غزہ اجلاس: اردوان اور ٹرمپ کی ملاقات مثبت اور نتیجہ خیز قرار
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: ترک صدر رجب طیب اردوان کاکہنا ہے کہ غزہ کے معاملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور علاقائی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ملاقات انتہائی مثبت اور نتیجہ خیز رہی ہے۔
ترک صدر نے نیویارک سٹی میں ترک ایوی سینٹر کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے ابھی ایک انتہائی مثبت اور نتیجہ خیز ملاقات مکمل کی ہے، میں مطمئن ہوں، اللہ کرے کہ یہ نتیجہ سب کے لیے فائدہ مند ہو۔
یہ ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر نیویارک میں منعقد ہونے والے ایک علاقائی اجلاس کے دوران ہوئی جس میں غزہ کی صورتحال زیرِ بحث آئی۔
اردوان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ اجلاس غزہ میں امن قائم کرنے اور معصوم شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس قدم ثابت ہوسکتا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ جلد ہی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہاکہ حتمی اعلامیہ غالباً جلد ہی سامنے آ جائے گا۔ صدر ٹرمپ اور امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے بیانات کے ساتھ آج رات کی ملاقات کے نتائج واضح ہو جائیں گے۔
دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جہاں اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کے مطابق اب تک ہزاروں فلسطینی شہری جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، اسپتال ادویات اور بجلی کی شدید قلت کا شکار ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل بھی رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہے۔
واضح رہےکہ غزہ میں امداد کے نام پر درحقیقت امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں، وہ نہ صرف محاصرہ قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ انسان دوست امدادی قافلوں اور مشنز کو بھی بزور طاقت ناکام بنا رہے ہیں۔
عالمی ادارے اس کھلی دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ مظلوم فلسطینی عوام کو فوری اور بلا رکاوٹ امداد پہنچانے کے لیے عملی اور فیصلہ کن اقدامات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ٹرمپ کا جی 20 اجلاس کا بائیکاٹ، جے ڈی وینس کو بھی جنوبی افریقا سے واپس بلا لیا گیا
واشنگٹن:امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکی حکومت کے کسی بھی عہدیدار کو اس سال جنوبی افریقہ میں ہونے والی جی20 سمٹ میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ٹرمپ نے اس موقع پر دوبارہ یہ دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام کسانوں کو قتل اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے اس سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور نائب صدر جے ڈی وینس کو ان کی جگہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تاہم ایک باخبر ذرائع نے بتایا کہ اب نائب صدر وینس بھی اس سمٹ میں شرکت نہیں کریں گے۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ "ٹروتھ سوشل" پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ جی20 کا اجلاس جنوبی افریقہ میں ہو رہا ہے۔
https://truthsocial.com/@realDonaldTrump/115510666739916664افریکنرز (جو ڈچ آبادکاروں اور فرانسیسی و جرمن تارکین وطن کے نسل سے تعلق رکھتے ہیں) کو قتل اور ذبح کیا جا رہا ہے، اور ان کی زمینوں اور فارموں کو غیر قانونی طور پر ضبط کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں گی کوئی امریکی عہدیدار اس اجلاس میں شریک نہیں ہوگا اور میں 2026 میں میامی، فلوریڈا میں جی20 کی میزبانی کا منتظر ہوں
جنوبی افریقا کے وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے الزامات کو "افسوسناک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سمٹ کے کامیاب انعقاد کے لیے پرعزم ہیں۔
وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ افریکنرز کو ایک خاص طور پر سفید فام گروہ کے طور پر بیان کرنا تاریخی طور پر غلط ہے۔ اس کمیونٹی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانے کا دعویٰ حقائق سے بے بنیاد ہے۔
جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افریکنرز کے بارے میں کیے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور اس کے صدر سیرل رامافوسا نے ٹرمپ کو بتایا کہ ان الزامات کا کوئی حقیقت نہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے طویل عرصے سے جنوبی افریقہ کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اقلیتی سفید فام افریکنر کسانوں کے ساتھ ظلم اور تشدد کی اجازت دے رہی ہے۔
اس دوران امریکی حکومت نے جنوبی افریقہ کے پناہ گزینوں کی تعداد کو محدود کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ زیادہ تر پناہ گزین سفید فام جنوبی افریقی ہوں گے جنہیں اپنے ملک میں امتیاز اور تشدد کا سامنا ہے۔
جنوبی افریقہ کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس الزامات سے حیران ہیں کیونکہ سفید فام افراد کا معیار زندگی ملک کے سیاہ فام باشندوں کے مقابلے میں کافی بہتر ہے اور یہ سب اپارتھائڈ کے خاتمے کے تین دہائیاں بعد بھی برقرار ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس سال کے آغاز میں ایک جی 20 اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ اس اجلاس کے ایجنڈے میں تنوع، شمولیت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات شامل تھے۔