اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ اغوا برائے تاوان کے معاملے پر ایس ایس پی آپریشنز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ طلب جبکہ آئندہ سماعت پر فریقین سے جواب طلب کرلیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے یاسر عرفات ایڈوکیٹ کی درخواست پر سماعت کی تو درخواست گزار کی جانب سے قیصر امام ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ خدشہ ہے کہ مغوی مشرف رسول کی تحویل یا اسلام آباد پولیس کی غیر قانونی حراست میں ہیں تاہم نہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ مغوی کی بازیابی کے لیے عدالتی بیلف مقرر کیا جائے اور اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔

درخواست کے مطابق محمد وقاص اور سہیل باجوہ نامی دوستوں کے مشرف رسول کے ساتھ 2018 سے کاروباری روابط تھے تاہم ٹرانزیکشن کے تنازع پر مشرف رسول نے ایک دوست کے بیٹے اور دوسرے دوست کی اہلیہ سمیت تین بیٹیوں کو اغوا کیا۔

درخواست گزار کے مؤقف کے مطابق اسلام آباد پولیس اہلکاروں نے مشرف رسول کے پرائیویٹ گارڈز کے ساتھ مل کر یہ کارروائی کی۔

درخواست گزار نے الزام لگایا کہ فیملی ممبرز کو اغوا کرنے کے ساتھ ڈیڑھ کروڑ روپے نقد، دس تولے سونا اور پانچ گاڑیاں بھی قبضے میں لی گئیں، جبکہ مشرف رسول نے فون پر 50 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ جب پٹیشن دائر کرنے کی کوشش کی گئی تو پولیس نے جی-14 ناکے پر روکا، تشدد کیا اور گاڑی بھی چھین لی۔

درخواست میں مشرف رسول، آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب، وزارت داخلہ، ڈی آئی جی آپریشنز، ایس ایچ او تھانہ سنبل اور ریاست کو فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 24 ستمبر تک ملتوی کر دی ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: درخواست میں اسلام آباد مشرف رسول

پڑھیں:

12: اِسلام آباد ہائیکورٹ کا بحران سنگین ہوگیا، درخواست گزاروں کے مقدمات تاخیر کا شکار

جسٹس طارق محمود جہانگیری کام سے روکے جانے کے بعد آج سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اُن کے ہمراہ 25 مارچ 2024 کو خفیہ اداروں کی مداخلت بارے خط لکھنے والے دیگر 5 میں سے 4 ججز بھی تھے۔
16 ستمبر کو جب اُنہیں کام سے روکا گیا تو وکلا کی بڑی تعداد نے اس کے خلاف احتجاج اور جزوی عدالتی بائیکاٹ بھی کیا لیکن یہ احتجاج بھی 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلا کے احتجاج کی طرح نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔

اِسلام آباد ہائیکورٹ میں آج 3 ججوں جسٹس بابر ستّار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کے مقدمات کی کاز لسٹ بھی منسوخ کر دی گئی تھی اور مذکورہ جج سماعت کے لیے میّسر نہیں تھے کیونکہ وہ تینوں جسٹس طارق محمود جہانگیری کے ساتھ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے سپریم کورٹ گئے ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: الیکشن ٹریبونل: جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تبدیلی سے متعلق الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار

آج ہی کے روز ایک وکیل محمد وقاص ملک کی جانب سے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کر دیا گیا۔

مذکورہ بالا واقعات اِسلام آباد ہائیکورٹ کے منصفین کے درمیان دھڑے بندی گہری کشمکش اور ناراضی کا پتا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے انصاف کا نظام تاخیر کا شکار ہے۔

اس کشمکش اور ناراضی کا ایک سرا تو 6 ججز کا خط جبکہ دوسرا سرا موجودہ چیف جسٹس، جسٹس سرفراز ڈوگر کی لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں منتقلی ہے۔

اِسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس سرفراز ڈوگر کی لاہور ہائیکورٹ سے اِسلام آباد ہائیکورٹ تقرری کے بعد اس سال یکم فروری کو شروع ہونے والا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری سے منسوب تمام سوشل میڈیا پوسٹس جعلی ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

19 جون کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی سے متعلق مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے صدر مملکت کو اختیار دیا جس کی رو سے صدرِ مملکت نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو سینیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر رکھتے ہوئے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں مستقل تعیّنات بھی کیا۔

پھر یکم جولائی کو جسٹس سرفراز ڈوگر نے بطور چیف جسٹس اپنے عہدے کا حلف بھی لے لیا، لیکن اِسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کے درمیان سنیارٹی کو لے کر ہونے والی کشمکش نہ تھم سکی۔

اعلیٰ عدلیہ کا سب سے بڑا ادارہ سپریم کورٹ بھی کافی عرصہ ججوں کے درمیان شدید اختلافات کا شکار رہا لیکن اب 26ویں ترمیم کے ایک سال بعد گرد بیٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن وہیں ملک کی ایک اور بڑی عدالت یعنی اِسلام آباد ہائیکورٹ ایک خلفشار کا شکار نظر آتی ہے، جہاں ججز دھڑے بندی کا شکار نظر آتے ہیں۔

16 ستمبر کو اِسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روک دیا گیا۔ اِسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک کام سے روکنے کا حکم جاری کیا۔

مزید پڑھیں: جعلی ڈگری کیس: جسٹس جہانگیری نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

اِسلام آباد ہائیکورٹ کیوں اہم ہے؟

سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور اُس کے بعد یوں تو ملک کی پانچوں ہائیکورٹس اپنے اختیارات اور مرتبے کے لحاظ سے ایک جیسی اہم ہیں لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ وفاقی دارالحکومت کی عدالت ہونے کی وجہ سے وہ تمام بڑے بڑے مقدمات سماعت کرتی ہے جن کا تعلق وفاق یا وفاقی وزارتوں سے ہوتا ہے۔

اِسلام آباد ہائیکورٹ 2010 سے اب تک کئی تاریخ ساز اور لینڈ مارک ججمنٹس دے چُکی ہے اور ملک کے بڑے بڑے سیاسی رہنما وہ صدر آصف زرداری ہوں، عمران خان، نواز شریف یا مریم نواز وہ اس عدالت میں مقدمات کا سامنا بھی کر چکے ہیں اور یہاں سے ریلیف بھی لے چُکے ہیں۔ لیکن 6 ججز کے خط کے بعد سے یہ عدالت اندرونی خلفشار کا شکار نظر آتی ہے۔

ججز کے درمیان کشمکش کی وجہ سے عدالتی کام متاثر ہو رہا ہے، اویس یوسفزئی

اسلام آباد ہائیکورٹ کور کرنے والے جیونیوز کے سینیئر صحافی اویس یوسفزئی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کے درمیان دھڑے بندی سے درخواست گزاروں کے مقدمات تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیارات کے خلاف جسٹس محسن اختر کیانی کی آئینی درخواست

ان کا کہنا تھا کہ عام لوگوں کے مقدمات ایک سماعت کے بعد اڑھائی سے 3 مہینے اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ وقت کے بعد سماعت کے لئے مقرر ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے مقدمات کی تاریخ کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں اور تاریخ والے دن جب کسی کو پتا چلے کہ کازلسٹ منسوخ ہو گئی ججز صاحب نہیں آئے تو عام لوگ ایسی صورتِحال سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔

اویس یوسفزئی نے کہا کہ اُصولی طور پر جب 19 جون کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی سنیارٹی سے متعلق درخواست کا فیصلہ کردیا تھا تو دوسرے دھڑے کو یہ فیصلہ دل سے تسلیم کر لینا چاہیئے تھا کیونکہ عدالتیں تو خود یہ کہتی ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ ایک فریق کے حق اور دوسرے کے خلاف آتا ہے اور عدالتی فیصلے کو تسلیم کیا جانا چاہیئے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ججوں کے دونوں گروپس لچک دکھانے کو تیار محسوس نہیں ہوتے۔ آج جب جسٹس طارق محمود جہانگیری درخواست دائر کرنے سپریم کورٹ پہنچے تو اُن کے ساتھ وہاں پہنچنے والے جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی کاز لسٹ کینسل کر دی گئی۔ لیکن جسٹس محسن اختر کیانی اپنے سارے مقدمات سننے کے بعد سپریم کورٹ پہنچے جو لائقِ تحسین اقدام تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا

ججوں کے درمیان کشمکش کے مختلف واقعات بتاتے ہوئے اویس یوسفزئی نے بتایا کہ اس سال مارچ میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پی ٹی آئی کی سینیٹر مشعال یوسفزئی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کر رہے تھے اور پھر وہ مقدمہ اُن کی کاز لسٹ سے ہٹا دیا گیا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے گو کہ اُس کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی بھی کیا لیکن معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اسی طرح سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی میں جب مذکورہ جج نے کابینہ اور وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس کیا تو وہ نوٹس پہنچایا ہی نہیں گیا اور کہا گیا کہ جسٹس سرادار اعجاز اسحاق خان روسٹر کے بغیر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کو ایک 2 رکنی ڈویژن بینچ میں بٹھا دیا گیا اور کہا گیا کہ آپ ٹیکس میٹرز سنیں۔ ان 2 جج صاحبان کو سنگل بنیچ نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف سینئر پیونے جج جسٹس محسن اختر کیانی کو ڈویژن بینچ سے ہٹا کر سنگل بینچ دے دیا گیا۔
تو جہاں ایک طرف اختلافِ رائے رکھنے والے پانچ ججز ہیں وہیں دوسری طرف سے بھی لچک نہیں دکھائی جا رہی۔ ابھی حال ہی میں فُل کورٹ اجلاس میں پانچ ججوں نے رولز پر اپنا اختلاف کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک اور فیصلہ، سینیارٹی تبدیل کرنے کے خلاف 5 ججوں کی ریپریزنٹیشن مسترد

انصاف دینے والے خود درخواست گزار بن جائیں تو انصاف کیا دیں گے: اسد ملک

ڈان اخبار سے وابستہ سینیئر صحافی اور کورٹ رپورٹر اسد ملک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ گئے اور جسٹس عامر فاروق چیف جسٹس بنے تو ججز کے درمیان تقسیم کا آغاز اُسی وقت ہو گیا تھا۔ اُس وقت ٹیریان وائٹ کیس میں اختلافی فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا تھا۔

اسد ملک نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 4 ججز ایک طرف اور 6 دوسری طرف ہیں اور اِس ماحول سے کچھ وکلا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ دونوں اطراف کے حمایتی وکلا جب اپنے اپنے دھڑے کے ججز کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو توقع رکھتے ہیں کہ اُن کو ریلیف دیا جائے گا۔

دھڑے بندی کی یہی صورتحال ماتحت عدلیہ میں بھی موجود ہے۔ آج بھی جج صاحبان اپنے مقدمات منسوخ کرکے چلے گئے۔ ججوں کی کشمکش میں درخواست گزار رُل رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججوں درخواستیں اعتراضات لگا کر واپس کردیں
  • سپریم کورٹ: رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستیں اعتراضات لگاکر واپس کردیں
  • سپریم کورٹ؛ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججز کی آئینی درخواستیں اعتراضات لگا کر واپس
  • تاوان کیلئے مبینہ اغوا: ایس ایس پی آپریشنز سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب
  • تاوان کیلیے مبینہ اغوا؛ ایس ایس پی آپریشنز سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب
  • اسلام آباد میں بچوں کا مبینہ اغوا: بااثر شخصیات کے دباؤ پر پولیس کی کارروائی، کل ہائیکورٹ میں سماعت
  • اسلام آباد ہائیکورٹ؛عمران خان کی ایکس پوسٹس غیرقانونی قرار دینے کیلئے درخواست دائر
  • پمز اسپتال کے ڈاکٹرزکے دوبارہ ٹیسٹ کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید اقدام سے روک دیا
  • 12: اِسلام آباد ہائیکورٹ کا بحران سنگین ہوگیا، درخواست گزاروں کے مقدمات تاخیر کا شکار