حکمت عملی کو تبدیل ہونا چاہیے!
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
کامیاب حکومتیں اور ریاستیں‘ اپنے دوستوں کی تعداد میں ہر دم اضافہ کرتی ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں امن‘ یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں۔ تمام تنازعات جو ان کے ملک کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں، ان سے دور رہتی ہیں۔ ان خوش بخت حکومتوں کی صرف ایک شعوری کوشش بلکہ جدوجہد ہوتی ہے کہ شہری‘ محفوظ ‘ خوشحال اور ترقی کی راہ پر گامزن رہیں۔ یہ عام سی باتیں ہیں جو ہر خاص و عام کو سمجھ آتی ہیں ۔ مگر معاملہ بالکل سادہ نہیں ہے۔ جس طرح کی ریاستوں اور ان کے حکمرانوں کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہ محدود ہیں۔
مغرب اور امریکا کے سوا سمجھدار اور دانا ریاستوں کا شدید فقدان ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا میں سطحی سوچ پر قائم حکومتوں کی تعداد اب بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ ایشیاء‘ مشرق وسطی‘ روس اور افریقہ اس منفی طرز حکومت کی کامیاب مگر بدقسمت مثالیں ہیں۔ شومئی قسمت سے ہمارا ملک‘ اس منفی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جہاں دنیا کی ہرمصیبت مونہہ پھاڑ کر وسائل اور زندگیوں کو نگل رہی ہے۔ موجودہ یا کوئی بھی سابقہ حکومت فلاحی نہیں کہی جا سکتی۔ملک کے پیچیدہ اور غیر پیچیدہ ‘ دونوں طرح کے مسائل ایک مخصوص طرز فکر کی بدولت حل نہیں کیے گئے۔
المیہ یہ ہے کہ جس حکمران نے لوگوں کے لیے کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی‘ اسے دیوار میں چنوا دیا گیا۔ غدار ‘ کرپٹ‘ ملک دشمن‘ پیدا گیر اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا گیا۔ عوامی مسائل نہ پہلے کبھی اہم تھے اور نہ ہی آج ان کی اہمیت ہے۔ آپ کسی قسم کا حادثہ دیکھنا چاہیں تو وہ ہمارے ملک میں مونہہ سے آگ نکالتا ہوا نظر آئے گا۔ ساتھ ساتھ‘ ایک اور نکتہ بھی موجود ہے۔ خوفناک ترین سطح کی مصیبتوں کو حل کرنے کی کوئی بھی حکمت عملی دکھائی نہیں دے گی۔ خلوص نیت کا فقدان اپنی جگہ‘ مگر اب تو استطاعت پر بھی سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔
حالیہ چند دنوں میں ہونے والے واقعات کو اگر غیر جذباتی طریقے سے پرکھیں ‘ تو دل دہل جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مندوب کے جواب میں پاکستانی مندوب کی تقریر کو حد درجہ بہادرانہ جہت اور فتح کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ہاں ! آپ دونوں تقاریر کو سنیں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے سفیر نے الفاظ کے چناؤ اور ادائیگی میں حددرجہ محنت کی ہے۔ مگر صاحبان! یہ صرف تقاریر ہیں، محض الفاظ ہیں‘ اصل بات تو یہی ہے کہ اسرائیل اور امریکا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
مسلم قیادت ‘ اندر سے گھبرائی ہوئی ہے ، البتہ اسرائیل کی مذمت بھرپور طریقے سے کی گئی ہے اور آج بھی جاری ہے۔ سعودی عرب اور اردن بھی اس فضائی دہشت گردی کی طاقتور الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیلی طیارے کن ممالک کی فضائی حدود سے گذر کر قطر پر حملہ آور ہوئے ، سمجھداروں کے لیے اشارہ کافی ہے ۔ویسے اسرائیلی وزیراعظم بھی مسلم ممالک کے حکمرانوں کے بیانات پر قہقہے ضرور لگاتا ہو گا۔
پاکستان لفاظی مذمت کرنے میں بازی لے گیا اور اسرائیل کے سب سے زیادہ خلاف نظر آتا ہے۔ ہماری ملکی حکمت عملی پر حیرانی ہوتی ہے کہ ہم سے اپنا ملک تو سنبھالا نہیں جاتا‘ مگر ہم چھلانگیں لگا لگا کر‘ اپنے سے طاقتور ممالک کو اپنا ’’ازلی دشمن‘‘ بڑی کامیابی سے بنا رہے ہیں۔ زمینی حقائق کا ادراک کیے بغیر ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہونا چاہتے ہیں‘ جس سے ہمارے پہلے سے گمبھیر مسائل مزید گمبھیر ہو سکتے ہیں۔
دراصل سات دہائیوں سے ہمارے حکمرانوں نے‘ عوام کے ذہنوں میں مختلف طرز کے فوبیاز پیدا کیے ہیں حالانکہ پاکستان جمہوری ملک کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ مگر اس کو مسلسل حالت جنگ میں رکھنے کا کام‘ حد درجہ عیاری سے کیا گیا۔ جذباتیت اور عقیدہ پرستی کا ملغوبہ اس طرح بنایا گیا کہ پوری قوم کے مسائل نظر انداز کر کے‘ نسلوں تک کی مخصوص ذہن سازی کردی گئی۔
کوئی ہمیں یہ بتانے کے لیے تیارنہیں کہ ایوب دور میں‘ آپریشن جبرالٹر‘ کیوں شروع کیاگیا؟ اس وقت کے وزیر خارجہ نے کس بنیاد پر ایوب کو یہ اعتماد فروخت کیا کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد کبھی عبور نہیں کرے گا۔ یوں 1965کی جنگ کا آغاز ہوا۔ انڈیا نے ہمارے ملک پر یلغار کر دی تھی۔ جو ایک کامیاب دفاع کے ذریعے‘ برابری کی سطح پر ختم ہوئی تھی۔ 1965کی جنگ کا اصل نقصان یہ تھا کہ ہماری حد درجہ کامیاب صنعتی ترقی کا پہیہ رک گیا۔ مگر کیا یہ سچائی ہمیں کسی سطح پر بتائی جاتی ہے؟ ہرگز نہیں‘ اگر آپ کو اس نکتہ پر اتفاق نہیں‘ تو بین الاقوامی سطح کے غیر جانبدار لکھاریوں اور اخبارات کو پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ ہو سکتا ہے‘ آپ قائل ہو جائیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کا دانشمندانہ طریقہ یہ تھا کہ آزاد کشمیر کو ہم سوئٹزرلینڈ کی طرز پر ترقی کرواتے۔ اسے پوری دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بنا دیتے۔ یقین فرمائیے کہ مقبوضہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے کسی جنگ کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے آگے کیا لکھوں ‘ بلکہ کیوں لکھوں۔ 70کی جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کیوں چھپائی گئی ؟ کارگل میں ہمیں کتنا بھاری نقصان ہوا۔ یہ سب کچھ ‘ غیر مناسب طرز سے چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی جو شاید آج تک جاری ہے۔
افغانستان کے ساتھ بھی ہمارے معاملات دشمنی تک محدود رہے ہیں بلکہ اب تو بات بہت بڑھ چکی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ مگر دہشت گردی کم ہونے کو آ ہی نہیں رہی۔ بلکہ چندہفتوں میں تو اس میں حد درجہ بڑھاوا آ چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہمسایہ ممالک ہمارے دو صوبوں میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ مگر پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ اس خوفناک صورت حال سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے؟ پاکستانی سفارت کاروں سے بات کریں تو نجی محفلوں میں ان کا جواب حکومتی بیانیے سے مختلف بلکہ متضاد ہوتا ہے۔
شاید آج آپ کو یقین نہ آئے کہ ہندوستان میں جنگی پریڈ پر ابتدائی دور میں مہمان خصوصی پاکستان کا گورنر جنرل ہوا کرتا تھا۔ قائداعظم کا یہ جملہ کہ ان کے مالا بار ہلز پر گھر کو صاف ستھرا رکھا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی چھٹیاں ہندوستان میں منا سکیں۔ ان الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ میری رائے صرف ایک ہے اور یہ تاریخ کے تناظر میں گندھی ہوئی ہے۔
ہندوستان سے بھرپور امن اور کامیاب تجارت کے بغیر‘ اس عذاب کے گرداب کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ مگر جو سیاست دان‘ بھارت سے تعلقات کی بہتری کا ڈول ڈالے گا، اسے فوری طور پر غدار بنا دیا جائے گا۔ ہمارے جس بھی حکمران نے بھارت سے معاملات بہتر کرنے کی کوشش کی اسے حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔
نواز شریف کی مثال دیکھ لیجیے۔ پرویز مشرف کے وزیر خارجہ نے کتاب لکھی ہے۔ اس میں برملا درج ہے کہ دونوں حکومتیں کشمیر کا تنازعہ تقریباً حل کر چکی تھیں۔ مگر پھر بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت سے حکومتیں بدل دی گئیں۔ دلیل پر بات کیجیے ۔ دشمنی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ دنیا کی بہترین عسکری طاقت بھی پیہم جنگ نہیں لڑ سکتی۔ War Fatigueایک جامع سچ ہے۔ مگر یہاں کون ہمت کرے گا کہ ایسے فیصلے کر سکے‘ جن سے ملک میں امن قائم ہو پائے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں ‘بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ اس کی اقتصادی طاقت ہم سے بہت زیادہ ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو نہیں چاہیے کہ اس ملک سے بامعنی مذاکرات کریں۔ تجارت کھولنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ شاید اسی حکمت عملی سے ملک کے اندر دہشت گردی رک جائے؟ ہمسایوں سے صلح کرنے کے اقدامات کریں۔ شاید ہمارے حالات بہتر ہو جائیں! مگر یہ بات کوئی سنے گا نہیں اور مانے گا بھی نہیں!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی حکمت عملی رہے ہیں ملک کے
پڑھیں:
ہمارے ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر سے کہیں زیادہ بہترہے ، حافظ نعیم الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-01-24
کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ہمارے 9ٹاؤنز چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر کی کارکردگی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ تعلیم،صحت، عوامی خدمت اور تعمیر وترقی میں مقابلہ ہولیکن پیپلزپارٹی کا ان کاموں سے کوئی تعلق نہیں، کراچی کے اداروں اور وسائل پر قابض صوبائی حکومت نے کراچی کو صرف کھانے کمانے اور مال بنانے کا ذریعہ بنارکھا ہے، وسائل تو لیتی ہے لیکن مسائل حل نہیں کرتی،اختیارات و وسائل کی کمی کے باوجود ہمارے تمام ٹاؤنز میں تعمیر وترقی کا سفر شروع ہوچکا ہے، ہمارا عزم ہے کہ اختیارات سے بڑھ کر عوامی خدمت کا عمل جاری رکھیں گے،پیپلزپارٹی رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے ٹاؤن،یوسیز کو فنڈز دے، فارم 47والی حکومت اور قبضہ میئر شپ کو تسلیم نہیں کرتے، کراچی کے ترقیاتی منصوبے تو شروع ہوجاتے ہیں لیکن مکمل ہونے کا نام نہیں لیتے، ریڈ لائن کے نام پر پوری یونیورسٹی روڈ کو کھود کر رکھ دیا ہے، کریم آباد انڈر پاس اور گرین لائن کا بقیہ حصہ مکمل نہیں کیا جارہا،انفرااسٹرکچر تباہ حال، سڑکیں ٹوٹی پھوٹی لیکن ای چالان کے نام پر اہل کراچی کے جیبوں پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے، کراچی کو لوٹنے و تباہ و برباد کرنے والا وڈیرہ شاہی مائنڈ سیٹ اب مزید نہیں چلے گا،سسٹم کو اب خیرآباد کہنے کا وقت آگیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ٹی ایم سی نارتھ ناظم آباد کے تحت پارک بارہ دری بلاک Aمیں نارتھ ناظم آباد کے عوام کے لیے تکمیل شدہ اور آئندہ کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے منعقدہ تقریب و پریس بریفنگ اور ٹی ایم سی نیو کراچی کے تحت پاور ہاؤس چورنگی سے نیو کراچی نمبر 3تک نئی تعمیر شدہ سڑک کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔حافظ نعیم الرحمن نے نارتھ ناظم آباد ٹاؤن کے آئندہ کے منصوبوں کے حوالے سے تختی کی نقاب کشائی بھی کی اور نیو کراچی میں معروف نعت گو شاعر اعجاز رحمانی کے نام سے منسوب سڑکوں کا افتتاح کیا۔ تقریب سے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان،امیر ضلع شمالی طارق مجتبیٰ، ٹاؤن چیئرمین نیو کراچی ٹاؤن محمد یوسف ودیگر نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ، سیکرٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، سینئر ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات صہیب احمد ودیگر بھی موجود تھے۔نارتھ ناظم آباد ٹاؤن کے چیئرمین عاطف علی خان نے صحافیوں کو پریس بریفنگ دی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ضلع وسطی کے امیرسید وجیہ حسن، وائس چیئرمین ضیا جامعی،سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری سمیت ذمے داران اور علاقہ مکینوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔حافظ نعیم الرحمن نے ٹاؤن چیئرمین نارتھ ناظم آباد عاطف علی خان اور ٹاؤن چیئرمین نیو کراچی محمد یوسف اور ان کی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشکل حالات میں بھی انہوں نے منصوبہ بندی اور محنت سے اپنے اپنے ٹاؤنز میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا۔ اگلے چند مہینوں میں تمام گلیوں اور بلاکس میں ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار کیا مگر سندھ حکومت نے اختیارات کی منتقلی میں رکاوٹیں ڈال کر جمہوریت کے اصولوں کی نفی کی، پیپلز پارٹی نے شہر کے تمام بلدیاتی اداروں کو مفلوج کر دیا ہے، یہاں تک کہ کچرا اٹھانے سے لے کر سڑکوں کی تعمیر تک کے اختیارات بھی ٹاؤنز کو نہیں دیے گئے، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن جاری ہے جبکہ عوامی نمائندوں کو اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے 9 ٹاؤنز میں اب ترقی کا نیا دور شروع ہو گیا ہے۔ نارتھ ناظم آباد میں برسوں پرانے نکاسی آب کے مسائل حل کیے گئے ہیں، سڑکوں اور گلیوں کی کارپٹنگ،پارکس، اسکولز اور ڈسپنسریز کی بہتری بھی ترجیحی بنیادوں پر کی جا رہی ہے۔ نارتھ ناظم آباد کے سرکاری اسکولوں کو ماڈل اسکولوں میں تبدیل کیا جائے گا تاکہ متمول طبقہ بھی ان میں اپنے بچوں کو فخر سے داخل کروائے۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ کراچی کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، مگر سندھ حکومت صرف چند سو بسیں لا کر عوام کو دھوکا دے رہی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث پورا شہر چنگ چی رکشوں اور موٹر سائیکل پر چل رہا ہے، خواتین،بزرگ اور طلبہ و طالبات روزانہ شدید اذیت کا شکار ہوتے ہیں،ای چالان کے نام پر شہریوں سے ہزاروں روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی خدمت و دیانت، تعمیر و ترقی اور عوامی حقوق کی جدوجہد کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ ہم حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’بنو قابل‘‘ پروگرام نوجوانوں کے لیے ایک انقلابی منصوبہ ہے، جو لاکھوں نوجوانوں کو باصلاحیت اور خود کفیل بنانے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے۔ یہ پروگرام لسانی و علاقائی تفریق کے بغیر ملک بھر کے نوجوانوں کو ایک لڑی میں پرو رہا ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے نیو کراچی میں نئی سڑک کی تعمیر و افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بے شمار ایسی چیزیں جو ٹاؤن کے ماتحت نہیں ہے، اس کے باوجود ہمارے ٹاؤن اپنے بجٹ سے کام کروارہے ہیں۔وہ کام جس کی براہ راست ذمے داری واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی ہے، وہ کام بھی ٹاؤن کی ٹیم کررہی ہے۔ جماعت اسلامی اس وقت شہر کراچی میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں دیں۔ پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کی مدد سے جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی نشستیں چھینی۔ ہمارے 4ٹاؤنز اور میئر شپ میں ڈاکا ڈالا،عوام کو آئندہ ہمیں ووٹ بھی بڑے پیمانے پر ڈالنے ہوں گے اور ووٹ کا تحفظ بھی کرنا ہوگا۔اسی طرح مینڈیٹ کا تحفظ اور شہر میں تعمیر و ترقی ہوسکتی ہے۔جماعت اسلامی صرف دعوے نہیں کرتی بلکہ موقع ملتا ہے تو کام کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کی پوری ٹیم نے ثابت کیا ہے کہ ہم اختیارات سے بڑھ کر کام کریں گے اور بقیہ اختیارات بھی حاصل کریں گے۔ظالمانہ نظام کو بدلنے کی جدوجہد کو تیز کرنی ہے۔ ظلم کے اس نظام میں چند لوگوں کی اجارہ داری ہے۔انگریز کے بنائے ہوئے نظام کو بدلنا ہوگا۔21، 22اور 23 نومبر کو نظام کی تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کے لاہور اجتماع عام میں شرکت کریں۔ محمد یوسف نے کہاکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کو نیو کراچی ٹاؤن آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں۔آج نیو کراچی ٹاؤن میں تعمیر و ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔آج تک صوبائی حکومت نے ترقیاتی فنڈ کی مد میں ایک ٹکا بھی نہیں دیا۔ ہم قابض مئیر مرتضیٰ وہاب کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور نیو کراچی ٹاؤن میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا کے ایم سی سے مقابلہ کرلیں۔ قابض مئیر واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے چیئرمین ہیں، ان کا کام ہے کہ وہ شہریوں کو بلا تفریق پانی فراہم کریں۔ آج سے 2 سال قبل ہر طرف تباہی و نا اہلی نظر آ رہی تھی۔ ہم نے اہلیان نیو کراچی کو واٹر پارک کا تحفہ 8 ہزار سے زائد اسٹریٹ لائٹس لگائیں۔ 10 لاکھ اسکوائر فٹ پیور بلاکس لگائے اور گلیوں کو پکا کیا ہے۔ نیو کراچی ٹاؤن کو سوئی سدرن کی طرف سے دی گئی رقم پر سب سے زیادہ پریشانی قابض مئیر مرتضیٰ وہاب کو ہوئی۔نیو کراچی ٹاؤن کے سرکاری اسکولز میں بچوں کے لیے ڈیکس موجود نہیں تھیں۔ ہم 30 کمروں پر مشتمل ماڈل اسکول بنانے جارہے ہیں اورمزید 2 اسکولوں کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ اسکولوں کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لیپ ٹاپ کی تقسیم اورکاپیاں،کتابیں وبیگز بھی مفت فراہم کیے گئے،ہمارے ٹاؤن کے ایسے ملازمین و افسران جو اپنے واجبات کے لیے پریشان تھے، انہیں اب تک 10 کروڑ روپے کے واجبات ادا کیے جاچکے ہیں۔ گزشتہ 20 سال سے جن گھرانوں کو لائن میں پانی نہیں ملا کرتا تھا انہیں پانی پہنچایا۔ہم نے 9 کروڑ روپے سیوریج کے مسائل پر خرچ کیے ہیں جبکہ سیوریج کا کام واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا کام ہماری ذمے داری نہیں ہے۔ہمارا عزم ہے کہ آئندہ دنوں میں 600 گلیوں پر پیور بلاکس لگائے جائیں گے۔ 600 گلیوں میں سے 100 سے زائد گلیاں مکمل ہوچکی ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن بارہ دری بلاک Aمیں ٹی ایم سی نارتھ ناظم آباد کے تحت عوام کے لیے تکمیل شدہ اور آئندہ کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کررہے ہیں