WE News:
2025-11-03@01:39:45 GMT

یہ وہ لاہور نہیں

اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT

لاہور کے حوالے سے کچھ کہنے کا حق تو پرانے لاہوریوں کو حاصل ہے، میرے جیسے لوگ بھی البتہ خود کو لاہوری کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ لگ بھگ 30 برس سے یہاں پر مقیم ہوں۔ میرے بچے یہیں پرپیدا ہوئے، پروان چڑھے، تعلیم وغیرہ سب ادھر ہی حاصل کی۔ اب تو اپنے آبائی شہر دو دو سال تک جانا نہیں ہو پاتا۔ رب ہی جانتا ہے کہ کہاں کی مٹی کہاں جا کر ملے گی، مگر میری تو خواہش ہے کہ وقت آخریں بھی ادھر آئے اور مٹی بھی داتا کی نگری کی نصیب ہو۔

اس کا البتہ افسوس ہے کہ ہم نے اپنے سامنے لاہور کو بدلتے ہوئے دیکھا۔ اس کا وہ حسن، رنگینی، دلکشی اور فسوں بتدریج تحلیل ہوتا گیا۔ آج کا لاہور کنکریٹ کا ایسا سنگی شہر ہے جس کی مناسبت 30 سال پہلے کے لاہور سے نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ جب 30 سال پہلے لاہور آیا تو یہ دھیمے سروں کا ایک حسین شہر لگا، جس نے اپنے بازو اس بے خانماں مسافر کے لیے کھول دیے تھے۔ ایک زمانے میں کراچی کو غریب نواز شہر کہا جاتا تھا، ہم نے تو یہ وصف لاہور میں بھی کمال درجے پر پایا۔ کھانا سستا اور عمدہ۔ گلی محلے میں ریڑھی پر ایسے لذیذ نان چنے، بونگ شوربہ مل جانا کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ جگہ جگہ پر ڈھابے، روایتی کھانوں کے مرکز جہاں مزے کے کھانے مل جاتے۔ ہریسہ، نہاری، حلیم، پٹھورے، مختلف انداز کے کباب، روایتی انداز کی مچھلی اور نجانے کیا کیا۔ اب تو لگتا ہے مہنگائی کا طوفان ہر شے کو لے ڈوبا۔

لاہور کی بڑی وجہ شہرت یہاں کا علمی، فکری اور ثقافتی ماحول رہا ہے۔ سرسید احمد خان کوئی سوا سو سال قبل لاہور آئے تو لاہوریوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہیں زندہ دلانِ لاہور کا نام دیا۔ یہ شہر زندہ دلان طویل عرصے تک اپنے شعبوں کے ممتاز ترین افراد سے آباد تھا۔ شاعری، ادب، تنقید، تحقیق، مصوری، ڈرامہ،تھیٹر، موسیقی، میلے، تہوار۔۔۔ ہر حوالے سے لاہور کے دلنشیں رنگ نمایاں تھے۔ ایسے ایسے قدآور لوگ ایک ہی وقت میں یہاں موجود تھے کہ اس زمانے کے لاہوریوں پر رشک آتا ہے۔ آپ خود تصور کریں کہ علمی اعتبار سے اسی شہر میں ایک طرف اچھرہ میں مولانا مودودی کی عصر کی محفل تھی، مولانا اصلاحی کا درس قرآن ہوتا، علامہ غلام احمد پرویز کی اپنی علمی محفل سجتی، اس کے علاوہ بھی کئی علمی، مذہبی محافل ہوتیں۔ اس کہکشاں کے رنگوں کی جھلک اس زمانے کی یادوں پر مشتمل کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

29 سال پہلے جب ہم لاہور وارد ہوئے تو صحافت کے علاوہ ایک بڑی کشش لاہور کے علمی ادبی ماحول کاحصہ بننے کی خواہش تھی۔ لاہور کی پرانی یادوں پر مشتمل کئی کتابیں پڑھ رکھی تھی۔ اس فسوں خیز ماحول کا تصور کر کے آدمی انبساط سے سرشار ہوجاتا۔ پاک ٹی ہاؤس جانے کی خواہش تھی۔ لاہور کی ادبی ڈائریاں بڑے شوق سے پڑھتا تھا، حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں کی تفصیل جہاں باقاعدگی سے شائع ہوتیں۔ یہی سوچتے لاہور پہنچا کہ ٹی ہاؤس میں ہونے والی بحثیں کس رنگ کی ہوں گی، کیا کیا کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کا بڑا شہرہ سنا تھا۔ برٹش کونسل اور امریکن سینٹر کی لائبریریوں کی بھی دوستوں سے تعریف سنتے رہے تھے۔

افسوس کہ اپنی آنکھوں سے لاہور کا وہ پورا کلچر بدلتے دیکھا۔ یہ خوش گمانی تو لاہور آتے ہی ہوا ہوگئی کہ یہاں پر ماضی کی طرح کے ادبی حلقے اور فکری نشستیں جاری ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور دانشور جن میں شامل ہوتے اور نوجوانوں کی تربیت کا باعث بنتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ بکھر چکا ہے۔ وہ لوگ رخصت ہوگئے، جو اپنی ذات میں انجمن تھے۔ جو بچے، وہ اپنے اپنے گھروندوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کچھ بڑھاپے کے باعث متحرک نہیں رہے۔ بعض کو اب ہجوم بھاتا ہی نہیں۔ کسی نے اپنے گھر میں کبھی کوئی ستائشی نشست جما لی، جس میں دو چار مداحین اکٹھے ہوگئے۔ مشروب مغرب کے پیالوں پر تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے رہے۔

کچھ یہ بھی ہوا کہ ٹی ہاؤس کا کھلا ڈلا درویشانہ ماحول اب ہمارے سپر اسٹار ادیبوں، دانشوروں کو راس ہی نہیں تھا۔ اس کی جگہ پانچ ستارہ ہوٹلوں اور اعلیٰ پائے کے ان کلبوں نے لے لی، جہاں کی سالانہ فیس لاکھوں اور ممبرشپ کے لیے کروڑ پتی ہونا شرط تھی۔ وہاں وہ گاہے بگاہے نشست جماتے اور اشرافیہ کو اپنے علم وہنر سے مسحور کرتے۔ شروع میں ہم حلقہ کے اجلاسوں میں بھی شامل ہوتے رہے، پیچھے بیٹھنے والے ایک مبصر کے طور پر۔ سچ تو یہ کہ کچھ مزا نہ آیا۔ لگا کہ یہاں پر آنے والے بہت سے لوگوں کو ابھی دنیا بدل جانے کی اطلاع ہی نہیں ملی۔ یہ خبر ہی نہیں پہنچ سکی کہ اب 70 اور 80 کا عشرہ نہیں، بلکہ نئی صدی، نیا ملینئم شروع ہوچکا ہے۔ وہی لگے بندھے تصورات، گھسی پٹی تھیوریاں، ادبی مناقشے اور سب سے بڑھ کر تحریر سے زیادہ چہرہ دیکھ کر داد، بے داد دینا۔ پرانے لوگوں میں سے سید قاسم محمود جب تک زندہ تھے، وہ فعال رہتے، خاص اجلاسوں میں شامل بھی ہوجاتے۔ بہت سے سینیئر ادیب اور لکھاری البتہ شریک نہ ہوتے۔ ادبی محفلوں کی بے رونقی بڑھتی گئی۔ (یہ نائن الیون کے آس پاس کی بات کر رہا ہوں یعنی اٹھانوے، ننانوے سے 2001، 2002 تک۔)

ادھر دہشتگردی کے خوف سے برٹش کونسل لائبریری اور امریکن سینٹر لائبریری دونوں تک رسائی ختم ہوگئی۔ اجوکا کے بعض ڈرامے میں نے امریکن سینٹر کے ہال میں دیکھے، بعد میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں بھی کچھ ڈرامے ہوئے۔ پھر گوئٹے سینٹر بھی نہ رہا۔ خیر پھر اجوکا نے الحمرا کا رخ کیا۔ سال میں ایک آدھ بار وہ اپنے دو چار ڈرامے کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، مگر پہلے جیسی بات نہیں۔

نائن الیون سے پہلے کے برسوں میں رفیع پیر تھیٹر والے ہر سال اکتوبر نومبر میں عالمی پرفارمنگ تھیٹر فیسٹیول کراتے تھے۔ اس میں کئی یورپی ممالک سمیت قریباً تمام جنوبی ایشیائی ممالک کے تھیٹر گروپس آتے، دستاویزی فلمیں دکھائی جاتیں۔ شیما کرمانی، نگہت چوہدری اور تحریمہ مٹھا کمال شائستگی اورفنکاری سے نرت کی باریکیاں بیان کرتیں۔ افسوس کہ بدبخت دہشتگردوں نے لاہوریوں کو اس عالمی فیسٹیول سے بھی محروم کر دیا۔ اب پچھلے چند برسوں سے لاہور میں معاملات ٹھیک ہیں، مگر تھیٹر فیسٹیول کی کہانی ختم ہوچکی۔

لاہور کی ایک اور خاص بات فروری میں بسنت فیسٹیول تھا۔ ایسی رونق اور خوبصورتی جو لاہوریے آج بھی یاد کرتے ہیں۔ افسوس کہ ایسے شاندار تہوار کو کچھ کنزیومر ازم اور کچھ لوگوں کی حماقتیں مار گئیں، حکومت بھی اسے ہینڈل کرنے میں ناکام رہی۔ اب تو لگتا ہے کہ بسنت کا صرف نام ہی کلچر کی پرانی کتابوں میں رہ جائے گا۔ پھر ہر سال مارچ کا پورا مہینہ ریس کورس پارک میں جشن بہاراں کا میلہ لگتا۔ سندھ، بلوچستان اور پختونخوا سے بھی فن کار، ہنرمند آتے۔ مجھے یاد ہے کہ شکار پور والوں کے اسٹال سے ان کا مشہور اچار اور ماوا (کھویا) کئی بار لیا۔ ایک بار بلوچستان کے اسٹال سے خوبصورت بگٹی چپل بھی خریدی۔ عجب رنگا رنگ فیسٹیول تھا وہ بھی۔ اب وہ بھی اجڑ گیا۔ لگتا ہے جیسے لاہور اور لاہوریوں سے رنگ روٹھ ہی گئے ہیں۔

لیجنڈری شخصیات کی مالا بھی نہ رہی۔ رفتہ رفتہ موتی جیسے وہ لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے رہے۔ افسوس کہ ان کی جگہ لینے کے لیے دور دور تک کوئی موجود نہیں۔ ہر ایک کے جانے سے ایسا خلا پیدا ہوا جو آج تک نہیں بھر سکا۔ احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، اشفاق احمد، قتیل شفائی، ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر انیس ناگی، شہزاد احمد، سید قاسم محمود اور ہمارے ہردلعزیز امجد اسلام امجد۔۔۔ کس کس کا نام لیا جائے۔

ان میں بعض ایسے بھی تھے، جو آخری عمر تک محدود پیمانے پر ہی سہی، مگر محفلیں سجاتے رہے۔ اشفاق صاحب اگرچہ پوش علاقے کے ایک شاندار گھر میں مقیم تھے، گیٹ پر ایک چاق و چوبند گارڈ تعینات تھا، بغیر وقت لیے ملنا آسان نہیں تھا۔ اس گھر کے دروازے البتہ نوجوانوں پر کھلے تھے۔ کوئی بھی لڑکا، لڑکی فون پر وقت لے کر اشفاق صاحب سے مل سکتا تھا۔ بابوں کے قصے کہانیاں، روحانیت میں ڈوبی حکایتیں سننے کے ساتھ ان کی فراخدلانہ میزبانی سے بھی لطف اندوز ہوتا۔ دو چار بار ہم بھی حاضر ہوئے، گھنٹوں پر محیط ان نشستوں کی یادیں آج بھی پہلے دن کی طرح تروتازہ ہیں۔

احمد ندیم قاسمی صاحب بھی مجلس ترقی ادب کے دفتر میں موجود ہوتے۔ ان کے گرد احباب کا جھمگھٹا لگا رہتا۔ قاسمی صاحب ادیب تو بڑے تھے ہی، مگر ادیب ساز بھی کمال کے تھے۔ میں تو ایک آدھ بار ہی وہاں جا سکا، مگر ہمارے کئی دوست وہاں جاتے رہے، ان کی تحریریں فنون میں بھی شائع ہوتیں۔ منیر نیازی یکسر مختلف مزاج کے انسان تھے۔ ان کا ایک مخصوص حلقہ احباب تھا، ہر ایک نیازی صاحب کے مزاج کو نہیں سمجھ پاتا نہ ہی ان کی نظر میں جچنا آسان کام تھا۔

ڈاکٹر وزیر آغا سے ان کے آخری دنوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ طفیل روڈ، کینٹ کے ایک پرسکون گھر میں وہ مقیم تھے۔ یار دیرینہ کرامت علی بھٹی کے ساتھ ڈاکٹر وزیرآغا سے فون پر وقت طے کر کے حاضر ہوتے۔ کمال آدمی تھے، اپنا علم اور معلومات اپ ڈیٹ رکھتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے ہر ملاقات معلومات اور علم کے نئے در وا کرتی۔ دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کرتے۔ سائنس اور کاسمولوجی جیسے موضوعات پر ان جیسی نظر رکھنے والا کوئی ادیب میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ جی چاہتا ہے کبھی ڈاکٹر صاحب مرحوم پر تفصیل سے لکھوں، ان کی آپ بیتی بڑی دلچسپ اور شاندار ہے۔ جانے کیوں ہمارے نقادوں نے ڈاکٹر صاحب کی شاعری کی طرح ان کی خود نوشت کو بھی سفاکانہ بے پروائی سے نظر انداز کیا؟

پاک ٹی ہاؤس کو ہم نے اپنے سامنے بند ہوتے اور پھر اسے دوبارہ سے شروع ہوتے دیکھا۔ اس کا دوبارہ شروع ہونا عطاالحق قاسمی صاحب کا کریڈٹ ہے۔ ان کی کاوش سے ارباب اقتدار اس جانب مائل ہوئے۔ پاک ٹی ہاؤس صرف چائے خانہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی علامت بھی تھا۔ نصف صدی سے زیادہ علمی، ادبی، فکری اور تہذیبی سفر کا عینی شاید۔ ایسے تہذیبی مراکز زندہ رہنے چاہییں۔ پاک ٹی ہاؤس میں اب بھی حلقہ ارباب ذوق اور بعض دیگر تنظیموں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ پچھلے سال بہت متحرک نواز کھرل سیکریٹری تھے تو انہوں نے کئی یادگار اجلاس منعقد کر ڈالے۔

پاک ٹی ہاؤس کے باہر انارکلی کا مشہور پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے۔ ہر اتوار کو کتابوں کے متلاشی وہاں کا رخ کرتے اور اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔ وہاں سے بسا اوقات کئی شاندار کتابیں بہت سستے داموں مل جاتی ہیں۔ اس سب کے باوجود کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ دراصل ادبی مراکز صرف عمارتوں سے تو نہیں بنتے، اصل اہمیت تو ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اگر فٹ پاتھ پر بیٹھ جائیں تو وہ محفل کی صورت دھار لیتا ہے۔ ایسے لوگ کہاں سے اب لائیں؟ وہ نوجوان کہاں سے لائیں جو چائے کی پیالی پر بحث مباحثے، نظریات ڈسکس کرتے، دنیا بدل جانے کے خواب دیکھتے تھے۔ وہ خواب دیکھنے والے کہاں سے آئیں گے؟

ایسا نہیں کہ لاہور مردہ شہر ہے، اس میں زندگی آج بھی دوڑتی ہے، اس کے رگ وپے میں خون دوڑتا ہے، مگر وہ پہلے سی بات نہیں رہی۔ شائد ہم نے اپنے سامنے اس شہر کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، اس لیے اس میں پرانی پرچھائیں ڈھونڈتے ہیں۔ ممکن ہے کسی نوجوان کو ایسا کچھ محسوس نہ ہو۔

لاہور میں دانشوروں، اساتذہ اور صحافیوں کا ایک فورم سی این اے (سی این اے) بھی ہے، پچھلے 28 برسوں سے ہر جمعہ کی شام اس کا اجلاس ہوتا ہے، مختلف ایشوز پر گفتگو، بحث مباحثہ۔ اکیس برسوں سے میں اس کا ریگولر ممبر ہوں۔ لاہور کے بہت سے نامور صحافی، اساتذہ، پروفیسر، دانشور اس کے ممبر رہے ہیں، بہت سے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سینیئر صحافی، ایڈیٹر ارشاد احمد عارف اسے فعال اور زندہ رکھے ہوئے ہیں، تونسہ کے سردار غلام مصطفیٰ میرانی اس کے سدابہار چیئرمین ہیں۔ میں سی این اے کے فورم میں ہر جمعہ شریک ہوتا ہوں۔ لاہور میں ایسی بیٹھک، ایسے فورم غنیمت ہیں، مگر وہی بات کہ آج کے لاہور میں کچھ نہ کچھ مسنگ ضرور ہے۔ جیسے پھولوں کی خوشبو کم ہوجائے، تتلی کے رنگ پھیکے پڑ جائیں، جیسے باد صبا میں بادِ سموم کی آمیزش ہوجائے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

wenews ثقافتی ماحول رنگینی عامر خاکوانی علمی و ادبی محفلیں کنکریٹ لاہور وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ثقافتی ماحول رنگینی علمی و ادبی محفلیں کنکریٹ لاہور وی نیوز پاک ٹی ہاؤس لاہور میں سے لاہور افسوس کہ لاہور کے لاہور کی لاہور ا میں بھی ہی نہیں نے والے نے اپنے کے ساتھ جانے کی لگتا ہے سے بھی بہت سے کے لیے

پڑھیں:

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں لاہور سے ہوں، اس شہر سے جو دنیا بھر میں زندہ دلوں کے شہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے:”جنّے لاہور نئیں ویکھیا، اوہ جمیا نئیں”— جس نے لاہور نہیں دیکھا، گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لاہور صرف ایک شہر نہیں، ایک احساس ہے، ایک ترنگ ہے، ایک دھڑکن ہے جو کبھی نہیں رُکتی۔ یہاں کی زندگی دریا کی طرح رواں دواں ہے، جو دن رات بہتی رہتی ہے، رنگوں، گرمیِ جذبات اور توانائی سے لبریز۔ لاہوری لوگ حیرت انگیز طور پر ہر حالت میں خود کو ڈھالنے اور مطمن رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسرت پاتے ہیں، تہواروں، شادیوں یہاں تک کہ کرکٹ کی کامیابیوں کو بھی بے پناہ جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ وہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ لاہور کے لوگ مہمان نواز، کشادہ دل اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ وہ باغوں، پارکوں اور خوشگوار محفلوں سے محبت کرتے ہیں۔ مالی حیثیت چاہے جیسی بھی ہو، لاہوری لوگ اچھے کھانوں، صاف ستھرے لباس اور کشادہ دلی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔


مگر دل کی گہرائیوں سے ایک دکھ بھری بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ وہ لاہور جس میں میں پلا بڑھا — پھولوں اور خوشبوؤں کا شہر —اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹیں تشویش ناک ہیں۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور اکثر 300 سے تجاوز کر جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے ”انتہائی خطرناک” درجے میں آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب لاہور میں سانس لینا خود ایک خطرہ بن چکا ہے۔ وہ ”سموگ” جو کبھی لاہوریوں کے لیے اجنبی لفظ تھا، اب ہر سال اکتوبر سے فروری تک شہر کو سیاہ چادر کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، پروازیں ملتوی ہو جاتی ہیں، اور اسپتالوں میں سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کے مریضوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔


مگر لاہور ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب لاہور کی صبحیں دھند سے روشن ہوتی تھیں، سموگ سے نہیں۔ جب شالامار باغ، جہانگیر کا مقبرہ، مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد سورج کی کرنوں میں چمک اٹھتے تھے، نہ کہ گرد آلود دھوئیں کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔ کبھی لاہور اور اس کے نواحی علاقے سرسبز و شاداب ہوا کرتے تھے۔ شاہدرہ، ٹھوکر نیاز بیگ، رائے ونڈ اور جلو اور برکی کے ارد گرد کھیت لہلہاتے تھے، درختوں کی چھاؤں تھی، اور ہوا میں بارش کے بعد مٹی کی خوشبو بستی تھی۔ راوی کا پانی اگرچہ کم تھا، مگر شہر کے لیے زندگی کا پیغام لاتا تھا۔ ان دنوں جب کسان فصل کٹنے کے بعد بھوسہ جلاتے بھی تھے تو شہر کی فضا پھر بھی صاف رہتی تھی۔ دھواں ہوا میں تحلیل ہو جاتا تھا، کیونکہ فضا میں سبزہ اور درخت اس کا بوجھ جذب کر لیتے تھے۔


پھر کیا بدلا؟ بدلاو? آیا بے لگام شہری توسیع اور غیر ذمہ دارانہ منصوبہ بندی کے ساتھ۔ پچھلے دو عشروں میں لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھی اور اب ایک کروڑ چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جو شہر کبھی کوٹ لکھپت اور مغلپورہ پر ختم ہو جاتا تھا، وہ اب بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس فیز ٨ اور اس سے بھی آگے تک پھیل چکا ہے۔ زرعی زمینیں رہائشی اسکیموں میں تبدیل ہو گئیں۔ ہر نئی اسکیم کے ساتھ سڑکیں، گاڑیاں اور پلازے تو بڑھ گئے مگر درخت، کھیت اور کھلی جگہیں کم ہوتی گئیں۔ منافع کے لالچ میں منصوبہ سازوں نے ماحولیاتی توازن کا خیال نہیں رکھا۔ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا کوئی مؤثر نظام نہ بن سکا، صنعتوں کو بغیر کسی اخراجی کنٹرول کے چلنے کی اجازت دی گئی، اور شہر کے ”سبز پھیپھڑوں” کو آہستہ آہستہ بند کر دیا گیا۔


ہمارے ترقی کے مظاہر جیسے میٹرو بس یا اورنج لائن ٹرین عام شہری کی نقل و حمل کے لیے سہولت تو ہیں، مگر ان کی قیمت ماحول نے ادا کی۔ کنکریٹ کے بڑے ڈھانچے تو تعمیر ہوئے مگر ماحولیاتی نقصان کے ازالے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ سڑکوں کی توسیع کے لیے درخت کاٹے گئے مگر دوبارہ لگائے نہیں گئے۔ ماہرین کے مطابق راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ، اگرچہ بلند نظر منصوبہ ہے، مگر اس نے لاہور کے قدرتی ماحولیاتی توازن کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ پانی کے قدرتی راستے سکڑنے سے ہوا کی گردش متاثر ہوئی اور سموگ میں اضافہ ہوا۔


آج لاہور کے لوگ — خصوصاً بچے اور بزرگ — اس بگاڑ کی قیمت چکا رہے ہیں۔ سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، برونکائٹس اور الرجی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ میو، سروسز اور جناح اسپتالوں کے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ سردیوں میں فضائی آلودگی سے متعلق مریضوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ طلبہ ”سموگ ڈیز” پر گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ وہ شامیں جو کبھی فوڈ اسٹریٹ، گلشنِ اقبال یا ریس کورس پارک میں ہنسی خوشی گزرتی تھیں، اب گھروں کے اندر بند کھڑکیوں کے پیچھے گزر رہی ہیں تاکہ آلودہ فضا سے بچا جا سکے۔
یہ درست ہے کہ ترقی اور جدیدیت بڑھتی آبادی کے لیے ضروری ہیں، مگر بے منصوبہ ترقی ایک سست زہر ہے۔ دنیا میں لاہور سے کہیں پرانے اور زیادہ آباد شہر جیسے لندن، پیرس اور بیجنگ کبھی شدید آلودگی کا شکار تھے مگر انہوں نے نظم و ضبط اور بصیرت سے حالات بدل دیے۔ مثال کے طور پر بیجنگ نے صنعتوں پر سخت قوانین لاگو کیے، فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا اور برقی ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا۔ نتیجتاً وہاں کی فضا میں نمایاں بہتری آئی۔ سنگاپور اور سیول نے بھی شہری منصوبہ بندی میں فطری سبزے کو شامل کیا، تاکہ ہر نئی تعمیر کے ساتھ پارک اور سبز علاقے بھی قائم ہوں۔


لاہور بھی ایسا کر سکتا ہے۔ شہر کو ایک جامع ماحولیاتی حکمتِ عملی درکار ہے — جو عملی، مستقل اور قابلِ عمل ہو۔ سال میں ایک بار درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی، اسے شہری عادت بنانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ برقی اور ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دے، صنعتی اخراج کے لیے سخت قوانین بنائے، اور شہر کے قریب کھیتوں میں بھوسہ جلانے پر مکمل پابندی لگائے۔ صنعتی علاقے رہائشی آبادیوں سے دور منتقل کیے جائیں۔ راوی اور دیگر آبی گزرگاہوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ فطری توازن بحال ہو۔ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا — کوڑا کم پیدا کریں، توانائی بچائیں، اور صفائی کو شعار بنائیں۔


لاہور محض ایک جگہ نہیں، تاریخ کا ایک زندہ باب ہے۔ اس نے مغلوں کی شان، صوفیوں کی دانش اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں دیکھی ہیں۔ یہ پاکستان کا ثقافتی دل ہے جہاں شاعری، فن، اور مہمان نوازی ایک ہی روح میں ڈھل جاتے ہیں۔ مگر آج وہ روح سانس لینے کو ترس رہی ہے۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ لاہور زندہ دلوں کا شہر بنا رہے تو سب سے پہلے اسے صاف ہوا اور کھلے آسمانوں کا شہر بنانا ہوگا۔ لاہور کے باغوں کی خوشبو، گلیوں کی لے اور لوگوں کی مسکراہٹیں دھوئیں کے پردوں میں گم نہیں ہونی چاہیئں۔ عمل کا وقت آ چکا ہے — نہ کل، نہ اگلے سال، بلکہ ابھی — تاکہ آنے والی نسل فخر سے کہہ سکے:
”ہاں، ہم نے لاہور دیکھا ہے، اور یہ اب بھی وہی شہر ہے جو کبھی مرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔”

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرغزہ امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کیلئے عرب اور مسلم ممالک کا اجلاس پیر کو ہوگا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • لاہور؛ شوہر کے قتل کا معمہ حل، بیوی اور اسکا آشنا ملوث نکلے
  • لاہور؛ شہری کے قتل کا معمہ حل، بیوی اور اسکا آشنا ملوث نکلے،پولیس
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • ایشوریہ رائے 52 سال کی ہوگئیں؛ جواں نظر آنے کا راز بھی بتادیا
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • امریکا اپنے نئے نیوکلئیر دھماکے کہاں کرے گا؟
  • سہیل آفریدی اپنے بیانات میں ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں، خواجہ آصف
  • لاہور میں مقیم مہمان ہندوؤں کے لیے دیوالی کی تقریب کا انعقاد
  • ’منت میں میرے پاس بھی کمرہ نہیں، کرائے پر رہ رہا ہوں‘، شاہ رخ خان