کراچی میں چلنے والی گاڑیوں کی عمر کی حد مقرر، ہیوی ٹرانسپورٹ کیلئے ٹریکنگ سسٹم لازمی قرار
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
—فائل فوٹو
سندھ حکومت نے ٹریفک قوانین اور عوامی تحفظ کے لیے سندھ موٹر وہیکل رولز 1969ء میں ترامیم کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
ترجمان محکمۂ ٹرانسپورٹ کے مطابق ترامیم کے تحت بھاری کمرشل گاڑیوں کے مالکان کو نئی شرائط پر عمل کرنا لازم قرار دیا گیا ہے، فٹنس سرٹیفکیٹ، گاڑیوں کی مقررہ عمر کی حد اور جدید حفاظتی نظام کا نفاذ لازمی ہو گا۔
اس حوالے سے وزیرِ ٹرانسپورٹ سندھ شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ بھاری کمرشل گاڑیاں اب محکمہ ٹرانسپورٹ کے قائم مراکز سے فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کریں گی، خلاف ورزی کی صورت میں گاڑی مالکان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے اور جرمانے کی تمام رقوم آن لائن سندھ حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع ہوں گی۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق کمرشل درآمد شدہ گاڑیاں ماحولیاتی اور حفاظتی معیار پر پورا اتریں گی۔
وزیرِ ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ قانون ایک سال کے اندر نافذ العمل ہو گا، تمام گاڑیوں کے لیے روڈ ورتھ ٹیسٹ لازمی ہو گا، خلاف ورزی پر پہلے مرحلے میں معمولی جرمانہ، دوسری بار 2 لاکھ روپےجرمانہ ہو گا جب کہ تیسری بار خلاف ورزی پر 3 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نئی ترامیم میں گاڑیوں کی عمر کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے، انٹر پروونشل روٹس پر 20 سال سے زائد پرانی گاڑیوں کو پرمٹ نہیں دیا جائے گا، انٹر سٹی روٹس پر 25 سال سے زائد پرانی گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں ہو گی جب کہ شہروں کے اندر چلنے والی گاڑیوں کے لیے عمر کی حد 35 سال مقرر کی گئی ہے۔
شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ کسی بھاری یا ہلکی کمرشل گاڑی کو بغیر ٹریکنگ اور حفاظتی نظام چلنے کی اجازت نہیں ہو گی، ہر گاڑی میں جی پی ایس ٹریکنگ ڈیوائس، سامنے اور پچھلے رخ پر کیمرے لگانا لازمی ہو گا، ڈرائیور مانیٹرنگ کیمرا اور 360 ڈگری کیمرہ سسٹم لگانا ہو گا جبکہ ہر گاڑی میں انڈر رن پروٹیکشن گارڈز لگانا بھی لازمی کیا گیا ہے، اس سے حادثات کے دوران چھوٹی گاڑیاں یا موٹر سائیکلیں محفوظ رہ سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام آلات مکمل طور پر فعال حالت میں ہونا ضروری ہیں، اگر کسی گاڑی میں نظام نصب نہ پایا گیا یا جان بوجھ کر خراب کیا گیا تو بھاری جرمانہ ہو گا، اس صورت میں گاڑی کو عارضی طور پر بند کر دیا جائے گا اور 14 دن کے اندر اصلاح نہ ہونے پر رجسٹریشن مستقل منسوخ کر دی جائے گی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: گاڑیوں کی عمر کی حد
پڑھیں:
اسلام آباد میں شہری کی ضبط لینڈ کروز کراچی میں کمشنر اِن لینڈ کے پاس ہونے کا انکشاف
اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں شہری کی ضبط کی گئی لینڈ کروزر کراچی میں ان لینڈ کمشنر کے پاس موجود ہے جبکہ عدالت نے کلیکٹر کسٹمز اور ممبر لیگل کسٹمز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا اور انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سماعت کی اور آرڈر جاری کیا جہاں دوران سماعت کسٹمز کی اسلام آباد میں شہری سے ضبط کردہ گاڑی کراچی میں کمشنر ان لینڈ ریونیو کے زیراستعمال رہنے کا انکشاف کیا گیا حالانکہ کسٹمز حکام نے گاڑی آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ پشاور کو فراہم کرنے کا بیان عدالت میں دیا تھا۔
کلیکٹر کسٹمز کے مطابق لینڈ کروزر پراڈو گاڑی ایک لاکھ روپے کی ٹوکن منی پر آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کو دی گئی تھی تاہم سماعت کے دوران کلیکٹر کسٹمز نے گاڑی جعلی نمبر پلیٹ لگا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں لانے کا بھی اعتراف کر لیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلیکٹر کسٹمز اور ممبر لیگل کسٹمز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا اور حکم دیا کہ گاڑی کی اصل نمبر پلیٹ اتار کر جعلی لگانے کا آرڈر کس نے دیا، اس حوالے سے کلیکٹر کسٹمز نکوائری رپورٹ بیانِ حلفی کے ساتھ جمع کرادیں۔
کمشنر ان لینڈ ریونیو سردار تیمور خان درانی کو چیئرمین ایف بی آر آفس کے ذریعے نوٹس جاری کردیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو سردار تیمور درانی اور آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ پشاور کے ڈائریکٹر جنرل کو متعلقہ ڈرائیور کے ہمراہ 10 نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ گاڑی آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ میں کس کے زیراستعمال تھی، آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ سے کمشنر ان لینڈ ریونیو تک کیسے پہنچی، اس حوالے سے ڈی جی انکوائری رپورٹ جمع کرائیں۔
عدالت نے ممبر کسٹمز آپریشنز سے بھی بیان حلفی سمیت انکوائری رپورٹ طلب کی اور کہا کہ گاڑی کمشنر ان لینڈ ریونیو کے پاس کیسے گئی؟
جسٹس بابر ستار نے دوران سماعت استفسار کیا کہ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ سے کسٹمز کو گاڑی کس نے ہینڈ اوور کی، جس پر کسٹمز کے وکیل نے کہا کہ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کا ڈرائیور گاڑی کسٹمز کے ویئرہاؤس چھوڑ کر گیا اور نمبر پلیٹ اتار کر لے گیا۔
کلیکٹر کسٹمز نے بتایا کہ گاڑی ہائی کورٹ میں پیش کرنی تھی اس لیے دوسری نمبر پلیٹ لگائی گئی اور یہ معمول کا کام ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ گاڑی کو جعلی نمبر پلیٹ لگانے کا حکم کس نے دیا تو کلیکٹر کسٹمز رضوان صلابت نے جواب دیا کہ ڈرائیور نے نمبر پلیٹ لگائی۔
جسٹس بابرستار نے کہا کہ کچھ تو شرم کریں، افسران ذمہ داری لیں، آپ ڈرائیورز کو بس کے نیچے دھکیل رہے ہیں؟ کراچی میں رجسٹرڈ آلٹو کی نمبر پلیٹ اس گاڑی کو کیوں لگائی گئی اور کس قانون کے تحت آپ نے جعلی نمبر پلیٹ لگا لی، آپ کو جھوٹی نمبر پلیٹ گاڑی پر لگانے کے لیے جیل میں کیوں نہ بھیجا جائے۔
کلیکٹر کسٹمز نے عدالت کو بتایا کہ گاڑی ریڈ زون لانی تھی تو نمبر پلیٹ لگانی تھی اس لیے دوسری پلیٹ لگا لی گئی، ویئر ہاؤس میں ایسی بہت سی نمبر پلیٹس ہوتی ہیں، جس کو ڈرائیور لگا کر لے آیا۔
جسٹس بابرستار نے کہا کہ کیا کہہ رہے ہیں ایک ڈرائیور نے نمبر پلیٹ اتار لی، دوسرے نے لگا لی، آپ کلیکٹر ہیں آپ کی ذمہ داری بنتی ہے، آپ کچھ شرم کریں آپ افسر ہیں، عدالت میں کس لیے جھوٹ بول رہے ہیں، افسر عدالت میں آ کر جھوٹ بولیں گے تو پھر توہین عدالت کے علاوہ کیا آپشن بچتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ غلطی ہو گئی ہے تو عدالت میں آ کر درست بات بتا دیں، توہین عدالت کی کارروائی کا مقصد آرڈرز پر عمل درآمد کرانا ہے سزائیں دینا نہیں ہے۔
کلیکٹر کسٹمز سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس بابرستار نے کہا کہ آپ خود غیرقانونی کام کر رہے ہیں اور آج آپ نے عدالت کو بتایا، آپ کی نہ لیگل سینس ہے اور نہ سچ بولنے کی اخلاقی جرات ہو رہی ہے، اس کے نتائج ہوں گے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 10 نومبر تک ملتوی کر دی۔