WE News:
2025-09-19@08:58:43 GMT

پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا اسٹریٹجک معاہدہ کئی اعتبار سے غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے جس کے اثرات پر دنیا بھر میں بحث ہورہی ہے۔

مسلم دنیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اسے خاص توجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی اس پر کئی ممالک کا ردعمل محتاط ہے، بھارت نے کھل کر تبصرہ نہیں کیا، امریکی بھی صورتحال کا جائزہ ہی لے رہے ہیں۔ ایرانی ردعمل ممکن ہے اعلانیہ سامنے نہ آئے، مگر بہرحال تہران میں بھی اس پیشرفت کا گہرائی سے تجزیہ ہورہا ہوگا۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے البتہ اس میں خاصا کچھ ہے، بہت دلچسپ، اہم اور غیر متوقع۔

یہ معاہدہ ایک بڑا سرپرائز ثابت ہوا

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے نے ہر ایک کو چونکا دیا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے سرپرائز ثابت ہوا۔ کسی بھی بڑے اخبار، تھنک ٹینک، تجزیہ کار یا عالمی انٹیلی جنس ایجنسی نے اس قسم کے معاہدے کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔ کہیں پر ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملا۔ یہ بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب میں امریکی اثرورسوخ موجود ہے اور یہاں سے اتنی اہم خبر لیک ہونے کے قوی امکانات موجود تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدے پر ایک سال سے کام ہورہا تھا۔ ممکن ہے ایک سال نہ ہو، پھر بھی ظاہر ہے 5، 7 دن میں تو یہ نہیں ہوا، اس پر اور کچھ نہیں تو کئی ماہ کی ورکنگ ضرور ہوئی۔ ایران-اسرائیل جنگ نے بھی اس تصور کو مضبوطی بخشی ہوگی، قوی امکانات یہی ہیں کہ اسرائیل کے قطر پر حملے نے معاملے کو فیصلہ کن پوزیشن دی اور پھر ایک ہفتے کے اندر ہی یہ بڑی ڈیل ہوگئی۔ اسے مگر جس پروفیشنل اور میچور انداز میں خفیہ رکھا گیا، یہ قابل تحسین اور قابل داد ہے۔

معاہدے سے پاکستان کا قد بلند ہوا

یہ معاہدہ 2 دوست ممالک کے درمیان ہوا اورجو مرکزی شق سب کے سامنے لائی گئی، وہ یہی ہے کہ مشترکہ دفاع ہوگا، ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور ہوگا۔ اس اعتبار سے تو پاکستان پر حملے کی صورت میں سعودی عرب کی جانب سے فوجی اور ہر قسم کی مدد متوقع ہوگی یا ہونی چاہیے۔ تاہم ہر جگہ تجزیہ کار اسے دوسرے زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔

زلمے خلیل زاد اور بعض دیگر تجزیہ کاروں نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ لگتا ہے سعودی عرب پاکستان کی نیوکلیئر چھتری کے نیچے آرہا ہے۔ بیشتر جگہوں پر ایسا تاثر لیا گیا جیسے دفاعی اور عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور اور مضبوط پاکستان نے اپنے ایک دیرینہ قریبی دوست ملک کو اپنے تحفظ میں لے لیا ہے۔ اس سے پاکستان کا قد زیادہ بلند ہوا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اور خارجہ امور کے تجزیہ کار مشاہد حسین کا تو خیال ہے کہ پاکستان نے خاموشی سے عرب دنیا کی حفاظت سے مغرب کو نکال کر خود جگہ لے لی ہے۔ ہر جگہ عمومی تاثر یہی ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کی خاطر پاکستان سے یہ معاہدہ کیا ہے۔

کیا معاہدے میں نیوکلیئر ڈیٹرنس کی بات کی گئی ہے؟

یہ بہت اہم نکتہ ہے اور مغربی، بھارتی حکام اور تجزیہ کار اس پر فوکس کر رہے ہیں۔ابھی تک تو ایسی کوئی بات اس معاہدے میں سامنے نہیں آئی۔ بظاہر ایسی کوئی گارنٹی بھی نہیں دی گئی ہے البتہ تجزیہ کار اسے قرین قیاس سمجھ رہے ہیں۔

بی بی سی نے ایک بھارتی تجزیہ کار اور محققہ رابعہ اختر کی رائے نقل کی جن کے مطابق، ‘اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان باضابطہ طور پر سعودی عرب کو جوہری تحفظ دے گا، مگر اس معاملے میں ابہام ہی سعودی مقاصد کو پورا کرسکتا ہے’

صدر ٹرمپ کے سابق دور میں افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹوئیٹ میں دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’کیا اس معاہدے میں خفیہ شرائط ہیں؟ اگر ہیں تو وہ کیا ہیں؟ کیا یہ معاہدہ سعودی عرب اورشاید دوسروں کی امریکی ڈیٹرنس اور دفاع پر اعتماد میں کمی کا اشارہ ہے؟ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار اور ترسیل کا نظام ہے جو اسرائیل سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے؟ یہ ایسے (میزائل) نظام بھی تیار کررہا ہے جو امریکا میں اہداف تک پہنچ سکتا ہے، سوالات بہت سے ہیں۔۔۔۔۔۔۔’

بھارت اسے کیسے دیکھ رہا ہے؟

بھارت کا ابتدائی ردعمل تو محتاط رہا ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس پر بہت احتیاط سے بیان دیا ہے۔ رندھیر جیسوال کے مطابق ‘ہم اس پیشرفت کے اپنی قومی سلامتی اور بین الاقوامی استحکام پر مضمرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حکومت قومی مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔’

تاہم بھارتی تشویش چھپائے نہیں چھپ رہی، وہاں کئی دفاعی تجزیہ کاروں، صحافیوں اور فعال سیاسی کارکنوں نے اس پر تشویش ظاہر کی ہے، کانگریس کے بعض رہنمائوں نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بھارتی اثرورسوخ میں کمی آئی ہے۔

یہ واضح ہے کہ اس معاہدے سے بھارت خوش نہیں ہوگا کیونکہ پاک سعودی عرب تعلقات نہ صرف زیادہ مضبوط، گہرے اور مستحکم ہوئے ہیں بلکہ ان میں وسعت اور گہرائی آئی ہے۔

بی بی سی نے اسٹریٹجک امور کے ایک ماہر بھارتی برہما چیلانی کا تبصرہ نقل کیا، جس کے مطابق، ‘ریاض جانتا تھا کہ بھارت سعودی عرب اور پاکستان کے اس معاہدے کو اپنی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ تصور کرے گا، اس کے باوجود سعودی عرب نے یہ معاہدہ کیا‘۔

کیا پاکستان سعودی عرب کو نیوکلیئرڈیٹرنس فراہم کرسکتا ہے؟

کئی ممتاز مغربی تجزیہ کار اور عسکری ماہر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس معقول تعداد میں نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں اور ایسے لانگ رینج تیز رفتار میزائل بھی جو 3 ہزار کلومیٹر تک مار کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا میزائل شاہین تھری نیوکلیئر وارہیڈ لے جانے والا میزائل تصور ہوتا ہے، یہ ہائپر سونک میزائل ہے اور اس کی رفتار 8 سے 10 میک تک بتائی جاتی ہے۔

پہلے تاثر یہ تھا کہ اس کی رینج 2700 کلومیٹر تک ہے، مگر مغربی عسکری حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے دانستہ طور پر اس کی رینج کم بتائی ہے، ورنہ یہ آسانی سے 3300 سے 3500 کلومیٹر تک مار کرسکتا ہے، یاد رہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب پاکستان سے 3200 کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔

پاکستان نے چند سال قبل یمن کے خلاف جنگ کے لیے سعودی عرب کی درخواست مسترد کردی تھی، تاہم پاکستان ایک نکتے پر طویل عرصے سے یکسو ہے اور جو بھی حکمران آیا، وہ اس پر متفق رہا ہے کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے پاکستانی افواج کو سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے اگر سعودی عرب پر ممکنہ اسرائیلی حملے کی بات ہو تو پاکستان کھل کر سعودی عرب کے ساتھ جائے گا اور پھر اس تعاون کی کوئی حد نہیں ہوگی کہ حرمین شریفین کا تحفظ اور محافظ الحرمین کہلانا پاکستان اور پاکستانی افواج، لیڈروں، کمانڈروں کے لیے بہت جذباتی معاملہ ہے۔ البتہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر کرانے کی کوشش کرے گا اور یوں یمن کا بحران شاید ختم ہی ہوجائے۔

کیا اس معاہدے میں مزید ممالک شامل ہوسکتے ہیں؟

عرب تجزیہ کار اس جانب اشارہ کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے پہل کی ہے اور ایک طرح سے یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور شاید عمان بھی پاکستان کے ساتھ اسی نوعیت کے معاہدے کا حصہ بن جائیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ ایسا عجلت میں ہو، ابھی تو ہر ملک یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ امریکا اس پر کیا ردعمل دیتا ہے؟ کیا خبر ایک اور دفاعی معاہدہ کئی مسلم ممالک مل کر کریں جن میں یہ عرب ممالک پاکستان اور ترکیہ شامل ہوں۔

کیا امریکا اسے یوں برداشت کر لے گا؟

یہ بہت اہم سوال ہے۔ امریکا یہ تو قطعی طور پر برداشت نہیں کرے گا کہ اتنا بڑا ریجنل شفٹ آجائے اور عرب ممالک امریکی ڈیٹرنس سے نکل کر پاکستان کو اپنا محافظ بنا لیں۔ امریکا اس سے بھی خوفزدہ ہوگا کہ کیا یہ سب کچھ ان عرب ممالک کو چینی بلاک میں لے جانے کے لیے تو نہیں ہورہا؟ وائٹ ہاؤس اعلانیہ طور پر جو بھی کہے، امریکی اس پیشرفت کو پسند نہیں کریں گے، پاکستان پر امریکی دباؤ بھی آئے گا، بہت سی سازشیں بھی ہوں گی اور کئی ایسے مدعے اور معاملات اچھالے جائیں گے جن کی طرف پہلے امریکا توجہ نہیں دے رہا تھا۔ پاکستانی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور منصوبہ سازوں کو بڑی ہمت، استقامت اور فراست سے یہ سب کچھ ڈیل کرنا ہوگا۔

ویسے امکان تو ہے کہ سعودی عرب بیلنس کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کی امریکا میں سرمایہ کاری کم نہیں ہوگی، وہ چین سے اسلحہ لینے کی بھی فوری کوشش نہیں کرے گا اور بظاہر امریکا اور یورپ کو یقین دلائے گا کہ پاک سعودی عرب مشترکہ دفاع ایگریمنٹ سے مغرب کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تاہم جو درپردہ مخالفت ہونی ہے، وہ تو ہوگی۔ ہمیں یہ سب کچھ فیس کرنا ہی پڑے گا۔

پاک سعودی عرب تعاون کی کیا صورتیں نکل سکتی ہیں؟

سب سے زیادہ امکانات تو یہ ہیں کہ پاکستان اسلحے کے حوالے سے بڑی پیشرفت کرسکتا ہے۔ جدید ترین میزائلوں کی تیاری پر کام تیز ہوجائے گا۔ پاکستان اب بڑی تعداد میں ہائپر سونک بیلسٹک میزائلوں اور تیز رفتار خطرناک ڈرون بنانے کی کوشش کرے گا۔ سعودی مالی مدد اور سپورٹ سے پاکستان کی عسکری قوت اور سازوسامان کے ساتھ جدید اسلحے کے حصول اور خود کفالت میں خاصا اضافہ ہوگا۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مزید پاکستانی دستے سعودی عرب جائیں، سعودی فوج کی تربیت وغیرہ میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے یہ اب پاکستانی فضائی اور نیوی دستے بھی زیادہ تعداد میں سعودی عرب جائیں اور ان کی کیپیسٹی بلڈنگ کی کوشش کریں۔

پاکستان میں سعودی انویسٹمنٹ میں بھی خاصا اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ امکانات ہیں کہ سعودی عرب پاکستان میں مزید چند ارب ڈالر اگلے 3 یا 5 سالوں یا زیادہ عرصے کے لیے پارک کردے تاکہ پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہو۔ پاک سعودی عرب معاہدے سے یہ سب کچھ اب ممکن لگ رہا ہے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر کیا اثر پڑے گا؟

یہ معاہدہ اپنے جلو میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے لیے بے پناہ قوت، اعتماد اور تسلسل کی ضمانت لے کر آرہا ہے۔ یہ اتنی بڑی کامیابی ہے جس کا پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ چند ماہ پہلے تک تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ مئی کی پاک بھارت جنگ سے شروع ہونے والا یہ سفر پاکستان کو تیزی سے اوپر لے جارہا ہے۔

غیرمشروط سعودی حمایت مل جانے سے معیشت کو بھی سہارا ملے گا، کرنسی بھی مضبوط ہوگی، براہ راست سرمایہ کاری ہوگی اور سیاسی طور پر بھی بڑی حمایت میسر ہوگی۔ اپوزیشن خاص کر تحریک انصاف کے پاس اسپیس بہت کم ہوگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر انصافین حامی اس پر سخت ناخوش اور کسی قدر برہم نظر آرہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ اینٹی تحریک انصاف موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور بنا رہا ہے۔

بظاہر تو تحریک انصاف کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ عمران خان کے پاس کسی بہتر ڈیل کے امکانات اب نہیں رہے۔ اب صرف ایک ہی صورت میں ڈیل ہوسکتی ہے کہ اگلے 2، 3 برسوں کے لیے اسی سسٹم کو ہر حال میں چلتے دینا ہوگا۔ سڑکوں پر نکلنے اور حکومت گرانے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی۔ اگر اس شرط کو قبول کرلیا گیا تو ممکن ہے عمران خان کے لیے اگلے ایک، 2 ماہ میں امکانات کی ایک چھوٹی سی کھڑکی کھل جائے۔ تاہم یہ موقع بھی ضائع ہوگیا تو پھر 2، 3 برس تک خان صاحب کے باہر آنے کے امکانات نہیں رہیں گے۔

امکانات اور چیلنجز دونوں ایک ساتھ آئے ہیں

زیادہ تر لوگ اس معاہدے کو سعودی عرب کی جانب سے متوقع مالی امداد کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ انداز فکر درست نہیں اور اس میں بھکاری سوچ کی جھلک ملتی ہے۔ پاکستان کو باوقار انداز میں معاملات آگے بڑھانے چاہییں۔ یہ معاہدہ ہمارے اوپر کسی کا احسان نہیں بلکہ ہم نے اپنے اوپر کئی نئی ذمہ داریاں، چیلنجز لیے ہیں اور اپنے لیے ممکنہ مخالفوں اور دشمنوں کا اضافہ کیا ہے۔

پاکستان کے لیے اب بہت سے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ امریکا کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی یاد آئیں گی اور ممکن ہے صدر ٹرمپ مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان پر تجارتی ٹیرف وغیرہ بھی لگانا چاہے۔ موساد، را اور سی آئی اے وغیرہ کی سازشوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس سب کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں ناکام بنانا پڑے گا۔ پاکستان کے لیے نئے بڑے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو چیلنجز اور ذمہ داریاں بھی بہت بڑی ہیں۔ اللہ پاکستان کی مدد کرے اور ہمیں ہر میدان میں سرخرو فرمائے، آمین۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاک سعودی عرب کہ سعودی عرب تجزیہ کار اس پاکستان اور سے پاکستان کہ پاکستان اضافہ ہوگا معاہدے میں پاکستان کے پاکستان نے یہ معاہدہ اس معاہدے کرسکتا ہے رہا ہے کہ یہ سب کچھ ا رہا ہے میں بھی ممکن ہے رہے ہیں کی کوشش کے ساتھ کے پاس گا اور کے لیے اور اس ہیں کہ کہ پاک کرے گا ہے اور

پڑھیں:

جب پاکستان اور سعودیہ عرب دونوں اکٹھے ہو گئے تو یہ ایک ورلڈ سپرپاور تصور ہوں گے، رانا ثنا اللہ

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سینیٹر اور مشیر وزیراعظم رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب میں ایک تاریخی معاہدہ ہوا ہے   معاہدہ  عالم اسلام کا سینکڑوں سال کا خواب تھا، یہ صرف ایک معاہدہ نہیں بہت بڑی تاریخی کامیابی ہے،  یہ مسلم امہ کی امید اور حسرت تھی، یہ عالم اسلام کے اتحادکی بنیادہے،  یہ ایک معاہدہ نہیں، بہت بڑی تاریخی کامیابی ہے۔

 سماء نیوز کے پروگرام ’ ندیم ملک لائیو‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہناتھا کہ مستقبل  میں مسلم امہ اس اتحاد کا حصہ ہو گی، وقت آئے گا کسی بھی مسلمان پر ظلم تمام مسلمان ملکوں پر حملہ تصور ہو گا، سعودی عرب کے اوپر حملہ ہم پر حملہ ہو گا، کہا جاتا تھا سعودیہ پر امریکہ کا بہت اثرو رسوخ ہے، پاکستان کی جوہری طاقت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا، ہمیں معاشی مسائل ہیں،سعودیہ معاشی پاورہے، جب دونوں اکٹھے ہو گئے تو یہ ایک ورلڈ سپرپاور تصور ہوں گے۔

حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو ہماری بار ایسوسی ایشنز کو اتنا مضبوط اور متحد ہونا چاہئے کہ ملک و ملت کے مفادات کیخلاف کام کرنیوالی حکومتوں کا محاسبہ کر سکیں 

انہوں نے کہا کہ  جس مسلمان ملک پر جارحیت ہو گی تو یہ ورلڈ سپر پاورنوٹس لے گی ،مدد کرے گی،کچھ راز کی باتیں سرعام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہتھیاروں سے متعلق ہماری قابلیت پوری دنیا نے دیکھی، افغانستان سے دہشتگردی سے متعلق سعودی عرب سے بات کریں گے، دہشتگردی پاکستان پر حملہ ہے تو سعودی عرب پر بھی حملہ تصور ہو گا، سعودی عرب کا تمام مسلم ممالک میں احترام ہے،معاہدے پر پوری طرح کام ہو گا، اس معاہدے سے پاکستان کو بہت سے مواقع ملیں گے۔ 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بڑی چیز ہے،پاکستان پر خطرات تو ہمیشہ سے رہے مگر اب مزید بڑھ گئے ہیں،اسد عمر
  • پاکستان‘ سعودی عرب معاہدہ‘ دونوں کو اسلامی دنیا کی قیادت کرنی چاہئے: فضل الرحمن
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ
  • جب پاکستان اور سعودیہ عرب دونوں اکٹھے ہو گئے تو یہ ایک ورلڈ سپرپاور تصور ہوں گے، رانا ثنا اللہ
  • پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے سے بھارت اور اسرائیل میں صف ماتم بھچی ہوئی ہے: مشاہد حسین سید 
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ کسی مخصوص واقعہ کا ردعمل نہیں، سعودی اعلیٰ عہدیدار
  • سعودی عرب اور پاکستان کا دفاعی معاہدہ کسی مخصوص واقعے کا ردِعمل نہیں، اعلیٰ سعودی عہدیدار