کرکٹ کھیلیں کرکٹ سے نہ کھیلیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
کراچی:
’’وہ دیکھو شاہین آفریدی آ گیا آؤ چلو سیلفی لیتے ہیں‘‘
ایک تقریب میں شاہین کے آتے ہی ہلچل مچ گئی، ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ ان کے پاس پہنچ جائے، وہ بھی خندہ پیشانی کے ساتھ سب سے ملاقات کرتے رہے، قریب ہی ایک سابق فاسٹ بولر بھی موجود تھے انھیں کسی نے لفٹ نہ کرائی، ایک بچے سے اس کے والد نے کہا کہ بیٹا ان کے ساتھ بھی تصویر بنوا لو تو جواب ملا ’’ یہ کون ہیں‘‘۔
اس پر اسے بتایا گیا کہ انھوں نے پاکستان کرکٹ کیلیے کتنے کارنامے سرانجام دیے،میری نظر ان سابق کھلاڑی پر پڑی تو وہ گہری سوچ میں گم دکھائی دیے، میرے ساتھ موجود ایک سینئر صحافی نے کہا ’’تمہیں پتا ہے یہ کیا سوچ رہا ہے‘‘ میں نے حیرت سے جواب دیا مجھے کیسے پتا ہو گا تو وہ کہنے لگے ’’اس کے ذہن میں یہی بات ہو گی کہ کبھی ایسا ہی رش میرے لیے بھی لگتا تھا آج لوگوں کو میں یاد ہی نہیں ہوں۔
اپنے عروج پر یہ شخص کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا، اسے اپنے سپراسٹار ہونے کا غرور تھا اس نے ایک الگ ہی دنیا بسائی ہوئی تھی جہاں تعریفیں کرنے والوں کی بھرمار تھی، آج دیکھو کوئی ایک بھی ساتھ نہیں ہے، کرکٹ کیا زندگی کے ہر شعبے میں ایسا ہی ہوتا ہے شہرت ہمیشہ ساتھ نہیں رہتی، انسان کو عروج پر پہنچنے کے بعد بھی قدم زمین پررکھنے چاہیئں تاکہ زوال کے وقت زیادہ دکھ نہ ہو‘‘
ان کی یہ باتیں بالکل درست تھیں، اگر ہم کرکٹ کی بات کریں تو یہاں ایسا ہی ہے، سب چڑھتے سورج کے پجاری ہیں، موجودہ دور کے کچھ ’’اسٹارز‘‘ بھی شہرت کے نشے میں گم ہو گئے تھے، انھوں نے اپنے آپ کو ایک خول میں بند کر لیا، اردگرد موجود لوگ بھی ’’بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو‘‘ جیسے نعرے لگاتے رہے، گوکہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ تنہا ہو گئے ہوں لیکن ایسا ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی، کسی نے ایک خوبصورت بات کہی تھی کہ ’’ آپ کرکٹ کھیلو کرکٹ کے ساتھ نہیں کھیلو، کھیل کی عزت نہیں کرو گے تو اپنی عزت بھی کم ہو جائے گی‘‘
لوگ شاید میری بات نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ جب 2 سال قبل سینٹرل کنٹریکٹ کا تنازع سامنے آیا اس کے بعد پاکستان ٹیم کی کارکردگی بْری طرح زوال پذیر ہوئی، آپ کو ورلڈکپ کھیلنے بھارت جانا ہے بجائے ٹورنامنٹ کی حکمت عملی پر بات کرنے کے ہمارے اسٹار کھلاڑی اپنے معاوضے بڑھانے کیلیے مذاکرات میں لگے تھے۔
ان کو لگتا تھا کہ یہ اچھا موقع ہے بورڈ سے بات منوا لو ورنہ کل کوئی ہماری بات نہیں سنے گا، اسٹار کرکٹرز کی وجہ سے ان کے ’’ مشیر‘‘ خود کروڑپتی ہو گئے لیکن غلط مشورے دے کر انھیں مشکل میں ڈال دیا، اگر ٹیم ورلڈکپ جیت جاتی تو کروڑوں روپے کے انعامات ملتے لیکن شاید خود پر ہی یقین نہ تھا اس لیے چند پلیئرز نے بورڈ کو بلیک میل کیا۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر محسن نقوی جیسا کوئی تگڑا چیئرمین ہوتا تو کسی کو ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوتی لیکن اس وقت کی مینجمنٹ نے کمزوری دکھائی، پہلی بار کھلاڑیوں نے دباؤ ڈال کر آئی سی سی سے جو رقم پی سی بی کو ملتی ہے اس کا تین فیصد حصہ خود لیا،تین سال کیلیے اسے معاہدوں کا حصہ بنوایا، اپنے معاوضے دگنے سے بھی زائد کروا لیے۔
ایسا نہ ہونے پر بورڈ کو دھمکی دی گئی کہ ’’پھر ہم کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم کے پاس چلے جائیں گے اور ورلڈکپ میں آئی سی سی کی تشہیری سرگرمیوں کا بائیکاٹ کریں گے‘‘۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ترجیحات پیسے کو رکھنے کی وجہ سے بھارتی سرزمین پر ہماری ٹیم بدترین ناکامیوں کا شکارہو کرورلڈکپ کے پہلے مرحلے تک محدود رہی،پیسہ کمانا سب کا حق ہے لیکن اس کیلیے کسی پر غلط دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔
آپ دیکھ لیں اس وقت سے اب تک پاکستان کی کارکردگی کیسی ہے، ٹیم نے 12 میں سے 3 ٹیسٹ جیتے اور 9 میں شکست ہوئی،29 میں سے 13 ون ڈے انٹرنیشنل جیتے،16 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،43 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں سے صرف 16 جیتے اور 25 میں ناکامی ہوئی، ایک ٹائی اور ایک غیرفیصلہ کن رہا،مجموعی طور پر ٹیم اس عرصے میں شکستوں کی نصف سنچری مکمل کر چکی اور 84 میں سے صرف 32 میچز جیتے۔
کل کل کے بچے بھی ہمیں ہرا گئے، ہمارے اسٹار کرکٹرز کی بھی اس دوران کارکردگی زیرو ہے، میری بات پر یقین نہیں تو انٹرنیٹ پر ریکارڈز چیک کر لیں،میں یہاں خود لکھنا مناسب نہیں سمجھتا، کرکٹ بڑا فنی گیم ہے، پہلے جاوید جاوید، پھر انزی انزی، بابر بابر، صائم صائم کل پھر حسن حسن کے نعرے سنائی دیں گے۔
یہاں شائقین کا مزاج وقت کے سال بدلتے رہتا ہے، ساتھ صرف آپ کا بیٹ یا بال ہی دیتی ہے، اس کے ساتھ وفادار رہیں، اچھا کھیلیں گے تو پیسہ خود بخود آتا چلا جائے گا، چاہے وہ کنٹریکٹ، تشہیری معاہدوں یا لیگز کا ہو لیکن اپنی بنیاد نہ چھوڑیں، اصل توجہ کارکردگی پر دیں،کوئی شہنشاہ بولے، چیتا بولے بولنے دیں شائقین کے نعروں کو سر پر سوار نہ کریں، تکبر سے دور رہیں۔
سوشل میڈیا والوں نے بڑوں بڑوں کو آسمان پر چڑھا دیا جو بیچارے آج مشکل میں گھرے ہیں ان میں بھی ایسے ہی لوگوں کا بڑا کردار ہے،کرکٹرز تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے، میرا جہاں اشارہ ہے آپ وہ سمجھ گئے ہوں گے، ایسے کھلاڑیوں کو سچے دل کے ساتھ اللہ سے معافی مانگنی چاہیے کہ آئندہ تکبر سے دور رہتے ہوئے اپنے کھیل پر توجہ دیں گے، اپنا فائدہ اٹھانے والے لوگوں سے دور رہیں اور ایسے افراد سے قربت رکھیں جو جھوٹی تعریفوں کے بجائے اچھے مشورے دیتے ہوں۔
کارکردگی میں بہتری کیلیے ماضی کے سپراسٹارز سے مشاورت کریں اس سے آپ کی پگڑی نیچے نہیں آ جائے گی، خود کو عقل کْل نہ سمجھیں،پھر دیکھیں انشا اللہ آہستہ آہستہ ماضی جیسی فارم واپس آ جائے گی، اگراپنی انا کے خول میں بند رہے تو وقت گذرتے دیر نہیں لگتی لوگ دوسروں کی طرح آپ کو بھی بھول جائیں گے،پہلے بھی میں نے ایک بات لکھی تھی آج دہرا دیتا ہوں، ’’ میں بڑا اہم تھا یہ میرا وہم تھا‘‘ انسان یہ بات جتنی جلدی سمجھ لے اتنا اچھا ہے، بڑھاپے میں گھر کے باہر کرسی پر بیٹھے ماضی کو یاد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ساتھ
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭