آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل بنیادی حق ہے، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ فیئر ٹرائل کا حق آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت ایک بنیادی حق بن گیا ہے۔ مناسب قانونی عمل ایک لازمی شرط ہے جس کا ہر سطح پر احترام کیا جانا چاہیے۔
فیئر ٹرائل کا حق اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کسی کو اس وقت تک سزا نہیں دی جانی چاہیے جب تک کہ اسے جواب دینے اور اپنا مقدمہ پیش کرنے کا مناسب اور منصفانہ موقع نہ دیا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے نجی افراد اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے درمیان جائیداد کے تنازع سے متعلق کیس کے تحریری فیصلے میں کہا کہ قانون کے تحفظ سے مستفید ہونااور قانون کے مطابق سلوک کیا جانا ہر شہری کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے۔
آرٹیکل 4 کا مقصد قانون کے سامنے برابری یا قانون کے یکساں تحفظ کے اصول کو نافذ اور مربوط کرنا ہے، مناسب قانونی عمل کے بغیر کسی بھی شخص کی زندگی اور آزادی کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔
قدرتی انصاف کے اصولوں کا تقاضا ہے کہ ملزم کو سزا دینے سے پہلے اپنا موقف پیش کرنے کیلئے منصفانہ موقع دیا جائے۔ ہمارے آئین میں فیئر ٹرائل کا حق آرٹیکل 10 ایکے تحت ایک بنیادی حق بن گیا ہے۔
تمام عدالتی، نیم عدالتی اور انتظامی حکام کے لیے یہ ایک ناگزیر ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی حکمت اور دانش کے مطابق انصاف کو یقینی بنائیں۔
درخواست گزار یامین اینڈ کمپنی کو1992 میں کراچی میں 16481 سکوائر فٹ اراضی 99 سالہ لیز پر دی گئی تاہم2020 میں مدعا علیہ نمبر6 نے اس الزام کے تحت منسوخی کا نوٹس جاری کردیا کہ وہ لیز جعلی تھی، سندھ ہائیکورٹ نے انکی درخواست مسترد کردی تھی تاہم سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم کرتے ہوئے معاملہ چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کو بھیج دیا کہ وہ فریقین کو سن کر تین ماہ میں فیصلہ کریں۔
دریں اثنا ہ جسٹس محمد علی مظہر نے بھرتیوں کے ایک اور کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹ تقرری یا بھرتی کے عمل میں رٹ درخواست کے دائرہ اختیار میں شواہد ریکارڈ کرسکتی ہے نہ ہی تنازع کا گہرائی سے جائزہ لے سکتی ہے۔
تین رکنی بنچ نے 174اپیلوں پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فریقین نے سندھ ہائیکورٹ سکھر بنچ میں درخواستیں دائر کیں کہ انھوں نے محکمہ تعلیم میںبی پی ایس ایک سے بی پی ایس چار تک نان ٹیکنیکل آسامیوں کیلئے اپلائی کیا تھا اور ضلعی بھرتی کمیٹی کی سفارش پر آفر لیٹر بھی جاری ہوچکے تھے ۔
عدالت نے اپیلیں نمٹاتے ہوئے ہدایت کی کہ ہائیکورٹ میرٹ پر کیس پر ازسر نو سنے اور فریقین کو مکمل دفاع کا موقع فراہم کیا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فیئر ٹرائل قانون کے ا رٹیکل کے تحت
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے فیصلے میں وقف ترمیمی ایکٹ کو معطل کرنے سے انکار
بنچ نے کہا کہ اس شق پر روک لگا دی گئی ہے جس نے کلکٹر کو یہ تعین کرنے کا حق دیا ہے کہ وقف قرار دی گئی جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں اور اسکے مطابق کوئی حکم جاری کرسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج پورے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو معطل کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن قانون کی کچھ دفعات پر روک لگانے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی سربراہی میں بنچ نے یہ حکم سنایا۔ بنچ کی جانب سے فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ نے محسوس کیا کہ قانون کی تمام شقوں کو روکنے کا کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔
بنچ نے کہا کہ اس نے اس شق پر روک لگا دی ہے جس نے کلکٹر کو یہ تعین کرنے کا حق دیا ہے کہ وقف قرار دی گئی جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں اور اس کے مطابق کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم نے پایا ہے کہ کلکٹر کو جائیداد کے حقوق کا تعین کرنے کی اجازت دینا اختیارات کی علاحدگی کے اصول کے خلاف ہے۔ ایگزیکٹیو کو شہریوں کے حقوق کا تعین کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم نے ہدایت کی ہے کہ جب تک نامزد افسر کی طرف سے نتائج پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا جاتا، جائیداد کے قبضے یا حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بنچ نے کہا کہ کسی شخص کو وقف کے طور پر اپنی جائیداد وقف کرنے سے پہلے پانچ سال تک اسلام کی پیروی کرنے کی شرط پر اس وقت تک روک لگا دی گئی ہے جب تک ریاستی حکومت یہ فیصلہ کرنے کے لئے قوانین نہیں بناتی کہ آیا کوئی شخص کم از کم پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہے یا نہیں۔ بنچ نے کہا کہ اس انتظام کے بغیر یہ انتظام طاقت کے من مانی استعمال کو فروغ دے گا۔