Express News:
2025-11-03@17:58:43 GMT

ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کو نئے ڈھنگ سے جئیں!

اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT

ذرا سا مڑ کر دیکھیں۔ اْس ہستی کو یاد کریں جس نے آپ کا ہاتھ پکڑا تھا۔ چند قدم دور آپ کو تھامنے کیلئے ایک اور مہربان موجود۔ اور یوں آپ کو پہلا قدم اْٹھانا سکھایا گیا۔

دوسوال: وہ ہستیاں اب کہاں ہیں؟ اور آپ کو مڑ کر دیکھنے میں اتنی دِقت کیوں ہو رہی ہے؟ وہ ہستی اب آپ خود ہیں بہت سوں کیلئے۔ اور مڑ کر دیکھنے میں دِقت کی وجوہات دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ مڑ کر کل کو دیکھتے ہوئے دل دْکھتا ہے کہ تب میں توانائی اور شباب سے بھرپور تھا اور کئی آنکھوں کی امید۔ خواب جوان اور بہت سوں کی امیدیں زندہ تھیں۔ آج میں خود دوسروں سے امیدیں لگائے بیٹھا ہوں۔ یہ جذباتی تبدیلی کوئی اتنی آسان نہیں۔

دوسرا یہ کہ مڑنے کی اجازت کمر بھی نہیں دیتی۔ ٹانگیں اور کندھے سخت ہوگئے ہیں۔ آسان سا کام بھی پہاڑ لگتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ اس حالت میں بھی آپ اکیلے تو نہیں۔ اور نہ ہی آپ نے تھامنے والے ہاتھ کی طرف کوئی توجہ کی ہے۔

زندگی کے ہر موڑ پر آپ نے نئے سے نئے کام سیکھنے کیلئے رہنمائی حاصل کی۔ والدین، اساتذہ، دوست احباب، مربی اور تو اور زمانہ سب سے بڑا استاد ہے۔ سیکھنے کیلئے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ ہم سیکھنا چاہتے ہیں اور اس تبدیلی کو قبول کرنا چاہتے ہیں۔ مگر عمر کے ڈھلنے کو کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں تو کام چلے گا کیسے؟

آئیے، نرم دلی سے، خوش دلی سے ، پیار سے گزرتے وقت کو قبول کریں اور ایک نیا قدم جیسے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر اْٹھایا تھا، ویسے ہی بے بی اسٹیپ سے ایک نیا سفر، ایک نئی زندگی شروع کریں۔ ایک روشن کل۔ کوئی سخت ڈسپلن نہیں۔ کوئی وقت کی قید نہیں۔ اگر آپ سپاہی تھے تو اَب کوئی سپاہیانہ قواعد نہیں۔ بس بڑھتے چلے جانا سبک روی سے۔ مزے مزے سے۔

یقین کیجیے، دنیا کو آپ کی بہت ضرورت ہے مگر ایک جہاں دیدہ شخص کی نہ کہ ایک مصنوعی جوان کی۔ کہا جاتا ہے کہ تجربہ کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا اور آپ ہی وہ واحد شخص ہیں جو لانگ کٹ گزار کر آیا ہے۔ آپ جیسا کوئی اور نہیں۔ آپ کی حکمت اَن مول ہے۔ اسے ’’ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘کے نعروں میں ضائع نہ کیجیے۔ اِس کام کے لئے حفیظ جالندھری کافی ہیں۔ بے بی اسٹیپ اس لیے بھی ضروری ہیں کہ آپ اپنا بچپن واپس لا سکیں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ کے محسوسات میں تبدیلی لا سکتی ہیں۔ دوبارہ سے اْسی آزادی سے زندہ رہنے میں مدد کر سکتی ہیں جس کے آپ بجا طور پر مستحق ہیں۔

پہلا قدم

شاید آپ کو یاد ہو کہ بچوں کو بڑھنے کیلئے ایک لمبی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن بڑھتی عمر میں خود کو قائم رکھنے کیلئے بھی اچھی نیند ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جوانی میں یہ کوئی عیاشی ہو مگر اب یہ ضرورت ہے۔ سو پہلا قدم اچھی اور پْرسکون نیند۔ یہ شفا بخش ہے۔ سکون دیتی ہے۔ دماغ اور یادداشت کو تیز کرتی ہے ۔ مزاج اچھا رہتا ہے اور تمام جسم کو، اپنے آپ کو روز کے روز اووَرہال کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ جب کہ نیند پوری نہ ہونے کی صورت میں۔ تمام رات کروٹیں بدلتے گزرے تو صبح دھندلی ، بوجھل اور مشکل طلوع ہوتی ہے۔

خوش قسمتی سے اچھی نیند کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا ہوتی۔ بس، گھنٹہ بھر پہلے روشنیاں کم اور مدھم کرنا، ٹی وی اور اسکرین سب بند کرنا، پْرسکون کمرے میں آہستہ چند گہرے سانس اور جسم کو اطلاع کہ

اب آرام کا وقت ہے۔ یقیناً آپ اچھی نیند کے حق دار اور کل صبح تازہ دم اور روشن دن کے مستحق ہیں۔ لیکن اس کیلئے آج کر کیا سکتے ہیں؟ نہ صرف زندہ رہنے کیلئے بلکہ اس سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے کیلئے۔

دوسرا قدم

زندگی پانی سے شروع ہوئی تھی اور آپ کی نئی زندگی، یعنی آج کا دن بھی اسی سے شروع ہونا چاہیے۔ کیا کبھی سنا ہے؟ SMALL IS BEAUTIFUL۔ زندگی کا حسن چھوٹے چھوٹے معمولات میں ہے۔ نئی زندگی کو اْن سے سجائیے۔ استقبال کیجیے صبح کی پہلی کرن کا، تھوڑی سی کْھلتی ہوئی کھڑکی، نسیم صبح کا جھونکا اور تازہ پانی کا ایک مہربان گھونٹ کا۔ نہایت سادہ لیکن اچھی نیند سے لطف اندوز ہونے کے بعد آپ کا جسم و جاں ایک باغ کی مانند ہوتا ہے جو کہ بارش کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ مرمت ہو چکا، شفا پا چکا۔ اب منتظر ہے آپ کا کہ آپ اسے سیراب کریں تاکہ وہ آپ کو ایک ثمر بار دن دے سکے۔

ایک نیم گرم پانی کا گلاس بڑی ہی سہولت سے آپ کے جسم کو بیدار کرتا ہے۔ ہاضمہ درست، فاسد مادے خارج اور رگ و پٹھے نرم کر کے آپ کی حرکات کو آسان بناتا ہے۔ ایسا کرتے ہی آپ کا جسم جیسے آپ کا شکر گزار ہو رہا ہے۔ شکریہ آپ نے مجھے یاد رکھا۔ کوئی خاص مہنگے مشروبات یا سپلیمنٹ نہیں بلکہ صاف اور سادہ زندگی بخش پانی کا گلاس۔ اور کوئی ضروری نہیں کہ اْٹھتے ہی خود کو چار چھ گلاس پانی سے لاد دیں، بلکہ یقین کریں کچھ بھی اپنے ساتھ مجبوری سے کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس آہستہ آہستہ نرمی سے اپنا خیال رکھیں۔ اور اگر ہوسکے تو اپنے بستر کے پاس ہی ایک گلاس رکھیں۔

اور دن میں بھی اگر کسی وقت آپ گرانی (بوجھل پن) محسوس کریں تو پہلا سوال خود سے یہ کریں کہ کیا آپ نے آج مناسب مقدار میں پانی پیا ہے؟ یہ آپ کے ذہن کو تازہ، سرگرانی کو کم اور دھڑکن کو ہموار بنا سکتا ہے۔ اپنے جسم کو ایک گلاس پانی کا انعام دیجیے۔ بس ایک ہی گلاس پانی ایک وقت میں۔

تیسرا قدم

دنیا نے آپ کی بہت سی حرکتیں دیکھی ہیں۔ اکثر مجبوراً مگر اب ضرورتاً حرکت میں رہیں۔ حرکت میں ہی برکت ہے اور آپ تو عمر کی بڑی بابرکت اسٹیج پر ہیں۔ خود کو حرکت سے محروم نہ کیجیے۔ اکثر ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم کتنی دیر بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم پڑھنے کیلئے، کھانے کیلئے، آرام کیلئے بیٹھتے ہیں تو پھر بیٹھ ہی جاتے ہیں۔ اچانک پتا چلتا ہے کہ آدھا دن تو گزر بھی گیا اور ہم بیٹھے کے بیٹھے ہی رہ گئے۔ آرام ضروری ہے، مگر بہت دیر ساکت رہنا ہماری صحت پر بہت مضر اثرات ڈالتا ہے۔ دوران خون بے قاعدہ ، ٹانگیں سخت اور کمر جواب دے جاتی ہے۔ چلنا تو بہت بعد کی بات ہے، صرف کھڑے ہونے میں بھی دشواری ہونے لگتی ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ خود کو فعال اور صحت مند رکھنے کیلئے آپ کو کسی میراتھن میں حصہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ چند ہلکے پھلکے معمولات بہت کافی ہیں۔ جیسے اگر سب نہیں تو مناسب موسم کے مطابق کچھ نہ کچھ نمازیں مسجد میں ، ایک آدھ چکر قریبی مارکیٹ کا۔ ٹی وی دیکھ رہے ہیں تو اشتہارات کے دوران ایک آدھ دفعہ کھڑے ہوجانا یا بیٹھے بیٹھے ایڑیاں اور انگلیاں اْٹھانا اور ہلانا۔

اہم بات شدت نہیں، بس مستقل مزاج ضرور رہنا ہے۔ جب بھی آپ کھڑے ہوتے ہیں، چند قدم چلتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو پیار سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ ابھی میں زندہ ہوں اور میرا انتخاب زندگی اور حرکت ہے۔ تو آخری بار کب آپ نے اپنے آپ کو پیار کیا تھا؟ ذرا کھڑے ہو کر یاد کیجیے۔ چند قدم اْٹھائیں گے تو آپ کو یاد آجائے گا۔

 چوتھا قدم

لے سانس بھی آہستہ

سکون کیجیے۔ دماغ کو آرام دیجیے۔ دل کھول کر اور پھیپھڑے بھر کر گہرے سانس لیجیے۔ آلودگی نہ صرف فضا میں بلکہ ہر طرح کی بہت بڑھ گئی ہے۔ اِس میں صوتی آلودگی شامل ہے اور ذہنی بھی۔ دنیا بہت شور مچاتی ہے۔ شاید وہ خاموشی سے ڈرنے لگی ہے۔ نہ صرف آواز بلکہ خیالات کا شْترِ بے مْہار ہونا، فکروں کا بے کِنار ہونا، اِن سب مصیبتوں میں ایک چیز تو آپ کے قابو میں ہے۔ وہ آپ خود ہیں۔ اور آپ کا سانس۔ جب بھی زندگی ذرا بوجھل لگے تو کہیں آرام سے بیٹھیں۔ آنکھیں بند۔ ایک آہستہ اور گہرا سانس چند لحظہ روکیں، پھر چھوڑیں۔ ایک سانس اور پھر آہستہ آہستہ چھوڑیں۔ ہر سانس آپ کو زندگی کی یاد دلائے گا۔ گہرے سانس لیجیے۔ یہ صرف آرام کا طریقہ ہی نہیں بلکہ ایک شفا بخش عادت بھی ہے۔ یہ آپ کا اعصابی تناؤ کم کرتا ہے۔ دل کی دھڑکنوں کو معمول پر لاتا ہے۔ خیالات کو صاف اور جسمانی کشیدگی کو کم کرتا ہے۔ یہ عمل جسم کو ری سیٹ کرنا بھی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ آپ کی روح کے ساتھ ایک ’’جادو کی جَپِھی‘‘ جیسا ہے۔ اور سب سے اچھی بات یہ کہ آپ اسے کہیں بھی، کبھی بھی کر سکتے ہیں۔ آرام کرنے سے پہلے، برتن دھوتے ہوئے، ٹی وی دیکھتے ہوئے۔ تو پیارو! آخری بار کب آپ نے خود کو جپھی ڈالی تھی؟ آپ اس سکون کے، اس نرمی کے، اور خاموش انعام کے حق دار ہیں۔ دیجیے خود کو انعام۔

پانچواں قدم

شاید آپ کو معلوم نہیں کہ آج سورج صرف آپ سے ملنے آیا ہے۔ یقین نہیں تو کھڑکی کھولیں دیکھیں کہ باہر کون ہے؟ وہ آپ کے انتظار میں ہے کہ محبوب کب چہرہ دِکھائے؟ اور وہ اپنی مہربان توانائی آپ پر نچھاور کرے۔ کوئی ضروری نہیں کہ چلچلاتی دھوپ میں یا ٹھٹھرتے ہوئے جاڑے میں ہی نکل جائیں۔ لیکن دن میں کسی نہ کسی وقت تو موسم معتدل ہوگا۔ لیکن آج سورج کو مایوس نہ کریں۔ اور نہ ہی خود کو اس کے جادوئی اَثر سے محروم۔ چند منٹ جیسے آپ کے لئے سہولت ہو۔

بڑھتی عمر کے ساتھ ہمارے جسم کو وٹامن ڈی بنانے کے لئے دھوپ کی ضرورت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ خاموش مہربانی آپ کی ہڈیوں کو مضبوط اور پٹھوں کو لچکدار بناتی ہے۔ آپ کے جسم ہی نہیں بلکہ دھوپ آپ کی روح تک اْتر جاتی ہے۔ یہ نیلا آسمان، تازہ ہوا، کْھلی فضا آپ کو یاد دلاتی ہے کہ زندگی ہر حال میں خوبصورت ہے۔ کئی گھنٹے دھوپ لینا کوئی ضروری نہیں۔ کسی کھڑکی کے پاس یا باغ میں چند منٹ چہل قدمی یہ بہت کافی ہے آپ کو یاد دلانے کے لئے کہ آپ اس روشن کائنات کا زندگی سے بھرپور حصہ ہیں۔ کیا آج ملاقات ہوئی سورج سے؟ اگر نہیں تو ابھی وقت ہے۔ قدرت کو اپنی یاد دلائیں۔ چہرہ اوپر اْٹھائیں۔ آپ ابھی پرجوش ہیں۔

چھٹا قدم

ہماری زندگی دو ستونوں پر کھڑی ہے۔ یہ ہماری اپنی ٹانگیں ہیں۔ کون کون سی منزلوں میں اْنہوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ کن راستوں پر لے کر چلیں۔ ہماری یادوں میں ہمارے ساتھ رقص کیا ہے۔ ہر مشکل اتار چڑھاؤ میں ہمارے ساتھ مضبوطی سے کھڑی رہیں۔ مگر آج یہ ان سب مہربانیوں کا صِلہ مانگتیں ہیں۔ تھوڑی زیادہ توجہ کچھ مزید دیکھ بھال۔ اِن کو مضبوط رکھنے کے لئے کسی سخت محنت کی ضرورت نہیں۔ بس حرکت دینا، نرمی اور محبت سے اور با قاعدگی سے۔

ایسے ہی کچھ اْٹھک بیٹھک کرسی کے ساتھ ہی سہی۔کبھی چند بار کرسی سے اْٹھنا بیٹھنا۔ بیٹھے بیٹھے آہستہ آہستہ اپنی ٹانگیں ہلانا۔ یہ معمولی سی توجہ ہی اِن بے لوث خدمت گاروں کے لئے بہت ہے۔ یہ آپ کے رگ پٹھوں کے افعال کو متوازن رکھیں گے۔

یہ اتنا اہم کیوں ہے۔ تو یقین جانیے آپ کی ٹانگیں صرف چلنے کے لئے نہیں، بلکہ جینے کے لئے، با وقار اور خودمختار رہنے اور گرنے سے بچنے کے لئے ضروری ہیں۔ پْراعتماد چال آپ کے دل کو بھی با اعتماد رکھتی ہے۔

جس عزت اور شکریہ کے یہ مخلص خدمت گزار حق دار ہیں ، کیا آج وہ حق ادا کیا؟ جنہوں نے زندگی بھر آپ کو طاقت اور حرکت دی یہ محبت انہیں واپس کرنا بنتا ہے۔ ابھی اور اسی وقت۔ بغیر کسی تاخیر کے۔

ساتواں قدم

 آپ نے تمام عمر محنت کی۔ کتنے ہی مواقع آئے ہوں گے۔ جب کھانا نہ صرف کھڑے کھڑے بلکہ بعض اوقات دوڑتے بھاگتے بھی نِگل لیا ہوگا۔ لیکن کیا آپ اب بھی ایک بھرپور ضیافت کے حقدار نہیں ہیں؟ تو کیوں نہیں؟ اب کھانا آپ کے لئے صرف پیٹ بھرنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ جسم و جاں کی مرمت کا ذریعہ بھی ہے۔ تازہ پھل سبزیاں سادہ اناج جس میں اور کچھ ہو نہ ہو مگر مْحبت کی گرمجوشی ضرور ہو۔ اپنی بھوک کی آواز کو سنیں اِس نعمت کی قدر کریں اور اپنے آپ کی دعوت کریں۔

صرف آپ کی توجہ سے ہر لقمہ آپ کے لئے حیات بخش اور پروردگار کی شکرگزاری کا ذریعہ تو بنتا ہی ہے۔ مگر یہ آپ کی اپنے آپ سے محبت کا مظہر بھی ہے۔ اِسے آپ کو ہلکا پھلکا اور دل اور دماغ کو صاف کرنے کا باعث ہونا چاہیے۔ کوئی سخت پرہیز کوئی ڈائٹ چارٹ کچھ بھی تو نہیں۔ کبھی کبھی اِسے ‘‘آزاد’’ بھی چھوڑ دے۔ لیکن سمجھداری اور توازن سے، نرمی اور محبت سے۔ اگلا کھانا آپ کی خود سے محبت کا ثبوت ہونا چاہیے!

آٹھواں قدم

اکیلا، بے حس و حرکت، اور ٹھنڈا ؟ کیا خیال ہے سب نے ہی ہونا ہے۔مگر جیتے جی کیوں ؟

سب کے ساتھ جڑے رہیں۔ یاد رکھے جائیں۔ ایک فون کال، ایک ای میل ، ایک پیالی چائے کی اور ایک گرم جوش مسکراہٹ۔ کسی بھی پیارے کے ساتھ یا کسی کے ساتھ بھی، اس عمر کی بڑی نعمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی آپ کی مسکراہٹ رد نہیں کرتا۔ یہ تعلقات ہی ہیں جو ہمیں لمبی زندگی، بہتر نیند اور خوشی دیتے ہیں۔ یاد کریں کس سے آپ کا رابطہ ہوئے کئی دن مہینے گزر گئے ؟ آج کا دن مبارک ہے رابطہ کریں ، اپنی محبت اور دانائی بانٹیں!

اضافی مشورہ: مثبت ذہن رکھیں۔ خوشی ،مقصد اور سکون کے ساتھ آغاز کے لئے آپ کبھی بھی بوڑھے نہیں ہوتے۔ صحت مند رہیں، روشن رہیں، خیال رہے۔ آپ اہم ہیں۔

٭٭٭

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا پ کو یاد اچھی نیند کی ضرورت اپنے ا پ ہیں کہ ا ا ہستہ ا کے ساتھ کھڑے ہو ہی نہیں نہیں تو پانی کا کیلئے ا اور ا پ بھی ہے لیکن ا ہیں تو کے لئے جسم کو خود کو

پڑھیں:

نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی

حمیداللہ بھٹی

ہمارامزاج کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کچھ عرصہ پُرسکون گزرے تو بے چین ہوجاتے ہیں اور خود ایسی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بے چینی ا ورہیجان کو فروغ ملے اِس کی وجہ عدم برداشت ، رواداری کا فقدان اور نفرت انگیز بیانیہ ہے۔ اگرکوئی بے بنیاد لیکن سنسنی خیزخبر سنائے تو لوگ نہ صرف دلچسپی اورمزے سے سنتے ہیں بلکہ اپنے رفقاکوبھی سنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں ۔ایسامزاج بالغ نظر معاشرے کانہیں ہوسکتا ۔مزید یہ کہ ہم سچائی کے متلاشی نہیں رہے سُنی سنائی بات پرفوراََ یقین کرلیتے ہیں۔اِس طرح نفرت انگیز بیانیے کے لیے حالات سازگار ہوئے ہیں اور جھوٹ ہمارے مزاج کاحصہ بن گیاہے۔ ہر کوئی جب چاہے کسی پربھی دشنام طرازی کرنے لگتا ہے اور پھراِسے کارنامہ جان کر فخر سے اپنے رفقاکو بتاتاہے کہ فلاں اہم شخص کو اِس طرح بدنام کیا ہے تعجب یہ کہ سُننے والا بھی حوصلہ شکنی کی بجائے واہ واہ کرتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جھوٹ اورنفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن ایسا نہیں ہورہا کیونکہ اکثریت کوسچ سے کوئی غرض نہیںصرف اپنے مزاج کے مطابق سنناہی پسند ہے ۔
ذرائع ابلاغ نے بہت ترقی کرلی ہے اِس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ حقیقت جاننے میں مشکل پیش نہ آئے مگرذرائع ابلاغ کی ترقی نے حقائق سے آگاہی مشکل کردی ہے۔ ویسے لوگ بھی حقیقت جاننے کی جستجو ہی نہیں کرتے اور جب سے سوشل میڈیا کاظہورہوا ہے یہ توبالکل ہی جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اب جس کا جی چاہتا ہے وہ گلہ پھاڑ کر ہرکسی پر کیچڑ اُچھالنے لگتا ہے کیونکہ تدارک کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ لہٰذاسوشل میڈیانے معاشرے کوجھوٹ سُننے اور سنانے کے لیے مادرپدرآزاد کردیاہے ۔یہ سوشل میڈیا کا تعمیری کی بجائے نقصان ہے ۔دنیامیںیہ مقبولیت بڑھانے اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے مہذب معاشروں کے لوگ اخلاق اور دلیل سے بات کرتے ہیں اور سچائی جاننے کی جستجو کرتے ہیں اسی لیے ہلچل وہیجان کم ہوتا ہے۔ اگر کوئی من گھڑت اور بے بنیاد واقعات کی تشہیر کرے توجلدہی کوئی سچ سامنے لے آتا ہے اسی لیے نفرت انگیز بیانیے کی گنجائش نہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنے اطوار کا جائزہ لیں اوربرداشت و رواداری پر مبنی زمہ دارانہ بیانیہ اپنائیں ۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک بتا دیں جس کے شہری اپنے ملک کی بجائے سرِعام خودکودوسرے ملک کاکہیں اپنے علاقوں کو ہمسایہ ملک کا حصہ قراردیں ۔اگر کوئی ایسے کسی فعل کامرتکب ہوتونہ صرف اِداروں کامعتوب ہوتا ہے بلکہ عام شہری بھی ایسی حرکت کابُرامناتے اور نفرت کرتے ہیں مگر زرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کیا ہمارے یہاں بھی ایسا ہے؟ہرگز نہیں۔یہاں تو قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ پاک وطن کا شہری کہلوانے سے گریزاں ہیں۔ اِن کی اولاد بھی ایسا ہی نفرت انگیز بیانیہ رکھتی ہے مگر ریاست خاموش ہے ۔اب تو ایسے ہی ایک قوم پرست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا ہے ۔اِس کا والد قیامِ پاکستان کا مخالف رہا ۔اِس کی اولاد نے پاکستانی سرزمین پر جنم لیا تعلیم حاصل کی اسی ملک کے وسائل استعمال کیے مگرپاک وطن کی وفادار نہیں بلکہ لسانی اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کی علمبردارہے ۔یہ امن کے بجائے لڑائو،گھیرائو اور جلائو پر فریفتہ ہے۔ رواداری اور برداشت سے کوئی سروکار نہیں۔ البتہ سچ پر جھوٹ کو ترجیح دینے سے خاص رغبت ہے اسی خاندان کے سربراہ کا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربن جاناسمجھ سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے خاندان اور شخصیات کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟کیونکہ ایسے چہروں کوعزت و مرتبہ ملنے سے وطن پرستی کی بجائے نفرت انگیز بیانیے کادرس ملتا ہے ۔
اپنے وطن کی ترقی پر شہری خوش ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا رواج نہیں ہمارے حکمرانوں کوکہیں عزت واہمیت ملے تویہاں رنجیدگی ظاہر کی جاتی ہے لیکن بے عزتی ہونے کواُچھالتے ہوئے سوشل میڈیاپر لوگ جھوم جھوم جاتے ہیں ۔ارے بھئی کوئی ملک اگر ہمارے حکمرانوں کو عزت دیتا ہے تو یہ ایک حکومتی شخص کی نہیں بلکہ پاکستان کی عزت ہے۔ اگر کسی کوسیاسی ،علاقائی ،لسانی یاقومیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تواظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں یہ طریقہ تو کوئی مناسب نہیں کہ ملک کوعزت ملنے پر غمزدہ ہواجائے اور بے عزتی پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں۔
بھارت نے پاک وطن کو نیچا دکھانے اور خطے پر بالادستی ثابت کرنے کے لیے رواں برس چھ سے دس مئی کے دوران جارحیت کاارتکاب کیا جس کاجواب پاک فوج نے دندان شکن دیادشمن کی جارحیت پر موثر،شاندار اور نپے تُلے ردِعمل نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دیے بھارت کے جنگی طیارے کچھ اِس طرح گرائے جیسے شکاری شکارکے دوران پرندے گراتا ہے۔ اِس بے مثال کامیابی کو دنیا نے تسلیم کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ہر اہم تقریب میں خوشی سے تذکرہ کرتا ہے وہی امریکہ جہاں ماضی میںہمارے وزیرِ اعظم کا ٹیلی فون سُننے تک سے اجتناب کیاجاتا تھا اب پاکستان پر فداہے ۔ہمارے حکمرانوں کی عزت افزائی کرتا اور فیلڈمارشل کو پسندیدہ قرار دیتا ہے دنیا کی تینوں بڑی طاقتیں امریکہ ،روس اور چین اِس وقت پاکستان پر مہربان ہیں جس کی وجہ پاک فوج کی مہارت وطاقت ہے تینوں بڑی عالمی طاقتوںکو معلوم ہے کہ پاک فوج میں حیران کردینے والی صلاحیت ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کی الگ سعادت ملی ہے جبکہ بھارت کی سفارتی تنہائی عیاں ہے مگر یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جواب بھی نفرت انگیز بیانیہ رکھتے اور مایوسی کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ چاہتے ہیں ہماری حکومت اور فوج ہر جگہ ماردھاڑ کرے اور بے عزت ہواگر ایسا ہی ہے تویہ وطن پرستی ہر گز نہیں ارے بھئی پاکستان کوبھی ترقی کرنے کا حق ہے تاکہ ہر شہری خوشحال ہو اور دنیا میں عزت وتکریم کاحقدار ٹھہرے۔
شمال مغربی سرحد کی صورتحال پر ہر پاکستانی فکرمند ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان سے دوبدوہونے کی نوبت نہ آئے حکومت اور فوج کی بھی یہی سوچ ہے مگر ڈالرزملنے کی وجہ سے طالبان قیادت پاک وطن کے خلاف بھارت کی پراکسی بن چکے ہیں۔ بار بارسمجھانے اوردہشت گردی کے ثبوت دینے کے باوجود وہ نمک حرامی ترک نہیں کر رہے۔ قطر اور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات بھی اسی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اب پاکستان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں رہا کہ نمک حراموں کو طاقت سے کچل دے لیکن سوشل میڈیا پر ایسے نا ہنجاربھی ہیں جو مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان لڑنے کی بجائے افغانستان سے ہونے والے حملوں کو برداشت کرے کیوں بھئی؟کیوں برداشت کرے؟ جب پاک فوج خود سے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دھول چٹاسکتی ہے توافغانستان کے چند ہزارگوریلا جنگ لڑنے والوں کی کیا حیثیت ؟ کا ش نفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے یہ حقیقت سمجھ جائیں اور سیاست پر رواداری اور برداشت کو ترجیح دیں۔ ملک اور اداروں کا ساتھ دیناوطن پرستی ہے جس دن ایسا ہوگیا وہ دن پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ثابت ہوگا۔
٭٭٭

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • نیوزی لینڈ کے سابق کپتان کین ولیمسن کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان
  • کین ولیمسن کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • تلاش
  • دہشتگردی پاکستان کیلئے ریڈ لائن ، اسپر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، بیرسٹر دانیال
  • آئمہ کرام کی رجسٹریشن کیلئے کوئی قواعد و ضوابط جاری نہیں کیے، محکمہ داخلہ