جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: محفل کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ قرآن مجید کا عملی پیکر ہے۔ قرآن ہی وہ منشور ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعر و ادب میں قرآنی روح جھلکنی چاہیئے، تاکہ یہ محض الفاظ کا کھیل نہ رہے بلکہ نسلوں کی رہنمائی کرے۔ انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت نقل کی کہ جو ہماری شان میں ایک شعر کہے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر عطا فرماتا ہے۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو  
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد
اسلام ٹائمز۔ جامعۃ النجف سکردو میں ولادت باسعادت حضرت ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناسبت سے نہایت شایانِ شان جشن صادقینؑ اور پررونق محفل مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ اس پرنور محفل میں علم و ادب کی خوشبو، تلاوت و منقبت کی صدائیں اور معرفت و عقیدت کے رنگ ایک ساتھ سمٹ آئے۔ تقریب کی صدارت جامعہ کے پرنسپل جید عالم دین اور مترجم حجت الاسلام شیخ محمد علی توحیدی نے کی، جبکہ مہمانِ خصوصی کے طور پر معروف محقق اور مصنف حجت الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی شریک ہوئے۔ تقریب کا آغاز گروہ قراء جامعۃ النجف کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جس نے سامعین کے دلوں کو منور کر دیا۔ اس کے بعد نعتِ رسولِ مقبولؐ مولانا معراج مدبری اور ہمنوا نے عقیدت و محبت کے ساتھ پیش کی۔ ننھے منقبت خواں عدن عباس اور دیباج عباس نے اپنی معصوم آوازوں میں نذرانۂ عقیدت پیش کرکے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ مشاعرے کے سلسلے میں ایک کے بعد ایک خوشبو بکھیرتے شعراء کرام نے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔جامعہ کے فارغ التحصیل اور معروف شاعر مولانا زہیر کربلائی نے اپنے معیاری اور پُراثر کلام سے داد تحسین وصول کی۔ طالب علم عقیل احمد بیگ نے بلتی زبان میں قصیدہ پڑھ کر سامعین کو ایک روحانی کیفیت سے ہمکنار کیا۔ نوجوان شاعر عاشق ظفر نے بارگاہِ رسالت میں معرفت سے بھرپور اشعار پیش کیے۔ معروف قصیدہ خواں مبشر بلتستانی نے بلتی قصیدہ سادہ مگر پرخلوص لہجے میں سنایا۔ رثائی ادب کے شناسا اور نوحہ نگاری کی دنیا کے معتبر نام عارف سحاب نے بھی اپنے پُراثر اشعار کے ذریعے محفل کو رنگین بنایا۔ جامعہ کے ہونہار طالب علم محمد افضل ذاکری نے بارگاہِ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا میں منقبت پیش کی۔ شاعرِ چہار زبان سید سجاد اطہر موسوی نے معرفت آمیز اشعار پیش کیے جنہیں سامعین نے بےحد سراہا۔ محفل کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ قرآن مجید کا عملی پیکر ہے۔ قرآن ہی وہ منشور ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعر و ادب میں قرآنی روح جھلکنی چاہیئے، تاکہ یہ محض الفاظ کا کھیل نہ رہے بلکہ نسلوں کی رہنمائی کرے۔ انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت نقل کی کہ جو ہماری شان میں ایک شعر کہے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر عطا فرماتا ہے۔
صدرِ محفل شیخ محمد علی توحیدی نے آخر میں اپنے عمیق اور ادبی اشعار کے ذریعے محفل کو معرفت کے ایک اور جہان میں داخل کر دیا۔ انہوں نے تمام شرکاء اور شعراء کرام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ محافل نہ صرف جشن ولادت ہیں بلکہ ایک تعلیمی اور فکری نشست بھی ہیں۔ اختتام پر جامعہ کے فارغ التحصیل مولانا سید امتیاز حسینی نے دعائے امام زمانہ علیہ السلام کی سعادت حاصل کی، جس کے ساتھ یہ پرنور محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس عظیم الشان تقریب کے نظامت کے فرائض اردو اور بلتی زبان کے معروف شاعر و استاد جامعہ شیخ محمد اشرف مظہر نے انجام دیئے، جنہوں نے اپنے شایستہ اور پُراثر انداز سے محفل کو مربوط رکھا۔ یہ محفل، جس میں علم و ادب، نعت و منقبت اور معرفت و عقیدت کے سب رنگ جلوہ گر تھے، سکردو کی علمی و ثقافتی فضا میں ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہوئی۔.
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محفل مشاعرہ کا عظیم الشان انعقاد جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین علیہ السلام کی اللہ علیہ جامعہ کے انہوں نے نے اپنے محفل کو میں ایک کے لیے کہا کہ پیش کی
پڑھیں:
رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
اُردو ادب کے ایسے شعرائے کرام جنھوں نے اپنی بساط و توفیق کے مطابق صنفِ نعت کو نئی نئی جہات سے دیکھا اور نئے نئے تجربات سے نکھارا، اُن میں پاکستان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم بھی شامل ہیں، جو آٹھ جولائی 1931 میرٹھ ، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور ہے۔
ان کو ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادبی ماحول وراثت ملا۔ ان کے نانا ادیب میرٹھی اپنے وقت کے معروف شاعر یزدانی میرٹھی کے شاگرد تھے۔ وہ صاحبِ دیوان غزل گو شاعر تھے۔ اقبال عظیم کے دادا سید فضل عظیم فضلؔ، اُردو اور فارسی زبان کے نعت گو شاعر تھے۔
اُن کے والد سید مقبول عظیم عرشؔ پولیس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ وہ بھی اُردو کے بہترین غزل گو شاعر تھے۔ ان کے برادر بزرگ سید وقار عظیم برصغیر کے بلند مرتبہ تنقید نگار اور ماہرِ تعلیم اور درجنوں تصانیف کے مصنف تھے۔
اقبال عظیم کا نام علمی و ادبی دنیا میں اہم ہے۔ ادبی دنیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے نظم و نثر میں طبع آزمائی کی اور کئی فن پارے تخلیق کیے اب تک اُن کے کئی شعری مجموعے اور نثرکی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن میں مشرقی بنگال میں اُردو ( لسانی وا دبی تذکرہ)، مضراب (غزلوں کا پہلا مجموعہ)، مضراب و رباب (غزلوں کا دوسرا مجموعہ)، لب کشا (نعتیں اور غزلیں)، نادیدہ (غزلیں)، چراغِ آخرِ شب، ماحصل ( کلیاتِ غزل)، اقبال عظیم (حیات و ادبی خدمات)، قاب قوسین ( نعتوں کا مجموعہ)، پیکرِ نور، زبورِ حرم قابلِ ذکر ہیں۔
ان کا تعلق شاعری کی کلاسیکی روایت سے تھا جب کہ انھوں نے نعت گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ وہ اپنی نعتوں میں عمدہ خیالات، حسین تراکیب، نادر الفاظ، نایاب تشبیہات اور اچھوتے استعارات کا بہترین استعمال کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
اقبال عظیم نعتیہ شاعری کی دنیا میں ایک خوشبو کی مانند تھے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں بہت سی احادیثِ مبارکہ کا مفہوم بھی بیان کیا ہے اور قرآنی تلمیحات کے پہلو بہ پہلو احادیث کے اشارے بھی ان کے نعتیہ کلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔
اقبال عظیم اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے اور دنیائے غزل میں ایک مسلمہ حیثیت کے حامل بھی تھے لیکن نعت گوئی یعنی حضورؐ کی محبت ان سارے معاملات میں سبقت لے گئی اور وہ حضورؐ کی محبت میں سرشار و مخمور زندگی کے آخری ایام تک مدحتِ سرکارِ دور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گاتے رہے۔
’’ ماحصل‘‘ یہ اقبال عظیم کا ’’ کلیاتِ غزل‘‘ ہے، جس کے پہلے ایڈیشن میں حمد، مناجات ، قطعات، نعتیں اور غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کلیات کو بزم خدام الاادب نئی دہلی سے شایع کیا گیا۔
’’رنگ ادب‘‘ کے اقبال عظیم نمبر میں اقبال عظیم بہ حیثیت غزل گو حصے میں اجازت طلبی، اجازت نامہ خطوط کے بعد پہلا مضمون پروفیسر نظیر صدیقی کا پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں وہ اقبال عظیم کی غزل گوئی کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ اقبال عظیم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں، وہ غزل اور شاعری کے فنی اور جمالیاتی مطالبات کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں۔
اپنی شاعری میں انھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ وطن کے المیے کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور اس موضوع پر جتنے خوبصورت اور موثر شعر کہے ہیں، اس کی مثال موجودہ پاکستانی شاعری میں کم ملے گی اور مشکل سے ملے گی۔
غالباَ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’مضراب‘‘ فکر وفن دونوں کے اعتبار سے اُردو شاعری کے سرمائے میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔‘‘ جب کہ پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سید محمد ابو الخیرکشفی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلیم احمد، جسٹس نور العارفین، ابوالبیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، نسیمِ سحر، روبینہ شاد و دیگر اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔
ان کی غزلوں کے بہت سے اشعار میں متصوفانہ افکار کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال عظیم ایک صوفی شاعر تھے۔
رنگِ ادب کے اس خاص شمارے میں اقبال عظیم بہ حیثیت نعت گو حصے میں صفحہ نمبر ۱۳۵ پر اقبال عظیم کا مضمون ’’ سخن گسترانہ‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے جب کہ دیگر قلم کاروں میں نا صر حیات، ابو الاثر حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی، احسان دانش، اے کے سومار، سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر علی حیدر ملک، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، اکرم کنجاہی، نسیمِ سحر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور مجھ خاکسار سمیت بہت سے قلم کاروں کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔
’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون بعنوان ’’ بینائی سے محروم اور بصیرت سے سرفراز شاعر اقبال عظیم‘‘ ، ابنِ انشاء کا ’’دخل در معقولات‘‘، مولانا ماہر القادری کا ’’ اقبال ہماری نظر میں‘‘ جس میں وہ صفحہ نمبر ۲۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال عظیم پر شعر کا نزول نہیں ہوتا یعنی جسے ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ خیال، جذبہ یا احساس پہلے ان کے وجود کا مکمل جز بن جائے۔‘‘ محمد طفیل کی ’’کچھ باتیں اقبال عظیم کے بارے میں‘‘ یہ مضمون پڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے۔
’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر ساجد امجد، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر عنبر عابد، مولانا محی الدین انصاری ودیگر کے مضامین شاملِ اشاعت ہیں جب کہ ایس اے مینائی، انوار عنایت اللہ کے انگریزی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔
رنگِ ادب کے ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ کے صفحہ نمبر337 پر خطوط اور پیغام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کمال الدین ظفر، سعید صدیقی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، فضل الرحمن، ابوالخیر کشفی اور سید ثروت ضحی کے خطوط اور پیغامات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ تحسین بھی اقبال عظیم کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ سہیل غازی پوری کے دواشعار:
نعت گوئی میں جو مشہور تھے اقبال عظیم
ہاں! غزل سے بھی کہاں دور تھے اقبال عظیم
ان کی آنکھوں میں بصارت کی کمی تھی لیکن
یہ بھی سچ ہے دلِ پُرنور تھے اقبال عظیم
’’رنگِ ادب‘‘ کے اس خاص اور تاریخی کارنامے میں ’’ اقبال عظیم کی نگارشات نثری اور شعری دونوں کو آخری چند صفحات میں شامل کیا گیا ہیں۔ رنگ ادب کا ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ موجودہ اور آنیوالے صدیوں تک اقبال عظیم پر تخلیقی جہتوں سے سراب ہونیوالے اہلِ علم و ادب، شائقین وقارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ تشنگانِ علم اور طالبانِ ادب اور محققین کے بھی کام آتا رہے گا۔
’’رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر ‘‘خوبصورت سر ورق کے ساتھ368 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم جلد میں شاعر علی شاعر کو اپنے ادارے رنگِ ادب سے شایع کرنے کا اعزاز حاصل ہُوا ہے، ایسے بہت سے اعزازات کے وہ پہلے بھی حق دار قرار پا چکے ہیں۔
آخر میں جاتے ہوئے میں رنگِ ادب کی تمام ٹیم اور اقبال عظیم کے فرزند شاہین اقبال کو اس خوبصورت اشاعت پر ڈھیروں مبارکباد کے گلدستے پیش کرتا ہوں۔