سندھ پبلک سروس کمیشن اور شفافیت
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
سندھ پبلک سروس کمیشن کے شفافیت کے معیار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سندھ کو ایک جدید خود مختار اور شفاف پبلک سروس کمیشن کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی ختم ہوسکے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم سندھ یونائیٹڈ تھنکر فورم کے زیرِ انتظام اساتذہ، دانشور، سیاسی کارکنوں، خواتین، صحافیوں اور طلبہ کے منتخب نمایندوں نے کمیشن کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت کو انسانی وسائل Human Resources فراہم کرنے والے اس اہم ادارے میں مکمل شفافیت ، امتحانی ریکارڈ تک رسائی اور آزادانہ نگرانی کے قیام اور کمیشن کی مکمل معاشی خود مختاری کے لیے حقیقی اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔
اس فورم کے روحِ رواں رمضان برڑو نے اپنی تحقیق کو ایک پریزنٹیشن کی شکل میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کمیشن نے ایک امیدوار کو انٹرویو میں 100 میں سے 100 نمبر دے کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کمیشن کے سابق چیئرمین ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس آغا رفیق کا ایک انٹرویو بھی دکھایا گیا۔
آغا رفیق نے اس انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے کمیشن میں کئی بنیادی اصلاحات کی تھیں اور اپنے داماد کو کمیشن کے امتحان میں حصہ لینے سے محض اس لیے روک دیا تھا کہ اقرباء پروری کا الزام عائد نہ ہو مگر آغا رفیق نے کہا کہ ان کے عہدے کی میعاد 5 سال تھی مگر وہ 6ماہ بعد ہی اپنے عہدے سے اس بناء پر رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوگئے کیونکہ کمیشن میں ’’چمک ‘‘ اور سفارش کا کلچر انتہائی مضبوط تھا اور اس کلچر کا خاتمہ نہیں کرسکتے تھے۔
اس لیے عزت کا ایک راستہ تھا کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ اس مجلس کے شرکاء کی یہ متفقہ رائے تھی کہ کمیشن کا ملازمتوں کی بھرتی کا نظام ناکارہ ہوگیا ہے اور کمیشن میں تمام مراحل سفارش یا رشوت کے ایک مضبوط نظام کے ذریعے طے ہوتے ہیں۔ معروف قانون دان بیرسٹر صلاح الدین نے اس موقعے پر کہا کہ ترقی کے لیے ایسے انسانی وسائل کارآمد ہوتے ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں معیاری اہلیت کے حامل ہوتے ہیں۔
بیرسٹر صاحب نے کہا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی ناقص کارکردگی نے نئی نسل کا مستقبل مخدوش کردیا ہے۔ انھوں نے اپنے عدالتی تجربہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کمیشن کسی اسامی کے لیے منتخب امیدواروں کا انتخاب کرتا ہے تو عدالتوں میں ہر سال پٹیشن دائر ہوتی ہیں۔ انھوں نے سندھ ہائی کورٹ میں کمیشن کی بھرتیوں کے خلاف ایک مقدمہ کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کیا کہ سابق صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں کئی ہزار اساتذہ بھرتی کیے گئے تھے۔ بعد میں ان اساتذہ کو برطرف کیا گیا۔
ان اساتذہ کی عرض داشتوں پر جب سندھ ہائی کورٹ کے سامنے سماعت شروع ہوئی تو اساتذہ سے ان کا مضمون معلوم کیا گیا تو سب نے کہا کہ ہم صرف سندھی لینگویج کے استاد ہیں، کسی اور مضمون کے بارے میں سوالات نہ کیے جائیں۔ مظہر عباس کا مدعا تھا کہ کمیشن کی ناقص کارکردگی سے پورا معاشرہ متاثر ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پولیس آرڈر 2002کو اچانک ختم کرنے کی وجہ پولیس کے نظام میں شفافیت اور عوامی نگرانی کے نظام کو ختم کرنا تھا۔ مظہر کا یہ مؤقف بھی تھا کہ صوبہ سندھ میں میرٹ کے اصول کو فراموش کرنے سے صوبے کا مجموعی طور پر بڑا نقصان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے میں معیاری تعلیمی ادارے قائم نہیں ہوسکے۔
سیاسی علوم کے ماہر اور ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی SZabish کے ڈین ڈاکٹر ریاض شیخ کا مؤقف تھا کہ تعلیمی معیارگرنے کی وجہ سے جاب مارکیٹ خالی پڑی ہے۔ ایچ ای سی کی فعال کارکن آسیہ سعدیہ بلوچ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کے نوجوانوں میں فرسٹریشن کی بنیادی وجہ صوبے میں میرٹ کے اصول کو پس پشت ڈالنا ہے، وہ کہتی ہیں کہ پورے ملک میں ایک ہی نظامِ تعلیم ہونا چاہیے۔
کئی شرکاء کا یہ مؤقف تھا کہ کمیشن ہر امیدوار کو اس کی امتحانی نشان زدہ کاپیوں تک رسائی فراہم کرے اور زبانی امتحان کی آڈیو وڈیو ریکارڈنگ ویب سائٹ پر وائرل کی جائے۔ اسی طرحAn Official Answer Keys کو افشاء کیا جائے اور کسی اور ادارے سے امتحانی کاپیوں اور زبانی امتحان کے نتائج کی جانچ پڑتال کروائی جائے۔ یہ بھی تجویز سامنے آئی کہ کسی امیدوارکی شکایت کی سماعت کے لیے شفاف طریقہ کار واضح ہونا چاہیے۔
اس یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ جب تک تمام شکایات کی سماعت نہ ہوجائے اور کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت عرضداشتوں کے فیصلے نہ آجائیں اس وقت تک کامیاب امیدواروں کی فہرست کا اجراء نہ کیا جائے۔ اس تقریب کے شرکاء کا متفقہ مطالبہ تھا کہ کمیشن کے چیئرمین اور اراکین ہر سال اپنے اثاثے ظاہرکریں اور ان اثاثوں کے بارے میں ایف بی آر اور ایف آئی اے آزادانہ تحقیقات کرے۔
سندھ پبلک سروس کمیشن 1973میں قائم ہوا۔ یہ کمیشن کی ساکھ پہلے 10 برسوں میں خاصی بہتر تھی مگر پیپلز پارٹی کے ادوار میں کمیشن کی کارکردگی متاثر ہونے لگی۔ 2008سے جب پیپلز پارٹی وفاق اور صوبہ سندھ میں اقتدار میں آئی تو کمیشن کی ساکھ گرنا شروع ہوئی۔ گزشتہ 14 برسوں میں سندھ ہائی کورٹ نے کمیشن کی ناقص کارکردگی اور کمیشن کے امتحانات میں دھاندلیوں کے خلاف عرض داشتوں پر فیصلے سناتے ہوئے کمیشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔
اس وقت سندھ پبلک سروس کمیشن کو ایک خود مختار جدید ادارہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے قانون میں ترمیم کی جائے۔ نئے قانون کے تحت کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کے تقرر کے سندھ اسمبلی کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا اتفاق لازمی قرار دیا جائے۔ کمیشن کی رپورٹ سالانہ سندھ اسمبلی میں پیش ہونی چاہیے۔
نئے قانون کے تحت سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو پابند ہونا چاہیے کہ کمیشن کی رپورٹ پر بحث کے لیے کم از کم 5 دن مقرر کریں۔ اس کارروائی سے پہلے عوام سے شکایات طلب کی جائیں اور کمیشن کے چیئرمین ان شکایات پر اپنی رائے پیش کریں۔ کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کو کمیشن کی کارکردگی کی رپورٹ کے ساتھ اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے پیش کرنی چاہئیں۔ کمیشن کو مکمل طور پر خود مختار ہونا چاہیے۔ اس خود مختاری میں معاشی خود مختاری بھی شامل ہونی چاہیے۔ کمیشن کے فرسودہ امتحانی نظام کو ختم ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ پبلک سروس کمیشن کمیشن کی کارکردگی کمیشن کے چیئرمین سندھ ہائی کورٹ ہونا چاہیے اور کمیشن کہ کمیشن کے لیے کہا کہ تھا کہ
پڑھیں:
مسابقتی کمیشن کی اسٹیل سیکٹر کو درپیش چیلنجز اور پالیسی خلا کی نشاندہی
—فائل فوٹومسابقتی کمیشن نے اسٹیل سیکٹر میں کمپٹیشن کی صورتِ حال پر رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ میں اسٹیل سیکٹر کو درپیش مسابقتی چیلنجز اور پالیسی خلا کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قومی اسٹیل پالیسی نہ ہونے سے صنعت غیریقینی اور بےضابطگیوں کا شکار ہے۔
مسابقتی کمیشن کی رپورٹ میں چین اور بھارت کی طرز پر اسٹیل کی علیحدہ وزارت بنانے کی بھی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل اسکریپ کی درآمد 2.7 ملین میٹرک ٹن، مقامی پیداوار 8.4 ملین میٹرک ٹن رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل 2015 سے غیرفعال ہے اور 400 ارب روپے کے واجبات کا بوجھ ہے، اسٹیل کی 60 فیصد پیداوار غیرمعیاری ہے۔ سابق فاٹا/پاٹا سے بغیر ٹیکس اسٹیل کی منتقلی سے 40 ارب کا نقصان ہوا۔
مسابقتی کمیشن کی رپورٹ میں ٹیکس اصلاحات، معیار کے نفاذ، گرین ٹیکنالوجی اپنانے کی سفارش اور اسٹیل سیکٹر میں شفاف اور پائیدار اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔