لاہور؛ اسٹیج ڈراموں میں فحش رقص اور نامناسب لباس پر اداکاراؤں کو انتباہی نوٹس
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
لاہور کے مختلف تھیٹرز میں رقاصاؤں کے فحش رقص اور اسٹیج ڈراموں میں اخلاقی حدود کی خلاف ورزی پر پنجاب آرٹس کونسل نے سخت ایکشن لے لیا۔
پنجاب آرٹس کونسل کی مانیٹرنگ ٹیم نے حالیہ دنوں شہر کے متعدد تھیٹرز میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کا جائزہ لیا جس دوران متعدد رقاصاؤں کے اسٹیج پرفارمنس میں بے ہودہ حرکات اور غیر اخلاقی ڈانسز سامنے آئے۔
پنجاب آرٹس کونسل نے ضابطۂ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی پر مشہور اسٹیج اداکاراؤں انزاءخان، مدیحہ بٹ اور شازیہ بلوچ کو باضابطہ وارننگ نوٹس جاری کردیئے۔
جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر آئندہ ایسی حرکات دہرائی گئیں تو نہ صرف تھیٹر لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے بلکہ ان فنکاراؤں پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
اسی سلسلے میں ستارہ تھیٹر کے لائسنس ہولڈر کو بھی نوٹس بھیجا گیا ہے جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ اسٹیج ڈراموں میں ڈانس اور مکالمات کی پیشکش ضابطۂ اخلاق کے مطابق ہو، بصورت دیگر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
وارننگ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مانیٹرنگ ٹیم آئندہ بھی ڈراموں کی براہ راست نگرانی کرے گی اور کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں فوری پابندی لگائی جائے گی۔
پنجاب آرٹس کونسل کا کہنا ہے کہ تھیٹر ایک فن ہے جو معاشرتی اقدار، ثقافتی روایات اور مثبت پیغام رسانی کا ذریعہ ہے، مگر حالیہ برسوں میں کچھ پروڈیوسرز اور فنکاروں کی جانب سے سستی شہرت اور زیادہ کمائی کے لیے غیر اخلاقی رقص اور بیہودہ جملوں کا سہارا لیا جا رہا ہے، جو ناقابل قبول ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پنجاب آرٹس کونسل
پڑھیں:
بیوی کے لباس،کھاناپکانے پرتنقیدکامقدمہ، ہائی کورٹ نے فیصلہ سنادیا
بھارت کی بمبئی ہائی کورٹ نے شوہر اور اس کے اہل خانہ کے خلاف بیوی کی شکایت پر درج فوجداری مقدمہ اور عدالتی کارروائی کو یہ قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ بیوی کے لباس یا کھانا پکانے کی صلاحیت پر تنقید کو سنگین ظلم یا ہراسانی نہیں کہا جا سکتا۔
اورنگ آباد بینچ کے ججز جسٹس ویبھا کنکنواڑی اور جسٹس سنجے اے دیش مُکھ نے فیصلے میں کہا کہ یہ کہنا کہ بیوی مناسب کپڑے نہیں پہنتی یا کھانا اچھا نہیں پکاتی، قانوناً ظلم یا ذہنی اذیت کے زمرے میں نہیں آتا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ازدواجی تعلقات میں کشیدگی کی صورت میں الزامات میں مبالغہ آرائی معمول کی بات ہے اور معمولی نوعیت کے الزامات کی بنیاد پر شوہر یا اس کے خاندان کے خلاف مقدمات درج کرنا قانون کے غلط استعمال کے مترادف ہے۔
یہ مقدمہ ایک خاتون کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر سے شروع ہوا تھا، جس نے مارچ 2022 میں شادی کی تھی۔ خاتون کا دعویٰ تھا کہ شادی کے صرف ڈیڑھ ماہ بعد شوہر کا رویہ بدل گیا اور اس کے ذہنی و جسمانی امراض کو چھپایا گیا تھا۔
تاہم عدالت نے شواہد کی روشنی میں قرار دیا کہ شادی سے قبل ہونے والی گفتگو میں شوہر نے اپنی بیماری اور زیر علاج ہونے کے بارے میں واضح طور پر بتایا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون کو سب معلوم تھا۔
خاتون نے یہ الزام بھی لگایا کہ دیوالی کے قریب اس سے 15 لاکھ روپے فلیٹ خریدنے کے لیے مانگے گئے، لیکن عدالت نے بتایا کہ شوہر کے پاس پہلے ہی فلیٹ موجود ہے۔
عدالت نے کہا کہ بیوی کے الزامات زیادہ تر مبہم اور غیر مصدقہ ہیں، اور ایف آئی آر میں صرف اس کا ذاتی بیان موجود ہے۔ مزید یہ کہ پولیس نے پڑوسیوں سے بھی کوئی تفتیش نہیں کی۔ ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے ایف آئی آر اور تمام عدالتی کارروائی کو منسوخ کر دیا۔