لندن، مضر گوشت فروخت کرنے پر 2 افراد کو قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
لندن میں 2 افراد کو انسانوں کے لئے مضر گوشت فروخت کرنے کے الزام میں قید کی سزا سنا دی گئی۔ ان افراد نے ایسا گوشت جو صرف پالتو جانوروں کے کھانے کے لئے استعمال ہونا تھا، عام خریداروں کو فروخت کرنے کی سازش کی۔
معاملہ اس وقت سامنے آیا جب لندن کے علاقے والورتھ روڈ کے قریبی رہائشیوں نے بدبو دار سڑے ہوئے گوشت کی شکایت کی۔ ان شکایات پر ٹریڈنگ اسٹینڈرڈز کے افسران نے 2020 میں تحقیقات شروع کیں اور انکشاف ہوا کہ ایک انتہائی گندی اور غیر قانونی دکان میں آلودہ گوشت کو صاف کرکے انسانی استعمال کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں مضر صحت گوشت کی بڑی کھیپ پکڑی گئی
عدالت کو بتایا گیا کہ گوشت میں پورے مرغ، بھیڑ کے خصیے اور بیف برگر شامل تھے، جنہیں یا تو تلف کیا جانا چاہیے تھا یا پالتو جانوروں کے کھانے کے طور پر استعمال ہونا تھا۔ تاہم ملزمان نے اسے انسانی خوراک کے طور پر بیچنے کی کوشش کی۔
رپورٹس کے مطابق 63 سالہ انتھونی فیئر نے 40 سالہ آذر ارشاد کو یہ گوشت سپلائی کیا۔ ارشاد ساؤتھ لندن میں ایک کٹنگ روم چلا رہا تھا جہاں یہ گوشت تیار کر کے بیچا جاتا تھا۔ ارشاد نے اعتراف کیا کہ وہ 16 بار سمرسیٹ کے علاقے بریج واٹر میں فیئر کے کاروبار سے یہ گوشت لایا۔
چھاپے کے دوران حکام کو 1.
یہ بھی پڑھیں: ضلعی انتظامیہ پشاور کی کارروائی، 2000 کلو مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
لندن کراؤن کورٹ میں جج نوئل لوکس نے فیصلے میں کہا کہ انتھونی فیئر کا جرم صرف اور صرف لالچ کی بنیاد پر تھا۔ جج کے مطابق فیئر ایک امیر اور کامیاب بزنس مین تھا لیکن اس نے خالص لالچ اور غرور کی وجہ سے یہ جرم کیا۔ اسے ساڑھے3 سال قید اور6 سال کے لیے کمپنی ڈائریکٹر بننے پر پابندی کی سزا سنائی گئی۔
آذر ارشاد کو 35 ماہ قید کی سزا دی گئی اور کھانے کا کاروبار کرنے یا کسی فوڈ بزنس سے تعلق رکھنے پر پابندی عائد کی گئی۔
فیئر کمپنی کے مینیجر 64 سالہ مارک ہوپر نے بھی اپنا جرم تسلیم کیا۔ اسے 2 سال تک بزنس سے دور رہنے، 200 گھنٹے کی بلا معاوضہ خدمت اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ جبکہ ایک اور شریک ملزم علی افضل کو 6 ماہ اس بزنس سے دور رہنے کی سزا، 150 گھنٹے کی بلا معاوضہ خدمت اور 5 ہزار پاؤنڈ جرمانہ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’الٹرا پروسیسڈ فوڈز’ صحت کے لیے کتنا تباہ کن ہو سکتا ہے؟
قومی فوڈ کرائم یونٹ کے سربراہ اینڈریو کوئن کے مطابق یہ کیس اس بات کی سنگین مثال ہے کہ جب افراد جان بوجھ کر فوڈ سیفٹی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو صارفین کی صحت کو کتنا بڑا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھیڑ جرمانے سزا عدالت قید لندن لندن کراؤن کورٹ مرغی مضر صحت گوشتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھیڑ عدالت لندن کراؤن کورٹ مضر صحت گوشت یہ گوشت کی سزا کے لیے
پڑھیں:
طوطے پالنے اور فروخت کے لیے رجسٹریشن لازمی، نیا قانونی مسودہ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: محکمہ وائلڈ لائف پنجاب نے طوطے (Parrot) پالنے اور ان کی خرید و فروخت کے حوالے سے نیا قانونی مسودہ تیار کر لیا ہے، جسے منظوری کے لیے پنجاب کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے۔ اس مسودے کا مقصد پرندوں کے غیر قانونی کاروبار کو روکنا اور ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کے ذریعے بہتر تحفظ فراہم کرنا ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق مسودے میں کہا گیاہےکہ اب گھروں میں پالے جانے والے مختلف اقسام کے طوطے رجسٹریشن کے دائرے میں آئیں گے۔ ان میں خاص طور پر الیگزینڈرائن، روز رنگڈ، سلیٹی ہیڈڈ اور پلم ہیڈڈ طوطے شامل ہیں، ان اقسام کو وائلڈ لائف کے دوسرے شیڈول میں شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کی افزائش اور خرید و فروخت کو منظم کیا جا سکے۔
نئے قانون کے تحت ہر طوطے کی رجسٹریشن کے لیے ایک ہزار روپے فیس مقرر کی گئی ہے، اس کے ساتھ ہی طوطے پالنے والوں کے لیے چھوٹے اور بڑے بریڈرز کی کیٹیگری بھی بنائی گئی ہے تاکہ شوقیہ افراد اور تجارتی پیمانے پر بریڈنگ کرنے والوں میں فرق رکھا جا سکے۔
مزید یہ کہ طوطے اب صرف لائسنس یافتہ ڈیلرز کو ہی فروخت کیے جا سکیں گے۔ اس اقدام کا مقصد بلیک مارکیٹ اور غیر قانونی خرید و فروخت کو روکنا ہے۔ وائلڈ لائف حکام کے مطابق طوطوں کی غیر قانونی تجارت نہ صرف ان کی بقا کے لیے خطرہ ہے بلکہ اس سے جنگلی حیات کے توازن پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف کے ایک افسر نے بتایا کہ حکومت اس قانون کے ذریعے لوگوں کو قانونی دائرے میں لا کر ان کے شوق کو بھی محفوظ بنانا چاہتی ہے اور پرندوں کی نسلوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا مقصود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کی منظوری کے بعد رجسٹریشن نہ کروانے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔
خیال رہےکہ یہ اقدام پاکستان میں پہلی بار پرندوں کی باقاعدہ نگرانی اور تحفظ کی سمت میں اہم پیش رفت ہے، توقع ہے کہ اس قانون سے نایاب اقسام کے طوطوں کو بچانے اور ان کی آبادی کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔