جیل مینیکیور خواتین کی خوبصورتی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ چوں کہ یہ ہفتوں تک قائم رہتا ہے، نہ پگھلتا ہے اور نہ ہی ٹوٹتا ہے اس لیے روزمرہ مصروفیات بشمول آفس، ورک آؤٹ اور سفر کے دوران بھی اپنی چمک برقرار رکھتا ہے۔

مزید پڑھیے: میک اپ کے لیے گھونگھے پال کر لاکھوں کمانے والی خاتون

یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے بہترین انتخاب ہے جو ناپختہ ناخن رکھتے ہیں یا اکثر چیزوں سے ٹکرا کر ناخن توڑ بیٹھتے ہیں کیونکہ جیل مینیکیور ناخنوں کو اضافی مضبوطی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔

تاہم اب یورپی یونین نے اس حوالے سے یکم ستمر سے ایک اہم قدم اٹھایا ہے اور اپنے رکن ممالک میں جیل نیل پالش میں استعمال ہونے والے کیمیکل ’ٹری میتھائل بینزوئل ڈائی فینائل فاسفین آکسائیڈ‘ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کیمیکل کی مدد سے جیل پالش  یو وی لائٹ کے نیچے جلدی سخت ہوتی ہے اور وہ مشہور ’الٹرا گلاسی فنش‘ حاصل کرتی ہے۔

یہ پابندی اس بنیاد پر لگائی گئی ہے کہ مختلف سائنسی مطالعات نے ٹی پی او  کو افزائشِ نسل سے متعلق ممکنہ مسائل سے جوڑا ہے اگرچہ یہ تحقیقات زیادہ تر جانوروں پر کی گئی ہیں اور انسانوں پر براہ راست اثرات کا ابھی کوئی قوی ثبوت نہیں۔ یورپی یونین کی احتیاط بہتر ہے کی پالیسی کے تحت یہ اقدام احتیاطاً کیا گیا ہے۔

ماہر جلد ڈاکٹر حنہ کوپلمان کے مطابق یہ فیصلہ انسانی خطرے کے شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک احتیاطی قدم کے طور پر کیا گیا ہے۔

آگے کیا ہوگا؟

یورپین یونین کے 27 رکن ممالک اور ان کے ضوابط کو اپنانے والے دیگر ممالک جیسے ناروے اور سوئٹزرلینڈ، میں اب ٹی پی او  والے جیل نیل پالش کی فروخت یا استعمال مکمل طور پر ممنوع ہے۔

اس فیصلے کے ساتھ نہ کسی کو رعایتی مدت دی گئی ہے اور نہ ہی کوئی استثنیٰ۔ سیلونز اور ریٹیلرز کو فوری طور پر اپنا موجودہ اسٹاک محفوظ طریقے سے تلف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور مینوفیکچررز کو اپنی مصنوعات کو TPO سے پاک کرنا ہوگا۔

پاکستان اور دیگر ممالک پر اثرات

پاکستان میں چونکہ جیل نیل پالش کی زیادہ تر مقدار درآمد کی جاتی ہے اور یہاں اس کی مقامی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے اس پابندی کا اثر یہاں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اگر یورپی مینوفیکچررز نے فارمولا تبدیل کیا تو وہی مصنوعات پاکستان میں بھی دستیاب ہوں گی۔

مزید پڑھیں: کیا میک اپ، بیگ اور کپڑے سستے ہوجائیں گے؟

دوسری جانب امریکا میں ٹی پی او پر کوئی پابندی نہیں۔ وہاں 10 کروڑ سے زائد خواتین نیل پروڈکٹس استعمال کرتی ہیں اور آج بھی عام سیلونز میں ٹی پی او والے جیل مینیکیور بغیر کسی رکاوٹ کے کیے جا رہے ہیں۔ مگر چونکہ بہت سی امریکی کمپنیاں یورپ سے مصنوعات حاصل کرتی ہیں اس لیے اس پابندی کے اثرات امریکی بیوٹی انڈسٹری تک بھی پہنچ سکتے ہیں، خصوصاً اگر کمپنیوں کو 2 مختلف ورژنز بنانے کی بجائے ایک ہی فارمولا اپنانا پڑے۔

تنازع اور تنقید

یورپ میں بہت سے افراد اس پابندی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بیلجیئم کی ہول سیل کمپنی اساپ نیلز اینڈ بیوٹی سپلائی نے ایک احتجاجی ویب سائٹ بھی بنائی ہے جس میں اس فیصلے کو چھوٹے کاروباروں کے لیے شدید معاشی نقصان دہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انسانی نقصان کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

متبادل اور حفاظتی تجاویز

وہ خواتین جو جیل مینیکیور کی شوقین ہیں لیکن ٹی پی او کے حوالے سے محتاط رہنا چاہتی ہیں تو وہ کچھ معروف برانڈز جیسے OPI Intelli-Gel، Aprés Nail اور Aimeili کی مصنوعات سے استفادہ کرسکتی ہیں جو پہلے ہی ٹی پی او فری آپشنز پیش کر رہی ہیں۔

ماہرین کچھ اضافی حفاظتی اقدامات بھی تجویز کرتے ہیں ککہ جیل مینیکیورز کے درمیان وقفہ دیں، ہوادار سیلونز کا انتخاب کریں، یو وی روشنی سے پہلے ہاتھوں پر سن بلاک لگائیں، پروٹیکٹیو بیس کوٹ استعمال کریں، جیل پالش کو خود سے نہ اتاریں بلکہ ماہر سے ریموو کروائیں اور جیل پالش کو گرو آؤٹ نہ ہونے دیں کیونکہ اس سے بیکٹیریا پیدا ہو سکتا ہے۔

پاکستانی خواتین بھی احتیاط برتیں

الغرض جیل مینیکیور خوبصورتی اور سہولت کا امتزاج ضرور ہے لیکن اس کی چمک کے پیچھے چھپے ممکنہ خطرات پر بھی توجہ دینی ضروری ہے۔

یورپ نے احتیاطی بنیادوں پر ٹی پی او پر پابندی لگا کر ایک مثال قائم کی ہے، جو شاید جلد ہی دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اثر دکھائے۔

مزید پڑھیں: مریم نواز کے میک اپ اور گوچی کے جوتوں کی پنجاب اسمبلی میں گونج

پاکستان میں بھی دیگر کئی ممالک کی طرح زیادہ تر مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں لہٰذا ان تبدیلیوں کے لیے تیار رہنا ہوگا چاہے وہ صحت کے لیے ہوں یا مارکیٹ کے رجحانات کے حوالے سے ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جیل مینیکیور میک اپ یورپ میں جیل مینیکیور پر پابندی یورپی یونین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جیل مینیکیور میک اپ یورپی یونین جیل مینیکیور ٹی پی او ہے اور میک اپ کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔

امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔

ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔

متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔

امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔

ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔

امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
  • قصور: مختلف ٹریفک حادثات میں 2خواتین جاں بحق
  • ہوم بیسڈ ورکرز کے عالمی دن پرہوم نیٹ پاکستان کے تحت اجلاس
  • تارکین وطن پاکستانی “پاک آئی ڈی” ایپ پرگاڑیاں رجسٹر کروا سکیں گے
  • کراچی میں دلخراش حادثہ، گھر میں آگ لگنے سے ماں بیٹی ہلاک
  • کراچی؛ گھر میں آتشزدگی کے دوران ماں بیٹی جھلس کر جاں بحق
  • شاہ رخ خان کی 60ویں سالگرہ، بالی ووڈ کنگ نے اپنی کامیابی کا سہرا خواتین کے سر باندھ دیا
  • کراچی: اورنگی ٹاؤن میں گھر میں آتشزدگی، 2 خواتین جاں بحق
  • شوبز کی خواتین طلاق کو پروموٹ نہ کریں: روبی انعم
  • ای چالان یورپ جیسا اور سڑکیں کھنڈر، کراچی کے شہریوں کی تنقید