غزہ جغرافیہ نہیں، ایک چیخ ہے!
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
افتخار گیلانی
قاہرہ سے فلسطین کی غزہ سرحد یعنی رفح کراسنگ تک کا فاصلہ چار سو کلومیٹر ہے ۔ پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت، لیکن یوں لگتا ہے جیسے دو مختلف دنیاؤں کا سفر ہو۔ قاہرہ دریائے نیل، اس کے پلوں اور اہرام کی جھلکیوں کے ساتھ ایسی تہذیب کی یاد دلاتا ہے جو ہزاروں برسوں سے قائم ہے ۔جوں جوں سفر مشرق کی طرف بڑھتا ہے اور گاڑی سینائی کے صحرا میں داخل ہوتی ہے ، منظرنامہ ویران اوردرشت ہو جاتا ہے۔چار گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد العریش شہر کی فلک نما عمارتیں نظر آتی ہیں، جو سینائی کا سب سے بڑا شہر ہے ۔یہاں سڑک بحیرہ ٔروم کی طرف مڑتی ہے اور غزہ کے بحران کا ابتدائی چہرہ سامنے آتا ہے ۔یہاں افق کو پہاڑ یا سمندر نہیں، بلکہ امدادی ٹرکوں کی قطاریں روک لیتی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں حد نگاہ تک تقریباً 44 کلومیٹر لمبی ٹرکوں کی قطار، جن میں آٹا، چاول، دالیں، پھلیاں، بوتلوں میں پانی، دوائیں یعنی وہ سب کچھ موجود ہے جو بھوک سے تڑپتی قوم کو درکار ہے ۔
ڈرائیور اپنے کیبنوں کے پاس مٹی کے تیل کے چولھوں پر بغیر دودھ کی چائے بنارہے ہیں۔ کچھ اپنے ٹرکوں کے نیچے لٹکے جھولوں میں سورہے ہیں۔ ان کی ٹرکوں میں زندگی ہے ، مگر زندگی بھوک سے بے حال زندہ لوگوں کی طرف نہیں بڑھ رہی ہے ۔ وہ ساکت ہے ۔ قدرت کی ستم ظریفی عیاں ہے ۔ رفح کراسنگ کے ایک طرف وافرغذائی اجناس ہیں، دوسری طرف بس چند میٹر کے فاصلے پر بھوک ہے ۔ اسرائیلی ٹینک صاف نظر آرہے ہیں۔دور غزہ کے رفح قصبہ کی کھڑکیوں اور چھتوں پر کھڑے بچوں اور بڑوں کے سوکھے ہوئے ڈھانچے نظر آرہے ہیں۔ جنہوں نے شاید کئی ہفتوں سے نوالے کی صورت نہیں دیکھی ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ پکی ہوئی خوراک کی خوشبو سرحد پار پہنچ رہی ہے ۔ مگر محصور لوگوں کے لیے اس کی اشتہا انگیز خوشبو اذیت سے کم نہیں ہے ۔ ان کی بقا کا دارومدارخوراک کی خوشبوؤں کو سونگھنے پر رہ گیا ہے جس کو وہ چھو نہیں سکتے ہیں، بس سونگھ سکتے ہیں۔
دنیا بھر سے شخصیات غزہ کے محصور باسیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے آرہی ہیں، لیکن رفح کراسنگ سے واپس چلی جاتی ہیں۔ ترکیہ کی حکمراں جماعت آق پارٹی کے حقوق انسانی شعبہ کے نائب چیئرمین حسن بصری یالچن کی قیادت میں 30رکنی پارلیمانی وفد رفح کراسنگ پر اظہار یکجہتی کرنے آیا ہے ۔وہ وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ واپس آئیں گے اور رکاوٹیں پھلانگ کر غزہ کے اندر جائیں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ قطر پر حملہ کرنے سے اسرائیل نے ساتویں ملک پر ہلہ بول دیا ہے ۔وہ کہہ رہے تھے ‘اسرائیل کا سانپ ایک ایک کرکے ہم سب کو ڈس رہا ہے اور ہم بس اپنی باریوں کا انتظار کر رہے ہیں’۔ان کی ٹرکوں میں زندگی ہے ، مگر زندگی بھوک سے بے حال زندہ لوگوں کی طرف نہیں بڑھ رہی ہے ۔ وہ ساکت ہے ۔ غزہ کے اندر قحط جیتی جاگتی حقیقت ہے ۔ ڈھائی ملین کی آبادی کا ایک تہائی حصہ بھوک سے مرنے کا انتظار کر رہا ہے ۔بچے بھوکے پیٹ سوتے ہیں۔ والدین کئی کئی دن کچھ نہیں کھاتے تاکہ بچے آدھی روٹی کھا سکیں۔فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق425 افراد جن میں 130 بچے ہیں، بھوک اور غذائی قلت سے مر چکے ہیں۔
فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادراے کے سربراہ فلپ لزارینی کہتے ہیں کہ ان کی ٹیموں نے جن بچوں کو دیکھا وہ سب لاغر، کمزور اور موت کے قریب ہیں اور فوری علاج کے منتظر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز بھی بھکمری کا شکار ہیں۔ وہ بسا اوقات کام کے دوران بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ان کے مطابق فی الوقت 6,000 امدادی ٹرک اردن اور مصر میں کھڑے ہیں۔مگر اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ ایتھوپیا اور یمن کی طرح یہ قحط خشک سالی یا فصل کی ناکامی کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسانی ہاتھوں کا تھوپا ہوا قحط ہے ۔ مصر کے وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا؛ ‘یہ انجینئرڈ بھوک ہے ‘۔غزہ کے اندر النصر شہر کے رہائشی ابو رمضان بتاتے ہیں؛بھوک ایسی ہے جیسے ہاتھ بندھے ہوں اور دل میں خنجر گھونپا جائے ۔ آپ اپنے بچوں کو روتا دیکھتے ہیں اور انہیں کچھ وعدہ بھی نہیں کر سکتے ۔ امداد کی جگہیں موت کے پھندے ہیں۔ آپ یا تو آٹا لے کر لوٹتے ہیں یا کفن میں لپٹے ہوئے گھرآتے ہیں۔ چار بچوں کی ماں 42 برس کی خدیجہ خضیر کہتی ہیں؛تین دن میں صرف ایک روٹی ملتی ہے ۔ وہ اکثر چولھے پر پانی چڑھا دیتی ہیں تاکہ بچے سمجھیں کھانا پک رہا ہے ۔ گھنٹوں کے انتظار کے بعد وہ بھوکے ہی سوجاتے ہیں۔کبھی کبھار فوجی جہاز امدادی غبارے گراتے ہیں۔ ہزاروں لوگ ان پر جھپٹتے ہیں۔ مگر یہ سامان چند درجن خاندانوں کے لیے ہوتا ہے ۔ غزہ کے صحافی کہتے ہیں یہ امداد نہیں بلکہ ذلت ہے ۔
غزہ کو روزانہ کم از کم 800 ٹرکوں کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل 50 سے 150 ٹرک داخل ہونے دیتا ہے ،یہ سرحد پر تعینات سپاہیوں کے موڈ پر منحصر ہے ۔یہ جہاز خوراک، دوا اور امید سے لدے ہوئے ۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ بھی رفح کے ٹرکوں کی طرح غزہ سے چند میل دور ہی رک جائیں گے ۔العریش شہر اور رفح کراسنگ کے درمیان ایک ٹرک ڈرائیور مدحت محمد، جن کے ٹرک میں جام اور دالیں بھری ہوئی ہیں بتا رہے ہیں؛میں نے دو ہفتے انتظار کیا اور پھر کہا گیا واپس جاؤ۔اسرائیلی فوجی سوال کر رہے تھے کہ اتنا زیادہ کھانا کس کے لیے لے جار رہے ہو؟ بعض اوقات جواب صرف یہ ہوتا ہے ؛ وقت ختم ہو گیا۔اسی طرح محمود الشیخ، جو آٹا لے کر 13 دن سے کراسنگ کے باہر انتظار کر رہے ہیں کا کہنا تھا کہ کل ہی ایک دن میں 300 ٹرک واپس کر دیے گئے اور صرف 35 کو اندر جانے دیا گیا۔ ‘سب کچھ ان (اسرائیلی فوجیوں) کی مرضی پر منحصر ہے ‘۔وہ بتاتے ہیں کہ ہر رات 150 ٹرک لائن میں لگتے ہیں۔ صبح صرف 15 یا 20 کو جانچ کے لیے بلایا جاتا ہے ۔ باقی سب کو لوٹا یاجاتا ہے ۔جب ٹرک اندر پہنچ بھی جائیں تو ڈرائیور کی اذیت پھر بھی ختم نہیں ہوتی ہے ۔ ٹرک اکثر لوٹ لیے جاتے ہیں ۔ بھوک تشدد میں بدل جاتی ہے ۔اسرائیلی اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ان کو فائرنگ کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے ۔مئی سے اب تک 2,500 افراد بس غذائی اجناس تقسیم کرنے والی جگہوں پر مارے گئے اور 15,000 سے زیادہ زخمی ہوئے ۔
اسی پس منظر میں، میڈیسن سان فرنٹیئر نے امریکااسرائیل کی پشت پناہی والے غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن پر الزام لگایا کہ یہ ریلیف کا نظام کم اور’ظلم کی تجربہ گاہ’زیادہ ہے ۔ایک نرس نے بتایا کہ اس نے پانچ سالہ بچے کا علاج کیا جو بھگدڑ میں کچلا گیا تھا۔ ایک اور آٹھ سالہ بچے کے سینے میں گولی کا زخم تھا۔عام فلسطینیوں کے لیے کھانے کی تقسیم بھوک اور موت کے درمیان کا جُوا بن چکی ہے ۔ فلسطینی اسے ‘موت کی یاترا’کہتے ہیں۔صبح ہوتے ہی مرد، عورتیں اور بچے کئی کلومیٹر پیدل چلتے ہیں’محفوظ راستوں ‘کی طرف، جو امداد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ بہت سے واپس نہیں آتے ۔ سنائپر فائر اور ڈرون حملے قطاروں میں لگے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ام سعید الرفاعی، جو رفح کے قریب ایک غذائی تقسم کے مقام پر گئیں، خالی ہاتھ اور آنسو گیس کے زخموں کے ساتھ واپس گھر پہنچ گئی۔’میں صرف اپنی بیٹی کو کچھ کھلانا چاہتی تھی۔ مگر ہم پر حملہ ہوا مرچ اسپرے ، گولیاں، گیس۔ میں سانس نہیں لے پائی۔ جان بچا کر بھاگی۔ خالی ہاتھ لوٹی’۔ان کے الفاظ غزہ کی نئی حقیقت ہیں؛ اب زندہ واپس آ جانا ہی کامیابی ہے ، چاہے کھانا نہ ملا ہو۔
اقوام متحدہ کے نظام آئی پی سی نے پہلے ہی غزہ کو قحط زدہ قرار دیا ہے ۔ عالمی قانون کے تحت جان بوجھ کر بھوکا رکھنا جنگی جرم ہے ۔ 2024 میں تین بار عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو ہدایت دی کہ انسانی امداد بلا رکاوٹ داخل ہونے دے ۔ ہر فیصلے کو نظر انداز کیا گیا۔استنبول یونیورسٹی کے وکیل دنیز باران کہتے ہیں کہ اسرائیل کی ناکہ بندی اور امداد روکنا شہریوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر بھوکا رکھنے کے مترادف ہے۔ جو جنیوا کنونشن کے تحت ممنوع ہے ۔ ‘یہ منظم، دانستہ اور بے مثال ہے ۔ ایک ایسا قحط جو براہِ راست نشر ہو رہا ہے ‘۔جب رفح پر ٹرک رکے پڑے ہیں تو بحیرہ روم کی طرف مزاحمت کی ایک اور شکل گلوبل صمود فلوٹیلا کی صور ت میں ساحل کی طرف رواں ہے ۔ 44 ممالک کے 50 سے زائد جہاز غزہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ جدید تاریخ کا سب سے بڑا شہری امدادی قافلہ ہے۔اس فلوٹیلا میں ڈاکٹر، پارلیامانی اراکین، فنکار اور کارکن شامل ہیں، جن میں گریٹا تھنبرگ بھی ہیں۔یہ جہاز خوراک، دوا اور امید سے لدے ہوئے ۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ بھی رفح کے ٹرکوں کی طرح غزہ سے چند میل دور ہی رک جائیں گے ۔ بھوکوں کے لیے یہ ایک اور ستم ظریفی ہے ۔ خورا ک سامنے ہے مگر سفاک ناکہ بندی اس کو روک لیتی ہے ۔
رفح کراسنگ ہمیشہ سے کشمکش کا مقام رہی ہے ۔ 1979 کے مصراسرائیل امن معاہدے کے تحت فلاڈیلفی روٹ بفر زون قائم کیا گیا۔ دوسری انتفاضہ (2000) کے دوران اسرائیل نے اسے وسیع کیا، گھر گرائے اور رکاوٹیں بنائیں۔2008 میں جنگجوؤں نے دیوار میں سوراخ کیے اور ہزاروں فلسطینی مصر میں داخل ہو کر سامان لائے ۔مصر نے بعد میں سرحد کو مزید مضبوط کیا اور 2021 تک تین ہزار سے زائد سرنگیں تباہ کر دیں۔ کچھ میں پانی بھرا گیا، کچھ میں زہریلی گیس بھری گئی، اور اکثر اندر موجود لوگ مارے گئے ۔2007 سے حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد مصر نے غزہ کو ہمسایہ بھی سمجھا اور خطرہ بھی۔ نتیجہ ایک ایسی سرحد ہے جو کنکریٹ اور بدگمانی سے بنی ہوئی ہے اور آج بھوک سے ۔میں نے کشمیر، افغانستان اور حال ہی میں شام کی رپورٹنگ کی ہے ۔ لیکن غزہ ایک جہاندیدہ رپورٹر کو بھی توڑ دیتا ہے۔
مجھے یاد آررہا تھا کہ جب میں غزہ کے ایک صحافی کو فون کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو کئی بار کال کرنے کے بعد جب اس نے فون اٹھایا، تو لرزتی آواز میں کہا؛’برادر، میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ جب روٹی ملے گی تو کال کروں گا’۔وہ کبھی کال نہیں کر پایا۔ میں نے بھی دوبارہ فون نہیں کیا۔غزہ اب صرف جنگ کا نہیں بلکہ بھوک کو ہتھیار بنانے کا معاملہ ہے ۔ یہ قحط چھپایا نہیں گیا بلکہ براہِ راست دکھایا جا رہا ہے۔ آنے والی نسلیں یہ نہیں پوچھیں گی کہ فلسطینیوں نے مزاحمت کیوں کی۔ وہ یہ پوچھیں گی؛ دنیا کیسے کھاتی رہی جبکہ غزہ بھوکا تھا؟ ایک بوجھ کے ساتھ میں قاہر ہ اور پھر انقرہ واپس روانہ ہو رہا ہوں۔رفح سے قاہر ہ تک کا یہ سفر اب صرف جغرافیائی فاصلہ نہیں بلکہ انسانی ضمیر اور عالمی سیاست کے درمیان حائل اس دیوار کا استعارہ ہے جو محصور غزہ کے عوام کے گرد کھڑی کر دی گئی ہے ۔سینائی کے سنسان ریگستان میں سفر کرتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ صحرا اپنی خاموشی میں لاکھوں دبی ہوئی صداؤں کا نوحہ پڑھ رہا ہے ۔ ریت کے ذرے بھی جیسے سوال کر رہے ہوں کہ آخر انسان نے انسان کو بھوک اور پیاس کا شکار کیوں بنایا؟
غزہ کی کہانی محض ایک خطے کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزمائش ہے ۔ یہ ایک ایسا امتحان ہے جس میں صرف فلسطینی نہیں، بلکہ ہم سب شریک ہیں۔ رفح کے گیٹ پر کھڑی خوراک انسانیت کے مردہ ضمیر پر نوحہ پڑھ رہی ہے ۔ دنیا بھر کی طاقتیں، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس بھوک کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔میں جب قاہرہ لوٹ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ تاریخ آنے والی نسلوں سے یہی سوال پوچھے گی؛’کیا تم نے کھاتے ہوئے غزہ کے بچوں کو بھوکا مرنے دیا’؟یہ سوال ہمارے عہد کی سب سے بڑی گواہی بن جائے گا۔فلسطینی مائیں جب بھوکے بچوں کو گود میں لے کر سلاتی ہیں، تو ان کی لوریاں دراصل دنیا کے کانوں پر دستک ہیں۔ اگر یہ دستک ہم نے نہ سنی تو شاید کل ہماری اپنی اولاد بھی اسی اندھی بھوک کی زد میں آ جائے گی۔
غزہ آج صرف ایک جغرافیہ نہیں، ایک چیخ ہے ۔ یہ چیخ وقت کی دیواروں کو چیر کر ہماری روحوں کو ہلا رہی ہے ۔سوال یہ ہے ؛ کیا ہم جاگیں گے ، یا یہ چیخ تاریخ کے قبرستان میں دب جائے گی؟
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ نہیں بلکہ کہتے ہیں ٹرکوں کی بھوک سے بچوں کو کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں رہا تھا کے بعد ہے اور کی طرف تھا کہ رفح کے رہی ہے رہا ہے کے لیے کر رہے غزہ کے ہیں کہ
پڑھیں:
اداریے کے بغیر اخبار؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250919-03-7
شاہنواز فاروقی
کیا دنیا میں انسان کا تصور روح کے بغیر کیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی انسان دل کے بغیر انسان کہلا سکتا ہے؟ کیا کوئی انسان دماغ کے بغیر انسان کہلانے کا مستحق ہے؟ کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہوگا جس کا کوئی موقف ہی نہ ہو جس کا کوئی تناظر ہی نہ ہو، جس کا کوئی ردعمل ہی نہ ہو؟ جیسا کہ ظاہر ہے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ یہ مثال صرف انسان کے لیے نہیں اخبار کے لیے بھی صحیح ہے۔ اخبار کا اداریہ اخبار کی روح ہے۔ اخبار کا دل ہے۔ اخبار کا دماغ ہے۔ اخبار کا موقف ہے۔ اخبار کا تناظر ہے۔ اخبار کا ردعمل ہے۔ چنانچہ اخبار کا تصور اداریے کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر بدقسمتی سے ملک کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ جنگ نے اداریہ شائع کرنا بند کردیا ہے۔ اخبار کے مالکان نے اس سلسلے میں قارئین کے سامنے اداریہ ترک کرنے کی وجوہات بھی نہیں رکھیں۔
ایک زمانہ تھا کہ اخبارات اپنے اداریوں سے پہچانے جاتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کامریڈ کا اداریہ لکھتے تھے اور جب انہیں انگریزوں سے کوئی بات منوانی ہوتی تھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ میری بات مان لو ورنہ میں انگریزوں کے خلاف اداریہ لکھ دوں گا۔ ایک دنیا کامریڈ کے اداریوں کی دیوانی تھی، عہد ِ حاضر میں روزنامہ جسارت نے اداریے کی حرمت کو نباہ کر دکھایا۔ 1970ء کی دہائی میں جسارت پاکستان کا واحد اخبار تھا جس نے اپنے اداریوں میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کی۔ جسارت نے اپنے اداریوں میں اس بات پر اصرار کیا کہ شیخ مجیب کو انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔ جسارت نے اپنے اداریوں میں واضح کیا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے حل کو سیاسی ہونا چاہیے، عسکری نہیں۔ یہ اداریے جسارت کے مدیر عبدالکریم عابد صاحب لکھا کرتے تھے۔ جسارت کے سوا پاکستان کے تمام اخبارات اور ان کے اداریے جنرل یحییٰ کے فوجی آپریشن کی حمایت کررہے تھے۔ یہاں تک کہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسین قریشی فرما رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ جسارت نے بھٹو گردی کے زمانے میں
بھی اداریے کی حرمت کو پوری طرح بحال رکھا۔ جسارت نے ڈٹ کر اپنے اداریوں میں بھٹو کی فسطائیت کی مزاحمت کی۔ چنانچہ بھٹو نے جسارت کے اداریوں میں موجود شعور سے گھبرا کر جسارت ہی کو بند کردیا۔ کراچی میں الطاف گردی اور ایم کیو ایم گردی کی تاریخ 30 برسوں پر محیط ہے۔ ان برسوں میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خوف کا یہ عالم تھا کہ کراچی کے اخبارات کیا لاہور کے اخبارات میں بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف ایک لفظ بھی شائع نہیں ہوتا تھا۔ اس عرصے کے آٹھ دس سال ایسے تھے جب ہمیں جسارت کے اداریے لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چنانچہ ہم نے اپنے اداریوں میں کھل کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر تنقید کی۔ ایم کیو ایم ہر دوسرے تیسرے دن دھمکی دیتی تھی کہ وہ جسارت کے دفتر کو بم سے اُڑا دے گی۔ مگر جسارت حق و صداقت کا پرچم بلند کیے کھڑا رہا۔ یہ عرصہ اتنا خوف ناک تھا کہ ملک کے ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی لاہور میں رہتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا آپ سب کے خلاف لکھتے ہیں مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں لکھتے۔ کہنے لگے بھائی میں نے سنا ہے الطاف حسین اپنے خلاف لکھنے والوں کو مروا دیتا ہے۔ کراچی سے ایک ہزار کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے صحافی کے خوف کا یہ عالم تھا مگر جسارت پوری بے خوفی کے ساتھ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے آگے ڈٹا رہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
روزنامہ جنگ ملک کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ بڑے اداروں کی ذمے داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں مگر روزنامہ جنگ نے کبھی ذمے داری کے حوالے سے بڑا بن کر نہیں دکھایا۔ روزنامہ جنگ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس نے کبھی ملک میں فوجی آمریت کی مزاحمت نہیں کی۔ مزاحمت تو دور کی بات ہے کبھی کسی فوجی آمر کے خلاف ایک لفظ بھی شائع نہیں کیا۔ راویانِ روایت کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا اُٹھایا تو جنگ کے مالک میر خلیل الرحمن نے ایک پریس کانفرنس میں جنرل ایوب سے کہا کہ آپ نے مارشل لا اٹھا کر اچھا نہیں کیا۔ جنرل ایوب نے کہا آپ جنگ کے اداریے میں مارشل لا کی حمایت کردیجیے میں پھر سے مارشل لا لگادوں گا۔ جنرل ضیا الحق تقریباً گیارہ سال ملک پر مسلط رہے، جنگ سمیت پاکستان کے تمام اخبارات نے کبھی جنرل ضیا الحق سے اختلاف رائے کا اظہار نہیں کیا۔ بالخصوص اپنے اداریوں میں۔ بلاشبہ جنگ نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایک خاص مرحلے پر ایک کردار ادا کیا اور اس کردار کی تعریف کی جانی چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز کے زمانے میں اسٹیبلشمنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا جنرل پرویز کے ساتھ تھا جبکہ دوسرا دھڑا وکلا تحریک اور جنرل کیانی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ میں یہ دھڑے بندی نہ ہوتی تو شاید جنگ اور جیو کبھی اینٹی جنرل پرویز مشرف کردار ادا نہ کرتے۔
روزنامہ جنگ میں اداریے کے خاتمے کی بعض لوگ یہ توجیہ کررہے ہیں کہ فی زمانہ اخبار کا اداریہ سب سے کم پڑھی جانے والی چیز ہے اور یہ بات سو فی صد درست ہے۔ مگر اس میں ایک صنف کی حیثیت سے اداریے کا کوئی قصور نہیں۔ ہم طویل تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں عرض کرتے ہیں کہ آج بھی روزنامہ جسارت اور انگریزی اخبار Daily dawn کے اداریے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسارت اور ڈان کھل کر اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں، امریکا اور یورپ پر تنقید کرتے ہیں۔ چنانچہ ان اخبارات کے اداریوں میں جان ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے اخبارات اپنے اداریوں میں حکمرانوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور وہ ایک ایسی زبان و بیان اختیار کرتے ہیں جس میں کوئی گہرائی، معنویت اور دلکشی نہیں ہوتی۔ چنانچہ جسارت اور ڈان کے سوا کسی اخبار کا اداریہ قاری کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر قارئین اداریہ کیوں پڑھیں؟ جنگ اپنے اداریہ نویسوں کو تمام بالادست طبقات پر تنقید کی آزادی دے۔ اگر صرف 6 ماہ میں جنگ کے اداریے اخبار کی جان نہ بن جائیں تو ہمارا نام بدل دیجیے گا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ صحافت کبھی ’’مشن‘‘ تھی مگر اب ’’کاروبار‘‘ بن گئی ہے۔ یہ بات درست ہے مگر اصل مسئلہ صحافت کا نہیں صحافت کرنے والوں کا ہے۔ انسان، انسان ہو تو وہ کاروبار کو بھی مشن بنالیتا ہے۔ ورنہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تو مشن کو کاروبار بنالیتے ہیں۔ کیا ہم اسلام کی تاریخ سے آگاہ نہیں۔ برصغیر میں اسلام فاتحین کے ذریعے نہیں تاجروں کے ذریعے پہنچا۔ عرب دنیا کے جو تاجر برصغیر آئے سب سے پہلے انہوں نے ہندوئوں کو مسلمان بنایا۔ حالانکہ یہ ان کی ’’ذمے داری‘‘ نہیں تھی۔ وہ تاجر تھے اور انہیں خود کو تجارت تک محدود رکھنا چاہیے تھا مگر یہ تاجر ’’صاحب ایمان‘‘ تھے، چنانچہ انہوں نے تجارت کو بھی اسلام پھیلانے کے مشن میں ڈھال لیا۔ اس کے برعکس آج کے مسلمان ہیں جو اسلام کو بھی ’’دکانداری‘‘ میں تبدیل کررہے ہیں۔ چنانچہ اصل چیز صحافیوں اور اخبارات کے مالکان کا ’’ایقان‘‘ یا Conviction ہے۔ روزنامہ جسارت بھی زیادہ اشاعت رکھنے والا اخبار بننا چاہتا ہے مگر اصولوں پر سودے بازی کرکے نہیں اصولوں پر قائم رہ کر۔ ڈیلی ڈان کے مالکان مذہبی نہیں ہیں بلکہ سیکولر ہیں مگر ان کے بھی کچھ ’’اصول‘‘ ہیں۔ ان اصولوں پر وہ کوئی سودے بازی نہیں کرتے۔ چنانچہ جنرل عاصم منیر اور شریف بدمعاشوں کے عہد میں ڈان کو بھی جسارت کی طرح سرکاری اشتہارات نہیں مل رہے، لیکن ڈان اسٹیبلشمنٹ اور شریف بدمعاشوں پر تنقید سے باز نہیں آرہا۔ یہی وہ صحافت ہے جو قوم کے ضمیر اور شعور کی محافظ ہے۔ ایسی صحافت کے دائرے میں اخبار کی خبریں بھی پڑھی جاتی ہیں اور اداریہ بھی۔ چنانچہ نہ جسارت کبھی اپنا اداریہ بند کرے گا نہ ڈان۔ ایک زمانہ تھا کہ بادشاہوں تک کو یہ خیال ہوتا تھا کہ انہیں تاریخ میں کس طرح یاد رکھا جائے گا مگر اب اخبارات تک کے مالکان کو یہ فکر دامن گیر نہیں ہے کہ انہیں تاریخ کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ چنانچہ وہ تاریخ کے فیصلے سے قطع نظر کرتے ہوئے اپنے اخبارات کو اداریوں سے پاک کررہے ہیں۔