ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ کیا حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر چین اور روس نے مل کر امریکا کے خلاف کوئی بڑا اتحاد بنایا ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ پر یہی کہا ہے کہ چین، روس اور شمالی کوریا مل کر امریکا کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ چین جنگ عظیم دوئم کی شاندار فتح کا جشن منا رہا ہے، اس فتح میں امریکی فوجیوں نے بھی چین کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا۔ چین کی اس فتح میں امریکی فوجیوں کا خون بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ چین اس پریڈ میں ان امریکی فوجیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرے گا۔ اب ٹرمپ کی یہ پوسٹ بتا رہی ہے کہ انھیں چین کی پریڈ اور سفارت کاری دونوں پسند نہیں آئے ہیں۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ دنیا دوبارہ دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ہیں۔ دوسری چین اور اس کے اتحادی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین اور امریکا میں اس طرح سرد جنگ نہیں ہے جیسے روس اور امریکا کی ہے۔ اس تقسیم میں روس، چین کے ساتھ اس کے کیمپ میں کھڑا ہو گیا ہے۔
کیا اس کیمپ کی قیادت چین کے پاس ہے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اب تک چین نے محاذ آرائی کی سیاست سے اجتناب کیا ہے۔ کیا اب چین نے عالمی سطح پر اپنا ایک الگ گروپ اور اس کی قیادت کرنے کا سوچ لیا ہے؟ کیا ہم چین کی سوچ اور پالیسی میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں؟ کیا چین مغرب اور امریکا کے سامنے کھڑ ہونے کا سوچ رہا ہے؟
ایک اور خبر جو بہت دلچسپ ہے وہ روس اور چین کے درمیان بڑھتے تعاون کی ہے۔ چین اور روس نے ایک دوسرے کے لیے خود کو ویزہ فری کر دیا ہے۔ اب چینی شہریوں کو روس جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی اور روسی شہریوں کو چین آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
چین روسی تیل کا پہلے ہی سب سے بڑ اخریدار ہے۔ اب چین نے روس سے گیس خریدنے کا بھی بڑا معاہدہ کر لیا ہے۔اس مقصد کے لیے گیس پائپ لائن بھی بنائی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین اور روس کے درمیان اس گیس معاہدہ کے بعد شائد روس کو مغرب کو گیس اور تیل بیچنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یوں مغرب کی روس پر لگائی جانے والی پابندیاں بے اثر ہو جائیں گی۔ روس کو چین کی شکل میں گیس اور تیل کا مغرب سے بڑا خریدار مل گیا ہے۔ چین اور روس کے درمیان بڑھتا تعاون مغربی یورپ اور امریکا دونوں کے لیے خطرناک ہے۔
چین اور روس ملکر امریکا اور مغربی یورپ کی پابندیوں کے ہتھیار کو بے اثر کر رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ اپنی طاقت کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ شمالی کوریا کی بھی اس نئے اتحاد میں غیر معمولی اہمیت نظر آئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنی پوسٹ میں شمالی کوریا کے صدر کا نام لیا ہے۔ وہ سب سے آگے نظر بھی آئے ہیں۔ ان کی اہمیت کھل کر نظر آئی ہے۔ یہ درست ہے کہ چین کا شمالی کوریا کے ساتھ ایک بڑا اتحاد ہے۔ لیکن شمالی کوریا روس کی یوکرین کے خلاف جنگ میں فوجی بھی بھیج رہا ہے۔
اس طرح شمالی کوریا بیک وقت روس اور چین دونوں کے بہت قریب ہے۔ چین اور جاپان کی کشیدگی میں شمالی کوریا چین کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اب تو شمالی کوریا نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ شمالی کوریا اس نئے اتحاد میں تیسرے بڑے اتحادی کے طو رپر سامنے آیا ہے۔ جو جاپان اور جنوبی کوریا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔جس طرح روس یوکرین کے علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے۔ سیز فائر پر نہیں مان رہا ۔دنیا کو خطرہ ہے کہ چین نے اب تائیوان حاصل کرنا ہے۔ کیا چین دنیا کو پیغام دے رہا ہے کہ اب وہ تائیوان حاصل کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیا چین بھی ایک جنگ کی تیاری کر رہا ہے؟
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس پریڈ سے چین نے دنیا کو اپنی فوجی طاقت کی نمائش کی ہے۔ دنیا میں ہتھیار بیچنا ایک بڑ اکاروبار ہے۔ ہتھیار ساز ممالک کی تعداد بہت کم اور خریدنے والے ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے، اس منڈی میں بھی امریکا کی اجارہ داری ہے۔ ہتھیار بیچنے والے ممالک میں امریکا سب سے آگے ہے۔ اس کا حصہ 49فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد فرانس اور جرمنی ہیں۔ روس چوتھے نمبر پر ہے۔ چین بہت پیچھے ہے۔ چین کا کل حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔
چینی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار پاکستان ہے۔ چین کو اپنے ہتھیاروں کے لیے بڑی منڈیوں کی تلاش ہے۔ وہ اسلحہ کا بڑا بیوپاری بننا چاہتا ہے۔ یہ پریڈ چین کی اس کوشش کی طرف بھی ایک قدم تھا۔ یقینا مغرب کے لیے یہ خطرہ ہے۔ چین ان کی مارکیٹ سے حصہ لے گا۔ یہاں اس کا روس سے بھی مقابلہ ہوگا۔ کیونکہ روس بھی اسلحہ بیچتا ہے۔ لیکن روس اور چین معاشی قربتوں کے بعد اس مقابلہ میں کیسے توازن پیدا کریں گے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ امریکا اور یورپ نے دنیا کے چار ممالک کے خلاف سب سے زیادہ پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔
ان میں روس، ایران، شمالی کوریا اور میانمر(برما) شامل ہیں۔چاروں چین کے اتحادی ہیں۔ چاروں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں موجود تھے۔ چاروں ملک ان پابندیوں کا مقابلہ چین کے ساتھ ملکر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ صورتحال ہے۔ کیا عالمی سطح پر مغرب اور امریکا کی پابندیوں کے خلاف بلاک بن رہا ہے؟ کیا چین ان ممالک کی معیشت کو ان پابندیوں کے اثر سے نکال سکتا ہے؟ کیا چین کی معیشت ان ممالک کو سنبھالنے کی پوزیشن میں ہے؟ بھارت اس جنگ میں کہیں نظر نہیں آرہا ۔ وہ چین کی فوجی پریڈ میں بھی شامل نہیں تھا۔ لیکن اسے امریکی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔ وہ روس کے ساتھ ہے۔ لیکن روس تو خود چین کے ساتھ ہے۔
معاشی طو رپر مضبوط روس نہیں چین ہے۔ اس لیے بھارت ابھی کہیں نہیں۔ دوسری طرف پاکستان دونوں طرف نظر آرہا ہے۔ اس کے چین سے بھی بہترین تعلقات ہیں۔ اور امریکا کے ساتھ بھی ہنی مون چل رہا ہے۔ جیسے جیسے عالمی تناؤ بڑھے گا ۔ کہیں نہ کہیں تو فیصلہ کی گھڑی آئے گی۔ جیسے آجکل بھارت کے لیے آئی ہوئی ہے۔ اس لیے پاکستان کب تک یہ توازن قائم رکھ سکے گا ۔ یہ بھی ایک سوال ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شمالی کوریا چین کے ساتھ چین اور روس ہے کہ چین کیا چین روس اور رہے ہیں بھی ایک کے خلاف چین نے رہا ہے یہ بھی چین کی
پڑھیں:
جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران
تہران (ویب دیسک )ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا،کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا، ایرانی وزیر خارجہ۔امریکا سے مذاکرات میں دلچسپی نہ جوہری پابندی قبول کریں گے؛۔ایران نے امریکا کے ساتھ ممکنہ مذاکرات اور جوہری پروگرام سے متعلق واضح پالیسی بیان جاری کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں البتہ بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔الجزیرہ کو دیئے گئے انٹرویو میں انھوں نے مزید کہا کہ ہم ایک منصفانہ معاہدے کے لیے تیار ہیں لیکن امریکا نے ایسی شرائط پیش کی ہیں جو ناقابلِ قبول اور ناممکن ہیں۔انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اپنے جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا۔ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جو کام جنگ کے ذریعے ممکن نہیں وہ سیاست کے ذریعے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مخالفین کے خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یورینیم افزودگی نہیں روکیں گے۔عباس عراقچی نے مزید کہا کہ جون میں اسرائیل اور امریکا کے حملوں کے باوجود جوہری تنصیبات میں موجود مواد تباہ نہیں ہوا اور ٹیکنالوجی اب بھی برقرار ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری مواد ملبے کے نیچے ہی موجود ہے، اسے کہیں اور منتقل نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کے کسی بھی جارحانہ اقدام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔