Express News:
2025-11-05@01:51:51 GMT

چین ایک بڑی طاقت

اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT

ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ کیا حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر چین اور روس نے مل کر امریکا کے خلاف کوئی بڑا اتحاد بنایا ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ پر یہی کہا ہے کہ چین، روس اور شمالی کوریا مل کر امریکا کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ چین جنگ عظیم دوئم کی شاندار فتح کا جشن منا رہا ہے، اس فتح میں امریکی فوجیوں نے بھی چین کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا۔ چین کی اس فتح میں امریکی فوجیوں کا خون بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ چین اس پریڈ میں ان امریکی فوجیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرے گا۔ اب ٹرمپ کی یہ پوسٹ بتا رہی ہے کہ انھیں چین کی پریڈ اور سفارت کاری دونوں پسند نہیں آئے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ دنیا دوبارہ دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ہیں۔ دوسری چین اور اس کے اتحادی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین اور امریکا میں اس طرح سرد جنگ نہیں ہے جیسے روس اور امریکا کی ہے۔ اس تقسیم میں روس، چین کے ساتھ اس کے کیمپ میں کھڑا ہو گیا ہے۔

کیا اس کیمپ کی قیادت چین کے پاس ہے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اب تک چین نے محاذ آرائی کی سیاست سے اجتناب کیا ہے۔ کیا اب چین نے عالمی سطح پر اپنا ایک الگ گروپ اور اس کی قیادت کرنے کا سوچ لیا ہے؟ کیا ہم چین کی سوچ اور پالیسی میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں؟ کیا چین مغرب اور امریکا کے سامنے کھڑ ہونے کا سوچ رہا ہے؟

ایک اور خبر جو بہت دلچسپ ہے وہ روس اور چین کے درمیان بڑھتے تعاون کی ہے۔ چین اور روس نے ایک دوسرے کے لیے خود کو ویزہ فری کر دیا ہے۔ اب چینی شہریوں کو روس جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی اور روسی شہریوں کو چین آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

چین روسی تیل کا پہلے ہی سب سے بڑ اخریدار ہے۔ اب چین نے روس سے گیس خریدنے کا بھی بڑا معاہدہ کر لیا ہے۔اس مقصد کے لیے گیس پائپ لائن بھی بنائی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین اور روس کے درمیان اس گیس معاہدہ کے بعد شائد روس کو مغرب کو گیس اور تیل بیچنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یوں مغرب کی روس پر لگائی جانے والی پابندیاں بے اثر ہو جائیں گی۔ روس کو چین کی شکل میں گیس اور تیل کا مغرب سے بڑا خریدار مل گیا ہے۔ چین اور روس کے درمیان بڑھتا تعاون مغربی یورپ اور امریکا دونوں کے لیے خطرناک ہے۔

چین اور روس ملکر امریکا اور مغربی یورپ کی پابندیوں کے ہتھیار کو بے اثر کر رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ اپنی طاقت کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ شمالی کوریا کی بھی اس نئے اتحاد میں غیر معمولی اہمیت نظر آئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنی پوسٹ میں شمالی کوریا کے صدر کا نام لیا ہے۔ وہ سب سے آگے نظر بھی آئے ہیں۔ ان کی اہمیت کھل کر نظر آئی ہے۔ یہ درست ہے کہ چین کا شمالی کوریا کے ساتھ ایک بڑا اتحاد ہے۔ لیکن شمالی کوریا روس کی یوکرین کے خلاف جنگ میں فوجی بھی بھیج رہا ہے۔

اس طرح شمالی کوریا بیک وقت روس اور چین دونوں کے بہت قریب ہے۔ چین اور جاپان کی کشیدگی میں شمالی کوریا چین کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اب تو شمالی کوریا نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ شمالی کوریا اس نئے اتحاد میں تیسرے بڑے اتحادی کے طو رپر سامنے آیا ہے۔ جو جاپان اور جنوبی کوریا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔جس طرح روس یوکرین کے علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے۔ سیز فائر پر نہیں مان رہا ۔دنیا کو خطرہ ہے کہ چین نے اب تائیوان حاصل کرنا ہے۔ کیا چین دنیا کو پیغام دے رہا ہے کہ اب وہ تائیوان حاصل کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیا چین بھی ایک جنگ کی تیاری کر رہا ہے؟

ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس پریڈ سے چین نے دنیا کو اپنی فوجی طاقت کی نمائش کی ہے۔ دنیا میں ہتھیار بیچنا ایک بڑ اکاروبار ہے۔ ہتھیار ساز ممالک کی تعداد بہت کم اور خریدنے والے ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے، اس منڈی میں بھی امریکا کی اجارہ داری ہے۔ ہتھیار بیچنے والے ممالک میں امریکا سب سے آگے ہے۔ اس کا حصہ 49فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد فرانس اور جرمنی ہیں۔ روس چوتھے نمبر پر ہے۔ چین بہت پیچھے ہے۔ چین کا کل حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔

چینی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار پاکستان ہے۔ چین کو اپنے ہتھیاروں کے لیے بڑی منڈیوں کی تلاش ہے۔ وہ اسلحہ کا بڑا بیوپاری بننا چاہتا ہے۔ یہ پریڈ چین کی اس کوشش کی طرف بھی ایک قدم تھا۔ یقینا مغرب کے لیے یہ خطرہ ہے۔ چین ان کی مارکیٹ سے حصہ لے گا۔ یہاں اس کا روس سے بھی مقابلہ ہوگا۔ کیونکہ روس بھی اسلحہ بیچتا ہے۔ لیکن روس اور چین معاشی قربتوں کے بعد اس مقابلہ میں کیسے توازن پیدا کریں گے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ امریکا اور یورپ نے دنیا کے چار ممالک کے خلاف سب سے زیادہ پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔

ان میں روس، ایران، شمالی کوریا اور میانمر(برما) شامل ہیں۔چاروں چین کے اتحادی ہیں۔ چاروں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں موجود تھے۔ چاروں ملک ان پابندیوں کا مقابلہ چین کے ساتھ ملکر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ صورتحال ہے۔ کیا عالمی سطح پر مغرب اور امریکا کی پابندیوں کے خلاف بلاک بن رہا ہے؟ کیا چین ان ممالک کی معیشت کو ان پابندیوں کے اثر سے نکال سکتا ہے؟ کیا چین کی معیشت ان ممالک کو سنبھالنے کی پوزیشن میں ہے؟ بھارت اس جنگ میں کہیں نظر نہیں آرہا ۔ وہ چین کی فوجی پریڈ میں بھی شامل نہیں تھا۔ لیکن اسے امریکی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔ وہ روس کے ساتھ ہے۔ لیکن روس تو خود چین کے ساتھ ہے۔

معاشی طو رپر مضبوط روس نہیں چین ہے۔ اس لیے بھارت ابھی کہیں نہیں۔ دوسری طرف پاکستان دونوں طرف نظر آرہا ہے۔ اس کے چین سے بھی بہترین تعلقات ہیں۔ اور امریکا کے ساتھ بھی ہنی مون چل رہا ہے۔ جیسے جیسے عالمی تناؤ بڑھے گا ۔ کہیں نہ کہیں تو فیصلہ کی گھڑی آئے گی۔ جیسے آجکل بھارت کے لیے آئی ہوئی ہے۔ اس لیے پاکستان کب تک یہ توازن قائم رکھ سکے گا ۔ یہ بھی ایک سوال ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شمالی کوریا چین کے ساتھ چین اور روس ہے کہ چین کیا چین روس اور رہے ہیں بھی ایک کے خلاف چین نے رہا ہے یہ بھی چین کی

پڑھیں:

تعریفیں اور معاہدے

دنیا کی سیاست میں کبھی کوئی دوستی مستقل نہیں رہی اور نہ ہی کوئی دشمنی ہمیشہ کے لیے ٹھہری۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی مفاد پرستی پر ہے۔ ایک وقت تھا جب امریکا پاکستان کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا اور اب وہی امریکا بھارت کے ساتھ معاہدوں کے انبار لگا رہا ہے۔

بات صرف فوجی تعاون تک محدود نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، تجارت، ایٹمی توانائی اور خلائی تحقیق تک جا پہنچی ہے۔ ایسے میں جب امریکی صدر یا وزیر پاکستان کے حق میں کوئی تعریفی بیان دیتا ہے تو ہمارے حکمرانوں کے چہروں پر خوشی کے پھول کھل جاتے ہیں جیسے کوئی بڑی فتح حاصل ہو گئی ہو مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تعریفوں کے پیچھے جو سیاست چھپی ہے، وہ دراصل مفادات کا جال ہے اور اس جال میں ہم برسوں سے الجھے ہوئے ہیں۔

امریکا نے سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ کبھی روس کے خلاف مورچہ بنوایا، کبھی افغانستان کے جہاد میں دھکیلا اور جب مقاصد پورے ہوگئے تو تنہا چھوڑ دیا۔ بھارت اُس وقت غیر جانبداری کے فلسفے پرکاربند تھا، پنڈت نہرو اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں سامراج کی مخالفت کرتے تھے، مگر وقت نے کروٹ بدلی۔ اب بھارت، امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ رکھتا ہے۔ کل تک جو ملک غیر جانبدار تھا، آج وہ امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ یہی ہے سرمایہ داری کی نئی شکل جہاں طاقتور ملک اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو اپنی پالیسیوں کے تابع بناتے ہیں۔

امریکا کے نزدیک دوستی کا معیار اصول نہیں بلکہ منڈی کی وسعت ہے۔ جہاں خرید و فروخت زیادہ ہو جہاں سرمایہ کاروں کے لیے راستے کھلیں وہیں سفارت کاری بھی مسکراہٹوں میں لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کبھی بھی برابرکی بنیاد پر نہیں رہے۔ کبھی ہمیں امداد کے وعدوں سے بہلایا گیا،کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں مانگی گئیں۔ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی دی جا رہی ہے اور ہمیں دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہی ہے اس دنیا کی طاقت کی حقیقت ہے جہاں دوستی بھی ناپ تول کرکی جاتی ہے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ کسی بڑی طاقت کی تعریف کے محتاج رہے۔ کبھی امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنی پالیسیاں بدلیں،کبھی چین کے ساتھ توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے اپنی خود مختاری کو بیرونی تعلقات کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا۔ ہر بار جب واشنگٹن سے کوئی تعریفی لفظ سنائی دیتا ہے ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید تاریخ بدلنے والی ہے لیکن وہ لفظ صرف سفارتکاری کا ایک جملہ ہوتا ہے جس کے پیچھے سود و زیاں کی طویل فہرست چھپی ہوتی ہے۔

ادھر بھارت میں سامراج کی آغوش میں بیٹھے رہنماؤں کو یہ فخر ہے کہ امریکا نے انھیں چین کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ انھیں معلوم نہیں کہ یہ قربت وقتی ہے۔ جس طرح ایک وقت میں امریکا نے صدام حسین، ضیاء الحق اور دیگر حلیفوں کو استعمال کیا، اسی طرح بھارت بھی ایک دن اس کھیل کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔ یہ دوستی نہیں، یہ سرمایہ دارانہ ضرورت ہے اور جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو دوستیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔

امریکا کے بھارت کے ساتھ بڑھتے معاہدے دراصل اس خطے کو مزید عسکری مسابقت میں جھونک رہے ہیں۔ ہر نئے دفاعی معاہدے کے بعد جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہو جاتی ہے۔ عوام بھوک بے روزگاری اور مہنگائی میں پس رہے ہیں مگر حکمران اسلحے کے سودوں پر مسکرا رہے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ دفاع پر صرف ہوتا ہے جب کہ تعلیم، صحت اور روزگار کے لیے بچی کھچی رقم بھی عالمی اداروں کے قرضوں کے سود میں چلی جاتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں ایک ترقی پسند قلم سوال اٹھاتا ہے کہ آخر یہ تعریفیں اور معاہدے عوام کے کس کام کے ہیں؟ امریکا کے کسی صدرکے چند جملے یا بھارت کے ساتھ ہونے والا کوئی بڑا معاہدہ نہ تو اس خطے کے مزدور کے چولہے کو جلا سکتا ہے، نہ ہی کسی کسان کے کھیت کو سیراب کر سکتا ہے۔ جب تک خطے کی قومیں اپنی پالیسیاں عوامی مفاد کے مطابق نہیں بنائیں گی تب تک یہ تمام معاہدے صرف طاقت کے کھیل کا حصہ رہیں گے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنے عوام کی خوشحالی کو اسلحے کے انبار سے زیادہ اہم سمجھیں۔ وہ دن شاید دور نہیں جب سامراجی طاقتوں کی مسکراہٹوں میں چھپی دھوکا دہی پہچانی جائے گی۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعریف پہ توجہ نہ دیں بلکہ یہ دیکھیں کہ معاہدوں کے کاغذوں پرکس کا خون اورکس کی محنت لکھی جا رہی ہے۔ سچی آزادی وہی ہے جو عوام کے شعور اور خود اعتمادی سے پیدا ہو نہ کہ کسی طاقتور ملک کے عارضی کلماتِ تحسین سے۔

 آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں۔ کوئی بیرونی طاقت نہ ہماری آزادی کی ضمانت بن سکتی ہے نہ ہماری معیشت کی ضامن۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی اور امن کا راستہ اسلحے سے نہیں بلکہ تعلیم روزگار اور انصاف سے گزرتا ہے۔جب تک عوام کو اپنی قوت پر یقین نہیں آئے گا، تب تک وہ طاقتور ممالک کی تعریف کے سحر میں مبتلا رہیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ قومی وقار کسی دوسرے ملک کے بیانات سے نہیں بلکہ اپنے عمل اپنی محنت اور اپنی خود داری سے حاصل ہوتا ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ہمیں واقعی ترقی اور آزادی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں اپنی داخلی سیاست میں شفافیت انصاف اور عوامی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ جب ریاست اپنی عوام کو بااختیار بناتی ہے تو بیرونی طاقتیں خود بخود کمزور ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ شعور ہے جو حقیقی آزادی کا زینہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کی غلامی سے نجات کا سنہری موقع
  • تعریفیں اور معاہدے
  • سی بی ایس کی ’کٹ اینڈ پیسٹ‘ پالیسی پر صدر ٹرمپ کی نئی چوٹ
  • پاکستان اور امریکہ میں تعلقات کی نئی راہیں کھل رہی ہیں،ملک خدا بخش
  • تماشا دکھا کر مداری گیا!!
  • غزہ میں آگ کی روانی
  • ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
  • ایران کا جوہری تنصیبات مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • ایران کا جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان