امن اور انسانیت دشمن امریکا!
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250920-03-2
غزہ کے علاقے میں محصور، مجبور اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملے پوری شدت سے جاری ہیں۔ درندہ صفت صہیونی فوج نے تازہ حملوں میں غزہ کے 98 فلسطینی شہید کر دیے، 385 فلسطینی زخمی ہو گئے، مسجد شہید اور رہائشی عمارتیں تباہ کر دیں۔ عرب میڈیا کے مطابق صہیونی فوج نے الشفا اسپتال کے قریب بمباری کی جس میں 19 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، اسرائیلی فوج نے ال اہلی اسپتال کے قریب بھی بمباری کی جہاں 4 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا، غزہ شہر میں بمباری سے مسجد سمیت متعدد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ ایک روز میں 98 فلسطینی اسرائیلی فوج کی دہشت گردی کا نشانہ بنے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہداء کی مجموعی تعداد 65 ہزار کا ہندسہ عبور کر گئی۔ مقامی رہائشیوں اور عینی شاہدین کے مطابق درجنوں اسرائیلی ٹینک اور فوجی گاڑیاں غزہ شہر کے ایک بڑے رہائشی علاقے میں داخل ہو گئے ہیں، یہ اسرائیل کی زمینی کارروائی کے دوسرے دن کی پیش رفت ہے جس کا مقصد علاقے پر قبضہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ مزید چار افراد غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار گئے، جس کے بعد اگست کے آخر میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ادارے کی جانب سے غزہ شہر میں قحط کا اعلان کیے جانے کے بعد سے غذائی قلت سے ہونے والی اموات کی کل تعداد 154 ہو گئی ہے۔ غزہ شہر سے سامنے آنے والی ویڈیو فوٹیج میں ٹینک، بلڈوزر اور بکتر بند گاڑیاں شیخ رضوان کے علاقے کے کناروں پر حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ایسے میں مختلف اقدامات ایسے بھی کیے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے علاقے میں اسرائیلی فوج کی پیش قدمی کو چھپایا جا سکے۔ سیودی چلڈرن اور آکسفیم سمیت 20 سے زائد بڑی امدادی تنظیموں کے سربراہان نے خبر دار کیا ہے کہ غزہ کی صورت حال کی غیر انسانی نوعیت ناقابل برداشت ہے۔ دوسری جانب چین اور سعودی عرب نے اسرائیلی فوجی آپریشن میں توسیع کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ایک جانب یہ صورت حال ہے کہ انسانیت سسک رہی ہے اور پوری دنیا کے زندہ ضمیر لوگ اسرائیلی سفاکیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں مگر دوسری جانب امریکا کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرار داد ایک بار پھر ویٹو کر دی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکا نے جنگ کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنایا ہو بلکہ سلامی کونسل میں پیش کی جانے والی غزہ میں جنگ بندی کی یہ چھٹی قرار داد ہے جسے امریکا نے یک طرفہ طور پر ویٹو کیا ہے اور یہ ویٹو اس کیفیت میں کیا گیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ ارکان نے قرار داد کی حمایت میں ووٹ دیا اور قرارداد کی مخالفت میں واحد فیصلہ کن ویٹو ووٹ امریکا کا تھا۔ امریکی ویٹو کے باعث غیر موثر اور مسترد قرار پانے والی اس قرار داد میں غزہ میں فوری طور پر غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقے میں امدادی سامان کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں ختم کرے۔ یہ قرار داد سلامتی کونسل کے 15 میں سے 10 غیر مستقل رکن ممالک نے پیش کی تھی جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ امریکا کے اس اقدام پر کئی ممالک نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی مندوب مورگن اور ٹاگس نے کہا کہ امریکا اس ناقابل قبول قرار داد کو مسترد کرتا ہے اور حماس سے فوری یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ امریکی نمائندے نے نہایت شرمناک طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکا اپنے شراکت داروں سے مل کر اس خونریز تنازعے کے خاتمے کے لیے کام جاری رکھے گا۔ معلوم نہیں سفاک اور درندہ صفت اسرائیل کے علاوہ کون سے شراکت دار ہیں جن سے مل کر امریکا خونریز تنازعے کے خاتمے کا دعویدار ہے جب کہ سامنے کی حقیقت تو یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور دس غیرمستقل ارکان میں سے چودہ نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا اور صرف امریکا نے اس کی مخالفت کی گویا ساری دنیا ایک طرف ہے اور صرف امریکا پوری دنیا کے مقابل کھڑا اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس ساری صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے غزہ میں جنگ بندی کا راستہ روکنے والے امریکا کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے دیگر خطوں میں جنگیں بند کروانے کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتا اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح صدر ٹرمپ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کروانے کا بھی دعوے دار ہے۔ وہ یوکرین اور روس میں جاری جنگ رکوانے کے لیے کوششوں کا کریڈٹ لینے کا بھی شدت سے خواہاں ہے یہی نہیں وہ اپنی اس امن پسندی کے صلہ کا بھی دنیا سے ’’نوبل امن انعام‘‘ کی صورت میں طلب گار ہے اور پاکستان جیسے بعض ممالک معلوم نہیں کن دلائل کی بنیاد پر اس کی غزہ میں مسلمانوں کی خونریزی اور نسل کشی کی سرپرستی جیسے سفاکانہ اور امن دشمن اقدامات کو نظر انداز کر کے اسے ’’نوبل امن انعام‘‘ دیے جانے کی تائید و حمایت پر کمر بستہ ہیں! دریں اثنا اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی کے شکار اہل فلسطین خصوصاً بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’کراچی چلڈرن غزہ مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا مارچ میں شہر بھر سے نجی و سرکاری اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی اور لبیک یا اقصیٰ کے نعرے لگا کر غزہ کے نہتے مظلوم بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، لبیک لبیک اللھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونجتی رہی ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی و جارحیت سے 97 فی صد اسکول اور 90 فی صد اسپتال تباہ کیے جا چکے ہیں، صحافیوں اور نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد پر بمباری کی گئی۔ اقوام متحدہ پوری دنیا میں عضو معطل بن چکی ہے ، اس کی قرار دادوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اسرائیل کو امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جب کہ مسلم دنیا کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں، اب تک 22 ہزار سے زائد بچے شہید اور 42 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، انسانی حقوق کی بات کرنے والا امریکا فلسطین میں انسانیت کے قتل عام کی سرپرستی اور پشت پناہی کر رہا ہے امیر جماعت اسلامی نے چلڈرن مارچ سے خطاب میں بجا طور پر اقوام متحدہ کی بے عملی اور امریکا کی دو عملی کی جانب عالمی ضمیر کو متوجہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ایک جانب عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے مسلسل مختلف سطحوں پر احتجاج منظم کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطین کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں کی عملی مدد کے لیے بھی ’الخدمت‘‘ کے ذریعے ہمہ تن مصروف عمل ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی مسلمانوں کی مدد صرف جماعت اسلامی کی ذمے داری ہے دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں اس معاملہ میں بری الذمہ ہیں؟ کیا غزہ کا جہاد فرض کفایہ ہے کہ صرف جماعت اسلامی کے متحرک ہونے سے دیگر پوری قوم سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا؟؟
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیلی فوج جماعت اسلامی علاقے میں کرتے ہوئے دنیا کے نے والی ہے اور کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تأثر سامنے آ رہا ہے کہ کچھ لوگ نادانستہ اور کچھ لوگ شعوری طور پر مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں کشیدہ صورتحال کے حوالے سے ’وی نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ غزہ کے معاملے پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا جو اجلاس ہوا اُس میں کہا گیا کہ غزہ کی گورننس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اگر فلسطین کے ملٹری ونگ حماس کو آپ ختم کر دیں گے تو فلسطین کی کوئی دفاعی قوّت نہیں رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی ہنگامی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر
انہوں نے کہاکہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان یہودی بستیاں آباد ہیں۔ اب نیا منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں۔ اگر آپ سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے دیکھیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو دفن کیا جا رہا ہے۔
’مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال میں پاکستان کا کردار قابلِ ستائش ہے‘
سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ ستائش رہا ہے اور ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔ پاکستان نے سفارتکاری سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرکے ہوش مندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔
قطر پر حملے سے امریکا کیسے لاعلم تھا؟قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اِس حملے سے کیسے لاعلم تھا جبکہ امریکا اور اسرائیل دونوں اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں، یعنی موساد اور سی آئی اے ایک دوسرے پر نظر رکھتی ہیں۔
’وہ خطے کے باقی ممالک پر نظر تو رکھتے ہی ہیں لیکن ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ قرین قیاس نہیں ہے کہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کا امریکا کو چند منٹ پہلے پتا چلا۔‘
انہوں نے کہاکہ یہ حملہ عالم اِسلام کے لیے بالعموم اور عالمِ عرب کے لئے بالخصوص خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا عالمی نظام تشکیل پا رہا ہے۔ عرب ممالک غزہ اور فلسطین کے معاملے پر بہت محتاط تھے کہ ایک خاص حد سے آگے نہ جائیں کیوں کہ امریکا اُن کی سیکیورٹی کا ضامن تھا۔ لیکن اِس حملے سے جو صورتحال میں بدلاؤ آیا ہے اُس سے لگتا ہے کہ اب اِس خطے میں کوئی قانون نہیں ہوگا۔
کیا عرب ممالک مزاحمت کر سکتے ہیں؟اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80 کی دہائی میں کوشش کی تھی کہ ہمارے پاس کوئی دفاعی قوّت ہونی چاہیے اور اِس مرتبہ پھر اُنہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا کوئی مشترکہ دفاعی نظام ہونا چاہیے لیکن یہ امریکا کے اِس قدر تابع ہیں کہ یہ ایسا کر نہیں پائیں گے، یہ فیصلہ کرنا اُن کے لئے مُشکل ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ اِس پر یہ روس اور چین کی طرف دیکھیں گے۔ ان دونوں ملکوں کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے معاشی تعلقات تو ہیں لیکن دفاعی تعلقات نہیں۔ اب وہ دیکھیں گے کہ امریکا اگر اُن کو سیکیورٹی مہیّا نہیں کرتا تو اُن کے پاس کیا آپشن ہیں۔
مسعود خان نے کہاکہ یہ خلیجی ممالک کوئی عام ریاستیں نہیں، یہ ہزاروں ارب ڈالر کی دولت رکھنے والے ممالک ہیں۔ انہوں نے تین ٹریلین ڈالر کے ساورن ویلتھ فنڈ کے ذریعے امریکا میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ امریکا ہر سال اِن مُلکوں کو سینکڑوں ارب ڈالر کا اسلحہ بیچتا ہے لیکن اُسے جان بوجھ کر اسرائیل کی استعداد سے کم رکھا جاتا ہے۔
’اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا گریٹر اسرائیل کے لیے آیا خلیجی ممالک کو مکمل تباہ کیا جائے گا یا پھر اِن کی سیکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام کیا جائے گا۔‘
’شہباز ٹرمپ ممکنہ ملاقات کا ایجنڈا ٹرمپ جنرل عاصم ملاقات سے اوپر نہیں جا سکتا‘وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہاکہ اِس ملاقات کا ایجنڈا 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان ملاقات کے ایجنڈے سے اوپر نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہاکہ وہ بڑا جامع ایجنڈا تھا اور اُس کو حتمی شکل اسحاق ڈار اور امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں دے دی گئی تھی اور اُس کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں کچھ اچھے فیصلے بھی ہو سکتے ہیں۔
مسعود خان نے کہاکہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کے لیے امریکا کے اُسامہ بن لادن کے خلاف پاکستان میں آپریشن کو جواز بنانا سراسر غلط تھا۔ اُسامہ بن لادن کوئی امریکا کے کہنے پر مذاکرات تو نہیں کر رہا تھا۔
’حماس رہنما خلیل الحیہ قطر میں امریکا کی منشا سے مذاکرات کے لئے آیا تھا، قطر نے بُلایا تھا اور اُس کے ہاتھ میں وہ پرچہ دیا تھا جو امریکا نے دیا تھا کہ یہ شرائط امریکا و اسرائیل دونوں کی طرف سے ہیں۔‘
قطر پر حملے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے فوراً دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہاکہ قطر کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں وہاں ہمارے بہت سارے پاکستانی کام بھی کرتے ہیں اور بڑے اعلیٰ عہدوں پر بھی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اِس کے علاوہ قطر خطے کا مرکز ہے۔ وہ مشرق مغرب کے درمیان، شمال اور جنوب کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ لہٰذا حملے کے فوراً بعد وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ ایک اہم فیصلہ تھا۔ وہ گئے اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ وہ اِسلامی ملک ہے اور ہر مشکل گھڑی میں اُنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی اجلاس: مسلم ممالک نے قطر کو اسرائیل کے خلاف جوابی اقدامات کے لیے تعاون کی یقین دہانی کرادی
’پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے پیچھے بھارت ہے‘پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے۔ گزشتہ برس دہشتگردی میں 4 ہزار لوگ مارے گئے جو کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ ملا ہیبت اللہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور ان دہشتگردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews سابق سفارتکار سابق صدر آزاد کشمیر قطر پر اسرائیلی حملہ گریٹر اسرائیل مسئلہ فلسطین مسعود خان وی نیوز