پریس کانفرنس کے دوران ترجمان حکومت پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم جماعت اسلامی کی طرح آپ کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے، میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہوں، بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ سے سندھ کیلئے شہباز اسپیڈ کی ڈیمانڈ کی تھی، کراچی میں ترقیاتی کاموں کی بیچ میں میئر اسپیڈ آگئی۔ اسلام ٹائمز۔ ترجمان حکومت پاکستان برائے اطلاعات سندھ بیرسٹر راجہ خلیق الزماں انصاری نے پی ٹی وی سینٹر اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے چند قبل گرین لائن منصوبہ کا دورہ کیا تھا، فیز ٹو پر کام تیزی سے جاری تھا مگر اب میئر کراچی نے توسیعی کام رکوا دیا، وفاق کراچی کے شہریوں کو سہولیات دینا چاہتا ہے اس سلسلے میں نے پی آئی ڈی سی ایل سے ملاقات کی۔ راجہ انصاری کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے ساتھ منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہوں، وفاق 2016ء میں منصوبہ کی منظوری دی، دو ہزار سترہ میں کے ایم سی نے منظوری دی۔ بیرسٹر راجہ انصاری نے کہا کہ روزانہ 42 ہزار لوگ گرین لائن سے سفر کر رہے ہیں، 21 کلومیٹر پر مشتمل مین کوریڈور تیار ہوگیا اب سیکنڈ فیز کامن کوریڈور گرمندر سے میونسپل پارک صدر تک تعمیر ہونا تھا جو پہلے سے منظور شدہ ہے چند روز قبل گرومند سے کام اسٹارٹ کیا، 2017ء کی این اوسی پر ہم نے دوسرا فیز مکمل کرنا تھا۔ راجہ انصاری نے کہا کہ میئر صاحب نے کام اسٹارٹ ہوتے ہی کام بند کرا دیا ہے، کام بند کرانے سے حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر نقصان ہورہا ہے، وفاق نے اس سے قبل بھی عبدالستار ایدھی ایکسچینج، این وی جے ہائی اسکول سمیت سیوریج کے مسائل بھی حل کرائے ہیں۔

بیرسٹر راجہ خلیق الزماں انصاری نے کہا کہ ہم مل کر کام کرنا چاہتے ہیں مجھے کام رکوانے کی منطق سمجھ میں نہیں آرہی، اگر ہمیں کام کرنے دیا جائے تو حون 2026ء میں گرین منصوبے کا کام مکمل کرلیں گے۔ راجہ انصاری کا کہنا تھا کہ فیڈرل گورنمٹ کراچی میں 22 میگا منصوبے 3 سو 34 ارب سے شروع کرنے جارہی ہے، ان تمام منصوبوں پر بھی سندھ حکومت اور میئر کراچی کے ساتھ مل کر کام کریں گے، میئر صاحب یہ کوئی پوائنٹ اسکورننگ نہیں یے ہم کراچی سمیت سندھ کے لوگوں کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں، ہم جماعت اسلامی کی طرح آپ کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے، میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہوں۔ ترجمان حکومت پاکستان نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ سے سندھ کیلئے شہباز اسپیڈ کی ڈیمانڈ کی تھی، کراچی میں ترقیاتی کاموں کی بیچ میں میئر اسپیڈ آگئی۔ رکاوٹوں سے متعلق ایک سوال پر راجہ انصاری بولے عدالتوں میں غیروں کیخلاف جاتے ہیں میئر ہمارے اپنے ہیں، میں سمجھتا ہوں پی آئی ڈی سی ایل کے افسران کو میئر کراچی سے ملنے نہیں دیا جارہا، ہم تمام منصوبے مکمل کرکے صوبائی حکومت کے ہی حوالے کریں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ترجمان حکومت پاکستان مل کر کام نے کہا کہ کام کرنا کے ساتھ

پڑھیں:

ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل

نئے نظام کے نفاذ کے پہلے دن تک ای چالان کی رقم سوا کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ اس بات کا امکان ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا تصور ختم ہوجائے، اس بناء پرکہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں ٹریفک خلاف ورزیوں پر چالان کی رقم پچاس کروڑ روپے سے زیادہ ہوجائے گی۔

ٹریفک پولیس کے جاری کردہ اعداد وشمارکے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے، ہیلمٹ نہ پہننے، اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون پر بات چیت کرتے اورکار میں ٹنٹد گلاس لگانے کے الزامات کی بناء پر ہوئے۔ کراچی میں ایکسپریس نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کے 8 مہینوں کے دوران 697 افراد زندگی سے محروم ہوئے۔ اسی طرح 10 ہزار 400 سے زائد شہری حادثات میں زخمی ہوئے۔

ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ٹرالرکی ٹکر سے ہوئیں، پھر واٹر ٹینکر سے زیادہ حادثات ہوئے۔ مرنے والوں میں اکثریت موٹر سائیکل سوار اور ان کے ساتھ سفر کرنے والے افراد تھے۔ کراچی میں ہمیشہ سے یہ ریت رہی ہے کہ کسی گنجان علاقے میں ٹرالر یا ٹینکر نے کسی موٹر سائیکل والے کوکچل دیا تو ہجوم اس ٹرالر اور ٹینکر ہی کو نذر آتش نہیں کرتا بلکہ قریب میں جتنی بھی گاڑیاں موجود ہوتی ہیں وہ ہجوم کی زد میں آجاتی ہیں۔

سندھ کی حکومت نے ٹرالر اور ٹینکرز کو بچانے کے لیے ان گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات درج کرنے کی پالیسی اختیارکی ہوئی ہے۔ جب کسی گاڑی کو ہجوم آگ لگاتا ہے تو عمومی طور پر حقیقی ملزمان تو فرار ہوجاتے ہیں پولیس بھی جائے حادثہ کے قریب نوجوانوں کو گرفتارکر لیتی ہے۔ جو افراد پولیس والو ں کو ’چمک‘ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں انھیں خاموشی سے گھر جانے کا موقع مل جاتا ہے۔

سندھ حکومت نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھاری جرمانے عائد کرنے کا قانون نافذ کیا ہے۔ اس قانون کے تحت 5 ہزار سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہوسکے گا۔ اس قانون کے مطابق ٹریفک چالان کا ٹکٹ ملنے پر شہری ہیلپ لائن 1915 پر رابطہ کرسکتا ہے۔ بعدازاں ڈیوٹی افسر اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہیلمٹ نہ پہننے پر 10 ہزار، سگنل توڑنے پر 5 ہزار یا 50 ہزار، غلط سمت میں موٹر سائیکل چلانے پر 25 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ پاکستان بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اتنے بڑے جرمانوں کی روایت نہیں رہی، اس بناء پر پورے شہر میں ایک شوروغوغا مچ گیا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں نے اس قانون کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا تقریباً ایک جیسا مؤقف ہے کہ شہر میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور ہر بڑی چھوٹی سڑک پر سیوریج کا پانی بہنا عام سی بات بن گئی ہے ، پھر سندھ حکومت نے سڑکوں اور انڈر پاس کی تعمیر کے جتنے منصوبہ شروع کیے ہیں ان میں سے بیشتر وقت پر مکمل ہی نہیں ہوسکے۔ گھگھر پھاٹک سے لے کر حب چوکی، سہراب گوٹھ سے لے کر سی ویو تک ایک جیسے حالات ہیں ۔ پھر یہ کہا گیا کہ شہر کی بیشتر شاہراہوں پر سگنل کام نہیں کرتے۔ شاہراہ فیصل جیسے اہم شاہراہ پر رات کو اسٹریٹ لائٹس بند رہتی ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل نے ایک قرارداد میں متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ای چالان بھاری جرمانوں کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں جرمانوں کی رقم کراچی کے مقابلے میں بہت کم ہے ،سندھ حکومت کراچی کے شہریوں کے ساتھ اس سلوک پر نظر ثانی کرے۔ ڈپٹی میئر سلمان عبد اللہ مراد کی زیر صدارت کونسل کے اس اجلاس میں اس قرارداد کی منظوری سے کراچی کے عوام کے موڈ کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ قرارداد حکومت سندھ کے فیصلے پر عوام کے عدم اعتماد کا اظہار ہے مگر میئر صاحب اس قرارداد کی منظوری کو غلط فہمی قرار دے کر کونسل کو مذاق بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب کراچی کا ٹریفک نظام ملک میں سب سے بہتر تھا۔گاڑیوں کا سگنل پر رکنا، ون وے کی خلاف ورزی نہ کرنا، موٹر سائیکل سواروں کا فاسٹ ٹریک پرگاڑی دوڑانے کے بجائے سڑک کے بائیں جانب چلنا، ایک معمول سی بات تھی۔ اس وقت جرمانے کی رقم کم ہوتی تھی مگر ٹریفک پولیس کے اہلکار چوکس ہوتے تھے۔ پھر شہر میں سگنل فری کاریڈور کا تصور آیا۔ پٹرول اورگیس کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار غفلت کا مظاہرہ کرنے لگے، یوں ٹریفک قوانین کی پابندی کا تصور ختم ہوتا چلا گیا۔ پھر اس کے ساتھ بسوں کے کم ہونے، سرکلر ریلوے کے بند ہونے سے متوسط اور نچلے طبقے کے لیے سستی سواری موٹر سائیکل بن گئی۔ اب میاں بیوی چار بچوں کا موٹر سائیکل پر سفر کرنا معمول بن گیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت یوں تو 71سے 77 تک ، پھر 1988سے 1991تک، 1993 سے 1996 تک برسر اقتدار رہی۔ 2008 سے پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل برسر اقتدار ہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے نفاذ سے صوبے کی آمدنی میں اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے مگر پیپلز پارٹی نے کراچی شہر کو اپنایا (Ownership) نہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ چین کی مال برداری کے لیے تیار کردہ چنگ چی پر سوار ہونے پر مجبور ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی کے عوام کو گرین لائن کا تحفہ دیا جو سفرکا جدید اور آرام دہ ذریعہ ہے۔

وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو اگلے مرحلے میں سعید منزل تک بڑھانے کے لیے کام شروع کیا تو سندھ حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں، اب بہرحال سندھ حکومت کو احساس ہوا ہے کہ اس منصوبے کو جاری رہنا چاہیے۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ حکومت کو ہر سال کھربوں روپے کی رقم ملتی ہے،آخر یہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 7سال قبل ریڈ لائن کے منصوبہ کی تعمیر کا اعلان کیا، مگر یہ منصوبہ شہریوں کے لیے وبالِ جان بن گیا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے وزیراعلیٰ کے ہمراہ بغیر پروٹوکول خاص طور پر شام کے اوقات میں ریڈ لائن کا دورہ کریں تو انھیں اندازہ ہوکہ عوام کس اذیت سے گزرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملازمتوں میں میرٹ کے تصور کو ختم کیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پبلک سروس کمیشن سے کامیاب ہوکر ملازمت حاصل کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پیزکی فہرست کی چھان بین کی جائے تو اکثر کا تعلق کسی نہ کسی طرح حکمراں وزراء یا اراکینِ اسمبلی یا پارٹی کے عہدیداروں سے نکلے گا۔ یوں ان وجوہات کی بناء پر کراچی کے عوام کا پیپلز پارٹی کی حکومت پر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ اگرچہ غیبی قوتوں کی سربراہی میں پیپلز پارٹی نے اس شہر سے قومی اسمبلی کی کئی نشستیں جیتیں ہیں اور میئر بھی ان کے ہیں مگر حقائق کچھ اور ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے جرمانہ ہونا چاہیے مگر جرمانے کی رقم کا تعین حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ کم ازکم جرمانہ 50 روپے ہوتا اور متعدد بار چالان ہونے پر جرمانے کی شرح بڑھتی جائے اور اگر 9 ماہ تک کوئی فرد ٹریفک کی مسلسل خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو تو اس کا شناختی کارڈ بلاک ہوجانا چاہیے مگر اس کے ساتھ ہی ٹریفک قوانین کے نفاذ کے لیے تشریحی مہم ضروری ہے۔ یہ مہم مساجد، اسکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں اورکمیونٹی سینٹرز میں ہونی چاہیے۔ اس کام میں سول سوسائٹی کو شریک کرنا چاہیے۔

مساجد کے پیش امام بھی اس مہم میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک اہم معاملہ پولیس کا شہریوں کے ساتھ بیہمانے سلوک ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس اگر کوئی صحیح کام بھی کرتی ہے تو عوام اسے قبول نہیں کرتی۔ مگر ٹریفک چالان قوانین کے نفاذ کا مسئلہ حقیقی حل نہیں ۔ حکومت نے 500 جدید بسیں چلانے کے اعلان کیے لیکن کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔

کراچی میں فوری طور پر 15 سے 20 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ پھر دنیا کے جدید شہروں کی طرح اب کراچی میں بھی جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ کا آغاز ہونا چاہیے۔ شہر میں انڈر گراؤنڈ ٹریک، الیکٹرک ٹرام اور Elevated Railwayکے نظام کی فوری ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی دہلی، ممبئی اور کلکتہ کی طرح ماس ٹرانزٹ کے جدید نظام کو قائم کر کے عوام کے دل جیت سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی نے میئر کراچی کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں قانونی چارہ جوئی شروع کر دی
  • جماعت اسلامی نے میئر کراچی کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی
  • جماعت اسلامی نے میئر کراچی کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی
  • سندھ ہائیکورٹ: کراچی میں لائن لاسز کی بنیاد پر لوڈ شیڈنگ کیخلاف جماعت اسلامی کی درخواست مسترد
  • کراچی میں لائن لاسز کی بنیاد پر لوڈشیڈنگ کیخلاف جماعت اسلامی کی درخواست مسترد
  • ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل
  • یوم شہدائے جموں پر میئر سکھر کا خراج عقیدت
  • ہندو برادری کو روکنے کا بھارتی الزام بے بنیاد و گمراہ کن ہے، دفتر خارجہ
  • پنجاب حکومت نے چھٹی اور اے سی آر نظام مکمل طور پر آن لائن کر دیا
  • یورپی کمیشن کا ہائی اسپیڈ ٹرین منصوبہ، ناشتہ پیرس میں اور لنچ میڈرڈ میں