سعودی عرب میں گھروں کی خرید و فروخت میں ریکارڈ اضافہ، غیر ملکی سرمایہ کار بھی تیار
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
ریاض: سعودی عرب میں رہائشی جائیداد کی مارکیٹ میں زبردست تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے اور صرف 2025 کی پہلی ششماہی میں گھروں کے لین دین کی مالیت 123.8 ارب ریال تک پہنچ گئی، جس میں سے 77.5 ارب ریال رہائشی گھروں کی خرید و فروخت پر مشتمل ہے۔
مدینہ منورہ میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا جہاں رہائشی ڈیلز کی مالیت 49 فیصد بڑھ کر 3.
رپورٹ کے مطابق یہ تیزی زیادہ تر آسان مارگیج سہولیات، سرکاری اسکیموں اور نئے گھروں کی فراہمی کی وجہ سے ہے۔
2026 میں سعودی عرب نیا قانون نافذ کرے گا جس کے تحت غیر ملکی افراد کو جائیداد خریدنے کی اجازت ہوگی۔
ماہرین کے مطابق اس قانون سے مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھے گی، خاص طور پر بین الاقوامی مسلم سرمایہ کاروں کی جانب سے۔
ریاض میں جائیداد کی قیمتوں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ صرف دوسری سہ ماہی 2025 میں اپارٹمنٹس کی اوسط قیمت 10.6 فیصد بڑھ کر 6,175 ریال فی مربع میٹر تک جا پہنچی۔ جدید سہولیات اور ریاض میٹرو کے آغاز نے بھی مانگ کو بڑھا دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق نیا قانون مارکیٹ میں نئی روح پھونکے گا اور سعودی عرب کو ایک پائیدار اور متنوع جائیداد کی معیشت کی طرف لے جائے گا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بٹ کوائن کی گراوٹ نے 7 سالہ ریکارڈ توڑ دیا، سرمایہ کار خوفزدہ
دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن سات سال کے بعد پہلی بار اکتوبر میں خسارے کا شکار رہی۔ 2018 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اکتوبر، جو عموماً بٹ کوائن کے لیے ”خوش قسمت مہینہ“ سمجھا جاتا تھا، منفی ثابت ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق بٹ کوائن کی قیمت اس ماہ تقریباً 5 فیصد کم ہوئی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں عالمی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال اور سرمایہ کاروں کی جانب سے خطرے سے گریز نے کرپٹو کرنسی مارکیٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔
ڈیجیٹل مارکیٹ کے ریسرچ تجزیہ کار ایڈم مک کارتھی نے ”رائٹرز“ سے گفتگو میں کہا کہ ”اکتوبر کے آغاز میں کرپٹو مارکیٹ سونا اور اسٹاکس کے ساتھ اوپر جا رہی تھی، مگر جیسے ہی غیر یقینی صورتحال بڑھی، لوگ دوبارہ بٹ کوائن کی طرف واپس نہیں آئے۔“
اکتوبر کے وسط میں بٹ کوائن مارکیٹ کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمدات پر 100 فیصد ٹیکس عائد کرنے اور حساس سافٹ ویئر پر ایکسپورٹ پابندیوں کی دھمکی دی۔ اس اعلان کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی کرپٹو منڈیوں کی لیکویڈیشن (فروخت) ہوئی۔
بٹ کوائن کی قیمت 10 اور 11 اکتوبر کے درمیان تیزی سے گر کر 104,782 ڈالر تک آگئی، جبکہ چند دن پہلے ہی اس نے 126,000 ڈالر کی بلند ترین سطح کو چھوا تھا۔
ایڈم مک کارتھی کے مطابق، ”10 اکتوبر کا حادثہ سرمایہ کاروں کو یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ یہ مارکیٹ بہت محدود ہے۔ یہاں بٹ کوائن اور ایتھیریم جیسے بڑے سکے بھی 15 سے 20 منٹ میں 10 فیصد گر سکتے ہیں۔“
اکتوبر کے اختتام پر بھی سرمایہ کار ابہام کا شکار ہیں کیونکہ امریکی فیڈرل ریزرو نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس سال مزید شرحِ سود میں کمی نہیں کرے گا، جب کہ امریکی حکومت کے جزوی شٹ ڈاؤن کے باعث اہم معاشی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
دوسری جانب جے پی مورگن کے سی ای او جیمی ڈائمن نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگلے چھ ماہ سے دو سال کے دوران امریکی اسٹاک مارکیٹ میں ایک بڑی گراوٹ یا کرکشن آسکتی ہے۔
ٹریڈنگ کمپنی ونٹرمیوٹ کے سربراہ جیک اوستروفسکیس کے مطابق، ”اکتوبر میں ریکارڈ توڑ فروخت کے بعد سرمایہ کار ابھی بھی محتاط ہیں۔ وہ نظام میں ممکنہ کمزوریوں پر غور کر رہے ہیں جو ابھی تک ختم نہیں ہوئیں۔“
اگرچہ بٹ کوائن نے اکتوبر میں کمی کا سامنا کیا، مگر مجموعی طور پر یہ کرنسی سال 2025 کے آغاز سے اب تک 16 فیصد منافع میں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی کرپٹو کرنسیوں کے لیے نرم پالیسیوں، جیسے بڑی کرپٹو کمپنیوں کے خلاف مقدمات کا خاتمہ اور مالیاتی اداروں کے لیے خصوصی ضوابط نے مجموعی طور پر اس سال ڈیجیٹل کرنسیوں کے لیے مثبت ماحول فراہم کیا ہے۔
تاہم، اکتوبر کا اتار چڑھاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کرپٹو مارکیٹ اب بھی غیر یقینی سیاسی اور معاشی فیصلوں کے رحم و کرم پر ہے۔