پاکستان کا ایک اورانقلابی قدم ،جدید سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کی تیاری مکمل کرلی گئیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
پاکستان کا خلائی میدان میں ایک اورانقلابی قدم ،جدید سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کی تیاری مکمل کر لی گئیں ،پاکستان سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے، برسوں میں ہونے والے سروے اب چند دنوں میں مکمل کیے جا سکیں گے،پاکستان اکتوبر میں پہلاجدیدہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ خلاء میں روانہ کرے گا،سپارکو کے چیئرمین محمد یوسف خان نے ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہےہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ معدنی وسائل کی تلاش اور زراعت کی ترقی میں نئی راہیں کھولے گا ،جدیدسیٹلائٹ ،سیلاب کی نگرانی،گلیشیئرپگھلنے اورفضائی آلودگی پرتحقیق کی صلاحیت بڑھائےگا،ان کا مزید کہنا تھا یہ سیٹلائٹ معدنیات،پودوں،مٹی اورپانی کے معیارکے درست اعداد و شمار فراہم کرے گا،پاکستان کا یہ قدم قدرتی وسائل کےموثر استعمال کی راہ ہموار کرے گا ،یہ ٹیکنالوجی سے پالیسی سازوں اورمحققین کوبروقت اورشواہد پرمبنی فیصلے کرنے میں معاون ثابت ہوگی،پاکستان خطے میں خلائی ٹیکنالوجی کا ایک مضبوط مرکز بننے کی جانب بڑھ رہا ہے-
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت اور میڈیا کی نئی دنیا
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس تبدیلی کا سب سے طاقتور محرک ’’مصنوعی ذہانت‘‘ یعنی Artificial Intelligence ہے۔ اب یہ ٹیکنالوجی مستقبل کا کوئی فیکشن نہیں ہے بلکہ حال کی حقیقت بن چکی ہے۔
میڈیا، جو ہمیشہ ٹیکنالوجی کی رفتار سے متاثر ہوتا رہا ہے، اس وقت ایک نئی انقلابی لہر کے دہانے پر کھڑا ہے، یہ ایک ایسی لہر جو خبر کے تصور، اس کے ماخذ اور اس کی سچائی کو نئے معنی دے رہی ہے۔
چند سال پہلے تک خبری ادارے خبر اکٹھی کرنے، تصدیق کرنے اور شایع کرنے کے لیے انسانی مہارت پر انحصار کرتے تھے۔ آج ChatGPT، Google Gemini اور دیگر AI ٹولز نے یہ عمل خودکار (Automated) بنا دیا ہے۔
AI اب نیوز اسکرپٹس لکھتا ہے، وڈیوز ایڈٹ کرتا ہے اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کی بنیاد پر خبری موضوعات تجویز کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے ادارے جیسے BBC، Reuters اور CNN اپنے نیوز رومز میں Artificial Intelligence کو ایک خاموش مگر مستقل ساتھی بنا چکے ہیں۔
میڈیا کی صنعت میں اس انقلاب کے ساتھ خطرات بھی بڑھ گئے ہیں، Deepfake وڈیوز، جعلی تصاویر اور Chatbots کے ذریعے پھیلائی جانے والی ’’مصنوعی خبریں‘‘ عوامی رائے کو گمراہ کر رہی ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں میڈیا لٹریسی کی سطح محدود ہے، یہ خطرہ کئی گنا زیادہ ہے۔ عام قاری اور ناظر کے لیے حقیقت اور جعل سازی میں فرق کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب صحافت کو محض خبر دینے سے آگے بڑھ کر ’’سچائی کی حفاظت‘‘ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔
مصنوعی ذہانت نے صحافت کے پیشہ ورانہ اصولوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خبر ایک مشین تیار کرے تو ’’ادارتی ذمے داری‘‘ کس پر عائد ہوتی ہے؟ انسانی ضمیر یا الگورتھم؟ یہ اخلاقی بحث اب عالمی سطح پر شروع ہو چکی ہے۔
یونیسکو اور دیگر ادارے AI Ethics کے ضابطے وضع کر رہے ہیں تاکہ ٹیکنالوجی انسانی اقدار کو نقصان نہ پہنچائے۔
پاکستانی میڈیا کو اس دور میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں Artificial Intelligence کو دشمن نہیں بلکہ معاون سمجھنا ہوگا۔ اے ای ایک ایسا ٹول جو اگر درست سمت میں استعمال ہو تو خبروں کی درستگی، تحقیق، اور فیکٹ چیکنگ کے عمل کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
اگر ہم نے ابھی سے تربیت یافتہ افرادی قوت تیار نہ کی تو چند سالوں میں ہمارے نیوز رومز محض ’’ری پبلشنگ ڈیسک‘‘ بن کر رہ جائیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، میڈیا تنظیمیں، اور پالیسی ساز ادارے ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔ صحافت کے نصاب میں AI لٹریسی، ڈیٹا جرنلزم، اور میڈیا ایتھکس کو فوری طور پر شامل کیا جائے۔
اسی طرح میڈیا ہاؤسز اپنے عملے کے لیے تربیتی پروگرام شروع کریں تاکہ وہ ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں۔
مصنوعی ذہانت ایک حقیقت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی میڈیا کو بدل دے گی یا نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس تبدیلی کو کیسے سمجھتے اور استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم نے دانش مندی سے کام لیا تو یہ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ ہماری ’’حقیقی صحافت‘‘ کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔