Jasarat News:
2025-09-20@23:39:47 GMT

بجٹ خسارے کی کہانی

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250921-03-4

 

ایم ابراہیم خان

بجٹ خسارہ کسی ایک ملک یا چند ممالک کا قصہ نہیں۔ یہ تو عالمگیر حقیقت ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں بجٹ خسارے کا سامنا کرتی رہی ہیں اور اِس کے ساتھ زندہ رہتی ہیں۔ معاشی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ بجٹ خسارے پر قابو پانا اب بظاہر کسی بھی ملک کے لیے ممکن نہیں رہا۔ معیشتیں پیچیدہ ہوچکی ہیں۔ عالمی معیشت میں نشیب و فراز کے مراحل بہت تیزی سے رونما ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی ملک کو کسی بھی وقت انتہائی نوعیت کی صورتِ حال کا سامنا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہی ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو خام قومی پیداوار کے مقابلے میں غیر معمولی نوعیت کے قرضوں کا بھی سامنا ہے۔ رواں سال دنیا بھر کی حکومتوں کے مجموعی قرضے مجموعی عالمی خام پیداوار کے ۹۵ فی صد کے مساوی ہو جائیں گے۔ زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ رجحان محض جاری نہیں ہے بلکہ جاری رہنے کا امکان ہے یعنی وہ وقت زیادہ دور نہیں جب دنیا بھر کے حکومتی قرضے مجموعی قومی پیداوار سے بڑھ جائیں گے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ منزل ۲۰۳۰ تک آسکتی ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو بجٹ خسارے کا بھی سامنا ہے۔ رواں سال بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے پانچ اعشاریہ ایک فی صد کے مساوی ہوگا۔ اور یہ تناسب کئی سال برقرار رہ سکتا ہے کیونکہ دنیا بھر کی معیشتوں کو شدید پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔

ایک طرف تو حکومتوں کے قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف حقیقی معاشی نمو کی شرح بہت کم ہے۔ افراطِ زر معقول حد تک نہیں یعنی کم ہے اور دنیا بھر میں بچت کا رجحان بھی انتہائی کمزور پڑچکا ہے۔ یہ تمام حقائق اور عوامل یکجا ہوکر معاشی معاملات کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ بجٹ خسارے اور دیگر پیچیدگیوں کا سامنا کرنے کے لیے دنیا بھر کی حکومتیں غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کر رہی ہیں۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب سی لگتی ہے کہ یورپی یونین جیسے مضبوط معاشی خطے میں فرانس جیسے بڑے ملک کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پندرہ سال قبل فرانس قرضوں کے معاملے میں اُتنی ہی مشکل صورتِ حال کا سامنا کر رہا تھا جتنی مشکل صورتِ حال جرمنی کو درپیش تھی۔ جرمنی اب بہت حد تک سنبھل چکا ہے مگر فرانس کا یہ حال ہے کہ اُس کے قومی قرضے مجموعی خام قومی پیداوار کے ۱۱۳ فی صد کے مساوی ہیں اور بجٹ خسارے کی سالانہ شرح ۶ فی صد ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں فرانس کی معاشی صورتِ حال اُس سے کہیں زیادہ پریشان کن ہے۔ پنشن کے پوشیدہ بوجھ کو بھی بجٹ کا حصہ بنایا جاتا رہا ہے۔ وزارتیں اِس بوجھ کو عمومی اخراجات میں شمار کرتی ہیں۔

یورپ کے ایک انسٹیٹیوٹ کے مطابق فرانس میں کم و بیش 18 ارب یورو کے مساوی سرکاری تنخواہوں کو پنشن کی مد میں ظاہر کیا گیا۔ یہ سراسر بے دیانتی ہے کیونکہ ایسا کرکے عوام کو دھوکا دیا گیا۔ ایک اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ فرانس میں سیاسی استحکام غیر معمولی نوعیت کا ہے اور اب تو خطرناک بھی ثابت ہو رہا ہے۔ صرف بارہ ماہ میں اب تیسری حکومت بھی گِرتی دکھائی دے رہی ہے۔ بجٹ سے متعلق سفارشات کی منظوری کے لیے سیاسی افہام و تفہیم ناگزیر ہے مگر وہی ممکن نہیں ہو پارہی۔ فرانس جیسے بڑے یورپی ملک کے لیے یہ سب کچھ انتہائی پریشان کن اور تشویش میں مبتلا کرنے والا ہے۔ بجٹ خسارے پر قابو پانے میں ناکامی کے نتیجے میں فرانس میں صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی عدم استحکام بھی بڑھ رہا ہے۔ سرکاری بونڈز پر سُود کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس معاملے میں جرمنی کو فرانس پر قدرے سبقت حاصل ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ فرانس میں جو معاشی خرابی ہے وہ اپنی پیدا کردہ ہے۔ اِس میں یورپ کے مرکزی بینک کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ یورپی یونین کے تحت کام کرنے والے مرکزی بینک نے پورے خطے کی برآمدات میں اضافے کے لیے سُود کی شرح پر اثر انداز ہوکر ایسے حالات پیدا کیے کہ یورو کی قدر کم رہے تاکہ برآمدات کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جاسکے۔ یوروپین سینٹرل بینک کی کارکردگی پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے کیونکہ اِس کے مصنوعی نوعیت کے اقدامات نے کئی ملکوں کے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ سُود کی شرح پر اثر انداز ہوکر دھوکا دینے والا معاشی ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ بجٹ خسارہ دنیا بھر میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ یورپی یونین جیسا خطہ بھی اِس کی تباہ کاری سے مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی معیشتوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر اُنہیں ڈھنگ سے کام کرتے رہنا ہے تو بجٹ خسارے پر بھی قابو پانا ہوگا اور مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں اپنے مجموعی قرضوں کو بھی قابو میں رکھنا ہوگا۔ یہ سب کچھ غیر معمولی نوعیت کی احتیاطی تدابیر کا متقاضی ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں معاشی مشکلات سے نجات پانے کی کوشش میں طرح طرح کے اقدامات کر رہی ہیں، نئی پالیسیاں اپنارہی ہیں۔ پالیسیوں میں لائی جانے والی تبدیلیوں سے کئی معیشتوں کو جھٹکا لگتا ہے۔ تمام ہی ملکوں کے معاشی معاملات اب آپس میں اِس قدر جُڑے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی ملک معاشی اور مالیاتی مشکلات سے مکمل محفوظ رہنے کی حالت میں نہیں ہے۔ اِس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ معاشی استحکام رکھنے والے ممالک بھی یہ دعوٰی نہیں کرسکتے کہ اُنہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ معاشی میدان میں اب کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ (دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: غیر معمولی نوعیت قومی پیداوار دنیا بھر کی پیداوار کے کا سامنا سامنا ہے کے مساوی یہ ہے کہ کسی بھی رہی ہیں رہا ہے کی شرح کے لیے

پڑھیں:

صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ز قلم:خدیجہ طیب

نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے قطر میں حماس کے رہنماؤں کو اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہاں انہیں “محفوظ پناہ گاہ” ملی ہوئی تھی۔

انہوں نے خبردار کیا:“میں قطر اور تمام اُن ممالک سے کہتا ہوں جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں: یا تو انہیں ملک بدر کریں یا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا، تو ہم کریں گے۔”

یہ نیتن یاہو کے الفاظ ہیں: انصاف کا مطالبہ، اور سب سے حیران کن بات یہ کہ، خود اپنے زمانے کے سب سے بڑے دہشت گرد کی جانب سے کیا جا رہا ہے!

اسرائیل کا قطر میں دوحہ پر حالیہ حملہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے تھا کہ وہ اب صرف فلسطین کی سرزمین تک محدود نہیں رہا بلکہ جہاں چاہے اور جسے چاہے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ کوئی عام کارروائی نہیں بلکہ ایک منظم پیغام تھا کہ جو بھی ہمارے راستے میں کھڑا ہوگا، اس کی سزا موت سے کم نہیں ہوگی۔ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب حماس کی سیاسی قیادت دوحہ میں مذاکراتی اجلاس میں شریک تھی۔

قطر پر اسرائیلی حملہ کوئی عام واقعہ نہیں۔ یہ محض ایک ملک کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے خلاف ایک کھلا اعلانِ جنگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ حملہ اُس خطے میں ہوا جہاں امریکا کی مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی بیس العدید ایئر بیس(Al Udeid Air Base) موجود ہے۔ ٹرمپ کا انجان بننا اور اسرائیل کا آگے بڑھنا، یہ سب مل کر ایک بڑی تصویر دکھاتے ہیں کہ دنیا کو ایک نئے عالمی نظام(New World Order)کیطرف دھکیلا جا رہا ہے؟ جس میں طاقت صرف چند ہاتھوں میں ہو گی اور باقی دنیا غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی۔

دنیا کے بیشتر طاقتور یہودی طبقات کا تعلق اشکنازی یہودیوں سے ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو زیادہ تر یورپ (خصوصاً مشرقی یورپ اور روس) سے تعلق رکھتا ہے اور موجودہ اسرائیلی ریاست میں سیاسی و فوجی غلبہ رکھتا ہے۔ صیہونی تحریک (Zionism) کی بنیاد رکھنے اور اسے عملی ریاست میں ڈھالنے کا سہرا بھی زیادہ تر انہی کے سر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اشکنازی یہودی دراصل چاہتے کیا ہیں؟

سب سے پہلے ان کا مقصد ہے طاقت اور بالادستی۔ یہودی تاریخ میں صدیوں کی غلامی، بیدخلی اور جلاوطنی کے بعد اشکنازی یہودیوں نے یہ سوچ پختہ کر لی کہ انہیں ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں وہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں بلکہ خود دوسروں کو اپنا محکوم بنائیں۔ اسی سوچ نے ’’ریاستِ اسرائیل‘‘ کو جنم دیا، لیکن یہ ان کا آخری ہدف نہیں۔

دوسرا مقصد ہے گریٹر اسرائیل کا قیام۔ اشکنازی یہودی اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ ان کا ’’وعدہ شدہ ملک‘‘ (promised land) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین محض پہلا قدم ہے، اصل خواب اس میں فلسطین کے ساتھ ساتھ اردن، شام، لبنان، عراق، مصر کے حصے، حتیٰ کہ سعودی عرب کے شمالی علاقے بھی شامل ہیں۔ اسی توسیع پسندی نے پورے خطے کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ یعنی فلسطین کے بعد بھی یہ رکے گا نہیں۔ یہ جنگ ہماری دہلیز تک آ کر ہی رہےگی۔

آج اگر قطر نشانہ ہے، تو کل کوئی اور ہوگا۔ کیا عرب دنیا یہ سمجھتی ہے کہ خاموش رہ کر وہ بچ جائے گی؟ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی بھوک کبھی نہیں ختم ہوتی۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، اگر آج ہم نے صفیں نہ باندھیں، تو آنے والے کل میں یہی آگ ہمیں بھی لپیٹ لے گی۔

امت کی سب سے بڑی کمزوری اتحاد کی کمی ہے۔ ایک طرف 2 ارب مسلمان ہیں، دوسری طرف 15 ملین اسرائیلی۔ لیکن طاقت کس کے پاس ہے؟ جس کے پاس اتحاد اور نظم ہے۔ قرآن ہمیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہے: “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ مت ڈالو” (آل عمران 103)۔  لیکن ہم نے رسی چھوڑ دی اور تفرقے کو گلے لگا لیا۔ یہی ہماری شکست کی اصل جڑ ہے۔

نیا عالمی نظام جسے صیہونی اشکنازی اور ان کے عالمی اتحادی ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے:ایک ایسی دنیا جہاں طاقت اور دولت چند ہاتھوں میں ہو۔ فیصلے چند خفیہ ایجنڈے رکھنے والے گروہ کریں۔ قوموں کی آزادی محض دکھاوا ہو۔جس کے پاس زیادہ طاقت ہوگی، وہی بغیر کسی معاہدے کو توڑے، ظلم کرنے کا اختیار رکھے گا۔اور انسانوں کو ایک ایسے نظام میں جکڑ دیا جائے جہاں مزاحمت کا کوئی راستہ نہ بچے۔

اب نہیں تو کب؟

سوال یہی ہے — اب نہیں تو کب؟

اگر آج بھی امت نے غفلت برتی، اگر آج بھی حکمران ذاتی مفاد کے اسیر رہے، اگر عوام نے اپنی آواز بلند نہ کی، تو کل ہمارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ آج قطر ہے، کل شاید پاکستان، ایران، یا کوئی اور عرب ملک۔

یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ یا تو ہم بیدار ہوں، یا پھر تاریخ ہمیں مٹتے ہوئے دیکھے۔ا

متعلقہ مضامین

  • بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟
  • آئین کو اکثر موم کی ناک بنادیا جاتا ہے،فضل الرحمن
  • بدقسمتی سے آئین کو اکثر موم کی ناک بنادیا جاتا ہے،فضل الرحمن
  • ہمیں سوچنا چاہیئے کہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں آمریت مضبوط ہوئی یا جمہوریت؟ مولانا فضل الرحمان
  • فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان
  • نجم سیٹھی نے ایشیاء کپ کے معاملے پر محسن نقوی سے ملاقات کی اندرونی کہانی بیان کر دی 
  • ’میری بیوی عورت ہی ہے، ٹرانس جینڈر نہیں‘ فرانسیسی صدر نے ثبوت پیش کرنے کا اعلان کردیا
  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • جولائی اور اگست کے  درمیان ملکی تجارتی خسارے میں خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ