پسند کتاب پڑھ لیجیے۔
کوئی بھی مریض خصوصاً ڈپریشن میں مبتلا انسان اس وقت تک شفایاب نہیں ہو سکتا، جب تک وہ خود سے ہمت و جرأت نہ کرے۔ اپنے آپ کو بآور کرائیے کہ آپ اشرف المخلوقات ہیں اور قدرت کی طرف سے ہر مشکل اور پریشانی پر قابو پانے کی صلاحیت ودیعت کی گئی ہے۔ اپنے آپ کو یہ سمجھاتے رہیے کہ مجھے ہر پریشانی کا مقابلہ بہادری سے کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے، کیوں کہ یہ زندگی کا حصہ ہے۔ ذہنی اکتاہٹ میں مذہب میں خصوصی دل چسپی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو سکون و طمانیت قرب الٰہی سے میسر ہوتی ہے، وہ دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں حاصل ہوتی۔ پنچ وقت نماز آپ کو یقیناً گہرا سکون اور چین عطا کرے گی۔
یہ تو وہ عوامل تھے جن پر عمل کر کے آپ ڈپریشن سے بچ سکتی ہیں، لیکن اگر پھر بھی آپ اداسی کی دلدل سے نہیں نکل پائیں تو پھر اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچیے اور کسی ماہر نفسیات سے ضرور رجوع کیجیے۔
جب انسان مکمل طور پر ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے تو گویا وہ ہاتھ پیر چھوڑ دیتا ہے۔ منفی سوچیں اور نفسیاتی دباؤ اسے خود کو نقصان پہنچانے یا اپنی جان لینے پر اکسانا شروع کر دیتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں آپ فوراً اپنی کیفیت سے ماہر نفسیات کو آگاہ کیجیے۔ بعض خواتین ماہر نفسیات سے رجوع کرنے سے یہ سوچ کر کتراتی ہیں کہ شاید ماہر نفسیات پاگلوں کے علاج کے لیے ہوتے ہیں، یا یہ کہ ہم کوئی پاگل تھوڑی ہیں۔ یہ سوچ بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہمارا جسم بیمار ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح ذہن بھی کسی مسئلے سے دوچار ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے ہمیںکسی ذہنی معالج کی مدد کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
کلینیکل کاؤنسلنگ کے طریقہ علاج میں نفسیاتی معالج محض بات چیت کے ذریعے آپ کے ڈپریشن کا علاج کرتا ہے جو آپ کو ڈپریشن سے نجات دلانے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے جو ہمیں ذہنی بیمار بنا دیتا ہے۔
اپنے اپ کو ڈپریشن کے بھنور سے نکالنے کے لیے خود کو حتی الامکان مصروف رکھنے کی کوشش کیجیے اور زندگی کی قدر کیجیے کیوں کہ یہ خدا کا بہترین عطیہ ہے، یہ ہمارا ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے، لہٰذا ذہنی دباؤ میں ہمت و حوصلہ ہار کر وقت سے پہلے زندگی سے منہ موڑ کر زندگی گزارنا کفران نعمت ہے۔ اپنی نعمتوں پر بھروسا کیجیے اور زندگی کے ہر امتحان کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیجیے، جلد ہی ذہنی تناؤ اور ڈپریشن سے چھٹکارا حاصل کرلیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماہر نفسیات میں مبتلا جاتا ہے ہوتا ہے ہے اور کے لیے خود کو
پڑھیں:
’فلسطینی پیلے‘ امید زندہ ہے
غزہ کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک بچہ کبھی گیند کے پیچھے دوڑتا تھا جس کے خواب سمندر جتنے وسیع تھے۔ 24 مارچ 1984 کو غزہ شہر میں پیدا ہونے والے سلیمان احمد زاید العبید کو کون جانتا تھا کہ ایک دن وہ فلسطینی فٹبال کی تاریخ میں امر ہو جائیں گے اور دنیا انہیں محبت سے ’پیلے فلسطین‘ کہے گی۔
غربت، محاصرہ اور جنگی دھماکوں کے بیچ کھیلنا آسان نہیں تھا، مگر سلیمان کے پاؤں میں وہ جادو تھا جو ہر رکاوٹ کو شکست دیتا تھا۔ اپنے کلب کیریئر کا آغاز ’خدمات الشاطی‘ سے کیا، پھر ’مرکز شباب الامعری‘ اور ’غزہ اسپورٹ‘ کے لیے کھیلے۔ کھیل کا انداز ایسا تھا کہ لوگ انہیں ہرن، بلیک پرل، فلسطین کا ہنری اور سب سے بڑھ کر ’پیلے فلسطین‘ کہنے لگے۔
Former footballer Suleiman Al-Obeid, who played for the Palestinian national team was shot dead by Israeli occupation froces whilst he was waiting for humanitarian aid in Gaza.
The 41 year-old footballer was nicknamed the “Palestinian Pelé,” scored over 100 goals in his career. pic.twitter.com/l7cdW1wGUB
— • (@Alhamdhulillaah) August 9, 2025
2007 میں فلسطینی قومی ٹیم میں جگہ پانے والے سلیمان کے لیے یہ صرف کھیل نہیں، وطن کی عزت کا سوال تھا۔ 24 بین الاقوامی میچز میں 2 گول کیے، لیکن سب سے یادگار لمحہ 2010 ویسٹ ایشین چیمپیئن شپ میں یمن کے خلاف ان کا شاندار ’سکیسر کک‘ رہا۔ کلب کی سطح پر 100 سے زائد گولز کے ساتھ وہ 16-2015 اور 17-2016 کےGaza Strip Premier League کے ٹاپ اسکورر بھی بنے۔
6 اگست 2025 کا دن غزہ کے لیے ایک اور زخم بن گیا۔ جنوبی غزہ میں امداد کے منتظر لوگوں کی قطار میں سلیمان بھی کھڑے تھے، اپنے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا سامان لینے۔ بے رحم اور سفاک دشمن نے ایک لمحے میں ان کی زندگی کا چراغ بجھا دیا۔ 41 سالہ سلیمان اپنی اہلیہ اور 5 ننھے بچوں کو چھوڑ گئے۔
یوئیفا (Union of European Football Associations) نے انہیں تاریک دنوں میں بھی امید کا چراغ کہا مگر ان کی موت کے پس منظر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ لیور پول اسٹار محمد صلاح نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیسے، کہاں اور کیوں شہید ہوئے؟
Can you tell us how he died, where, and why? https://t.co/W7HCyVVtBE
— Mohamed Salah (@MoSalah) August 9, 2025
فلسطین فٹبال ایوسی ایشن کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کھیلوں سے وابستہ کم از کم 662 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں 421 فٹبال سے جڑے لوگ شامل ہیں، یہ صرف ایک کھیل کا نقصان نہیں، بلکہ ایک ثقافتی اور انسانی المیہ ہے۔
سلیمان العبید صرف ایک فٹبالر نہیں تھے؛ وہ ایک علامت تھے، اس فلسطینی روح کی علامت جو بربادی کے سائے میں بھی دوڑتی ہے، گول کرتی ہے اور خواب دیکھتی ہے۔ ان کے پاؤں کی جنبش، گیند پر گرفت، اور گول کے بعد آسمان کی طرف اٹھتے ہاتھ آج بھی غزہ کے بچوں کے دلوں میں امید جگاتے ہیں۔
فلسطینی پیلے کی ناگہانی موت دنیا کے سامنے مجسم سوال ہے کہ جنگ کب تک کھیل، محبت اور امن کی سرحدوں کو روندتی رہے گی؟ سلیمان العبید ہمارے درمیان نہیں، مگر ان کا نام، ان کی یاد، اور ان کا کھیل ہمیشہ زندہ رہے گا۔
غزہ کی گلیوں میں آج بھی کوئی لڑکا فٹبال کو ٹھوکر مارتے ہوئے اپنے آپ سے کہتا ہے ’میں بھی سلیمان العبید بنوں گا ۔ ۔ ۔ اور شاید، میں وہ گول کروں جو آزادی کا ہو۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں