کیس چلنے سے روکنے کی کوشش کی گئی، راستے سے ہی کیس کی فائلیں چوری ہوگئیں، جج سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
سپریم کورٹ کے جج جسٹس نعیم اختر افغان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت عظمیٰ میں کیس چلنے سے روکنے کیلئے کوشش کی گئی، راستے سے ہی کیس کی فائلیں چوری ہو گئیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نجی کمپنی کے حصص کی خرید و فروخت اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے الیکشن سے متعلق مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی شامل ہیں۔
احسن بھون نے کہا کہ سیکڑوں صفحات پر مشتمل ایک متفرق درخواست دائر کی گئی ہے، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ وہی کیس ہے جس میں کمپنی کے ڈائریکٹر کو امریکا میں حراسانی ثابت ہونے پر نکالا گیا، اس نوعیت کا ایک کیس تو میرے بینچ میں آچکا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ میں تو حراسانی ثابت ہونے کے بعد گوروں کیخلاف کارروائی کا کیس چلایا گیا، عدالتی کارروائی میں تھائی لینڈ اور امریکہ کے گوروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا امریکا اور تھائی لینڈ میں مقیم گوروں کیخلاف کارروائی چلانے کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے والے یہ وہی صاحب ہیں، پتا نہیں ہم پاکستان کا کیا امیج بنا رہے ہیں، وکلا نے جواب دیا کہ جی یہ وہی صاحب ہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے پوچھا کی کیا ضیاء الدین چشتی اس وقت کمرہ عدالت میں موجود ہیں، ان کا دیدار تو کروائیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا تمام مقدمات کو یکجا کر لیتے ہیں، تمام مقدمات یکجا ہونے سے نیک نیتی اور بدنیتی کو سمجھنے میں مدد ملے گی، سپریم کورٹ میں بھی کیس چلنے سے روکنے کیلئے کوشش کی گئی، راستے سے ہی کیس کی فائلیں چوری ہو گئیں۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ چوری نہیں بلکہ ڈکیتی ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کمپنی کے شیئرز کی مکمل تفصیل تحریری صورت میں جمع کرائیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت تین ہفتوں تک کیلئے ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس نعیم اختر افغان نے سپریم کورٹ نے کہا کہ کورٹ میں کی گئی کیس کی
پڑھیں:
انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔