قتل کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے راضی نامے کی تصدیق سے سپریم کورٹ کا انکار
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمے میں مقتول کے ورثا اور ملزم کے درمیان ویڈیو لنک کے ذریعے راضی نامے کی تصدیق سے انکار کر دیا۔
آصف علی بنام ریاست کیس کی سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ
سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ویڈیو لنک کے ذریعے یہ تصدیق نہیں ہو سکتی کہ مقتول کے ورثا نے راضی نامہ اپنی مرضی سے کیا یا دباؤ میں آکر۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ جب تک مقتول کے ورثا ذاتی حیثیت میں سیشن کورٹ کے روبرو پیش ہوکر راضی نامے کی تصدیق نہ کریں، راضی نامہ مکمل نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ میں 2025 کے نئے رولز باقاعدہ نافذ
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ویڈیو لنک کے ذریعے راضی نامے کی تصدیق کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پورے عدالتی نظام پر سمجھوتہ ہو جائے گا۔
عدالت نے آصف علی بنام ریاست کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس حسن اظہر رضوی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب جسٹس نعیم اختر افغان راضی نامے سپریم کورٹ سمجھوتہ سیشن کورٹ عدالتی نظام قتل مقتول کے ورثا ویڈیو لنک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس حسن اظہر رضوی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ سمجھوتہ سیشن کورٹ عدالتی نظام قتل مقتول کے ورثا ویڈیو لنک ویڈیو لنک کے ذریعے راضی نامے کی تصدیق مقتول کے ورثا سپریم کورٹ
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔