فیصل آباد؛ بٹیر، تیتر اور پاڑہ ہرن کے غیرقانونی شکار کیخلاف کارروائیاں، مقدمات درج
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
لاہور:
وائلڈ لائف رینجرز فیصل آباد نے بٹیر، تیتر اور پاڑہ ہرن کے غیر قانونی شکار میں ملوث افراد کے خلاف مختلف کارروائیاں کرکے مقدمات درج کر لیے لیکن کوئی بھی ملزم گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
ترجمان وائلڈ لائف رینجرز کے مطابق گڑھ مہا راجا کے نواحی علاقے سلطان باہو میں بٹیروں کا غیر قانونی شکار کرنے پر حق نواز کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تاہم وہ گرفتار نہ ہو سکا۔
اسی طرح، تھانہ صدر گوجرہ کے علاقے میں تیتر کے غیرقانونی شکار کے الزام میں غلام نبی کے خلاف مقدمہ درج ہوا لیکن وہ بھی فرار ہوگیا۔
مزید برآں، ستیانہ روڈ پر کی گئی کارروائی کے دوران وائلڈ لائف ٹیم نے خیابان گرین کالونی میں فروخت کے لیے لے جائے جانے والا ذبیح شدہ پاڑہ ہرن برآمد کرلیا۔
یہ ہرن ملزمان انور اور جاوید کی تحویل میں تھا، جن کے خلاف تھانہ صدر فیصل آباد میں مقدمہ درج کر کے موٹر سائیکل سمیت شکار شدہ ہرن قبضے میں لے لیا گیا، تاہم دونوں ملزمان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
محکمہ وائلڈ لائف نے کہا ہے کہ جنگلی حیات کے غیرقانونی شکار کے خلاف کارروائیاں بلا امتیاز جاری رہیں گی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان وائلڈ لائف کے خلاف
پڑھیں:
بھارت کا 35 سال پرانا مقدمہ دوبارہ کھولنے کا فیصلہ: کشمیری مسلمانوں کے خلاف نیا پروپیگنڈا؟
بھارت کی اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (SIA) نے 1990 میں نرس سرلا بھٹ کے قتل کے 35 سالہ پرانے مقدمے کو دوبارہ کھول دیا ہے، جسے ماہرین انصاف کی فراہمی کے بجائے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری جبر کو جواز دینے اور کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت کے یوم آزادی سے قبل مقبوضہ کشمیر میں فوجی محاصرہ مزید سخت
اس واقعے کو بھارتی حکومت کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کے آغاز کے طور پر پیش کرتی ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق یہ ہجرت زیادہ تر رضاکارانہ تھی۔
11 اگست کو سری نگر میں 8 مقامات پر چھاپے مارے گئے، جن میں سابق جے کے ایل ایف ارکان پیر نور الحق شاہ اور یاسین ملک کے گھروں پر بھی کارروائی شامل تھی۔ یہ چھاپے 35 سال پرانے واقعے کے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے کیے گئے۔
سرلا بھٹ، جو شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ملازم تھیں، کو 18 اپریل 1990 کو ہوسٹل سے اغوا کیا گیا اور بعد ازاں قتل کر دیا گیا تھا۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قتل پنڈت برادری کو وادی سے نکالنے کی کوشش کا حصہ تھا۔ تاہم کشمیری پنڈتوں کے متعدد بیانات اس بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کا جعلی مقابلہ، مقامی لوگوں نے امیت شاہ کا دعویٰ مسترد کردیا
ناقدین کے مطابق یہ مقدمہ بھارتی ریاستی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس میں کشمیری آزادی تحریک کو ’دہشتگردی‘ سے جوڑ کر سیاسی مطالبات کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔
اس پالیسی کے تحت جعلی مقابلے، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، اور بے گناہ شہریوں کی گرفتاریوں کے واقعات عام ہیں۔
چٹہ سنگھ پورہ جعلی مقابلہ، کپواڑہ قتل اور ہندواڑہ کرکٹ فائرنگ جیسے واقعات اس منظم ریاستی جبر کی مثال ہیں، جہاں ’غلطی‘ کے نام پر دانستہ ظلم کو چھپایا جاتا ہے۔
سینیئر کشمیری صحافی گوہر گیلانی کے مطابق، بعض کشمیری مسلمانوں کی درخواست پر سینیئر بھارتی افسر وجاہت حبیب اللہ نے اُس وقت کے بدنام گورنر جگموہن سے کہا کہ پنڈت برادری کو جانے سے روکا جائے، تاہم گورنر نے واضح کر دیا کہ اگر وہ جانا چاہیں تو ان کے لیے کیمپ اور تنخواہوں کا بندوبست کر دیا گیا ہے، لیکن رہنے کی صورت میں ان کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج نے جعلی مقابلے میں 3 کشمیری نوجوان شہید کردیے
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس بھارتی حکومت کے اس بڑے پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت اسلاموفوبیا اور فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دے کر کشمیری مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتی حکومت سرلا بھٹ صحافی گوہر گیلانی مقبوضہ کشمیر ہندو پنڈت