شفاف ٹرائل آئینی حق، پولیس مقابلوں پر ازخود نوٹس لیں، چیف جسٹس کو خط
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
لاہور (خبر نگار) سی سی ڈی کی جانب سے پولیس مقابلوں کیخلاف از خود نوٹس کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیاگیا۔ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کے سربراہ اظہر صدیق نے موقف اپنایا کہ سی سی ڈی کا ادارہ کسی قانونی جواز کے بغیر قائم کیا گیا۔ آئین کے تحت ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے، کسی بھی شخص کو شک کی بنیاد پر زندگی سے محروم کرنا انصاف کے اصولوں کی نفی ہے۔ اسلامی، عالمی اور ملکی قوانین کے علاوہ آئین پاکستان کے تحت انسانی جان کو حرمت حاصل ہے۔ ماورائے عدالت مقابلوں کو عدالتیں بھی غیرآئینی قرار دے چکی ہیں۔ اداروں کا کام امن قائم کرنا جبکہ انصاف کرنا عدالتوں کا اختیار ہے، چیف جسٹس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر پولیس مقابلوں کا ازخود نوٹس لیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
بیٹا والد کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟ دوسری شادی کرنا گناہ تو نہیں، سپریم کورٹ
اسلام آ باد:سپریم کورٹ کے ججز نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ بیٹا والد کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟ دوسری شادی کرنا گناہ تو نہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے والد کے ساتھ بیٹا بیٹی کے لڑائی جھگڑے کے کیس کی سماعت کی، جس میں وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ والد نے دوسری شادی کی ہے اب بیٹا بیٹی کو گھر سے نکالنا چاہتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ دوسری شادی کرنا گناہ تو نہیں ہے۔ وکیل نے بتایا کہ والد دوسری شادی کے بعد گھر چھوڑ گئے، بچوں نے نہیں نکالا۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ بیٹا والد کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟۔ مکان کی ملکیت والد کے نام پر ہے۔ والد چاہے تو پراپرٹی خیرات میں بھی دے سکتا ہے۔ یہ فیملی ایشو ہے۔ بہتر ہے بچے والد سے صلح کرلیں۔
وکیل نے بتایا کہ والد بچوں کے ساتھ سیٹلمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
والد کا مؤقف ہے کہ میری بیٹی نے منہ پر تھوکا، تشدد کیا گیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ بیٹی ہے کوئی پھولن دیوی تھوڑی ہے کہ مارے گی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ بچوں نے لگتا ہے والد کو بہت ناراض کر دیا ہے ۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ یہ گھریلو تشدد کا کیس تو ہو سکتا ہے، مکان پر غیر قانونی قبضے کا نہیں ۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔