گجرات میں بے زبان جانور پر سفاکیت: کسان کی بھینس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
گجرات کے علاقے جلال پور جٹاں کے ایک نواحی گاؤں میں رات کے سناٹے میں جو کچھ ہوا، اس نے صرف ایک جانور کو نہیں، ایک پورے خاندان کو توڑ کر رکھ دیا۔ نامعلوم افراد نے ایک کسان کی بھینس پر حملہ کیا — اور اس کی دونوں پچھلی ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔ یہ صرف ایک مجرمانہ کارروائی نہیں تھی۔ یہ حسد، بغض، اور انتقام کے زہر سے آلودہ ذہن کی علامت تھی — ایک ایسا ذہن جو اپنے مخالف کو نقصان پہنچانے کی خاطر کسی حد تک بھی جا سکتا ہے، چاہے وہ حد انسانیت سے نیچے ہی کیوں نہ ہو۔ مظلوم کسان کی زبان سے نکلے الفاظ کسی پتھر دل کو بھی ہلا سکتے ہیں یہی میرے بچوں کا واحد سہارا تھی۔ اسی کے دودھ سے چولہا جلتا تھا۔ اب ہم بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا ظلم نہیں دیکھا۔ یہ میری محنت کا سرمایہ تھی، میرے بچوں کے رزق کا ذریعہ۔ اب ہم کہاں جائیں؟” کیا کوئی دشمنی اتنی سنگدل ہو سکتی ہے کہ روزی کا ذریعہ، وہ بھی ایک بے زبان جانور، یوں کاٹ دیا جائے؟ یہ سوال صرف پولیس یا عدالت کے لیے نہیں — یہ ہم سب کے لیے ہے۔ پولیس کی تفتیش جاری، مگر انصاف کی راہ کٹھن پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے اور ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ مگر دیہی علاقوں میں اکثر ایسی وارداتیں “نامعلوم افراد” کے پردے میں دب جاتی ہیں، اور متاثرہ افراد، جو پہلے ہی محروم ہوتے ہیں، مزید مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ❌ یہ پہلا واقعہ نہیں… بدقسمتی سے یہ واقعہ کوئی پہلا یا منفرد سانحہ نہیں۔ جانوروں کو “بدلے” کا ہدف بنانا ایک خطرناک اور بڑھتا ہوا رجحان بنتا جا رہا ہے: چند روز قبل اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں ایک ڈیری فارمر کی 10 بھینسیں زہر دے کر مار دی گئیں۔ نقصان؟ تقریباً 80 لاکھ روپے اور تباہ ہوا کاروبار۔ گجرات میں ہی پچھلے سال ایک خاندان کے 22 گھوڑوں کو زہر دے کر قتل کر دیا گیا۔ محرک؟ خاندانی دشمنی اور سماجی حسد۔ ماہرین کیا کہتے ہیں؟ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر سعدیہ حسین کا کہنا ہے جب کوئی شخص اپنے مخالف کو براہِ راست نقصان نہیں پہنچا سکتا تو وہ اپنی بھڑاس کمزور یا بے زبان مخلوق پر نکالتا ہے۔ یہ دراصل ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ سماجی ماہر پروفیسر آصف محمود کے مطابق یہ رویہ ‘غلط جگہ انتقام کہلاتا ہے۔ ہمارے دیہی معاشرے میں دشمنی کا اظہار اکثر جانوروں یا ذرائع معاش پر حملے کی صورت میں ہوتا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پنجاب حکومت کا سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف پیکج، کیا کسان خوش ہیں؟
حالیہ مون سون بارشوں اور 3 بڑے دریاؤں میں سیلاب سے صوبہ پنجاب کے 28 اضلاع شدید متاثر ہوئے، اس حالیہ تباہی سے لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ، ہزاروں گھر منہدم اور مویشیوں کو بھاری نقصان پہنچا۔
اس صورتحال کے پیشِ نظر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے تقریباً 500 ارب روپے کا ایک جامع ریلیف پیکج کا اعلان کیا، جو مکمل طور پر صوبائی وسائل سے فنڈ کیا جائے گا یعنی اس پیکج میں کسی بیرونی امداد پر انحصار نہیں کیا گیا ہے۔
ریلیف پیکجپنجاب میں سیلاب سے متاثرہ کسانوں کو فی ایکڑ 20,000 روپے معاوضہ دیا جائے گا تاکہ فصلوں کے نقصان کی تلافی ہو سکے، مزید برآں، کسان کارڈ اور گرین ٹریکٹر اسکیم کے تحت خصوصی رعایتیں دی جائیں گی، جو اگلی فصل کی کاشت میں مددگار ہوں گی۔
مکمل تباہ شدہ پکے گھروں کے مالکان کو 10 لاکھ روپے، جبکہ جزوی طور پر متاثرہ پکے گھروں اور تمام کچے گھروں کے مالکان کو 5 لاکھ روپے معاوضہ ملے گا۔
ہر متاثرہ گائے یا بھینس کے لیے 5 لاکھ روپے، اور چھوٹے جانوروں جیسے بکری یا بھیڑ کے لیے فی جانور 50,000 روپے دیے جائیں گے۔
معاوضے کی ادائیگی کے لیے کمیٹی کا قیامنقصانات کا جائزہ لینے اور معاوضہ تقسیم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں اربن یونٹس، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ، لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ، اور پاک فوج کے نمائندے شامل ہیں۔
سروے ٹیمیں 28 متاثرہ اضلاع میں تعینات کی گئی ہیں، ذرائع کے مطابق پنجاب کے متعدد اضلاع کو آفت زدہ قرار دیکر ٹیکس و آبیانہ معاف ہوسکتا ہے۔
باالفاظ دیگرحافظ آباد، سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ، گجرات اور ملتان میں کسانوں کے ذمے واجب الادا ٹیکس ہے اسکو معاف کیا جاسکتا ہے ۔
حکومتی مؤقفوی نیوز سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ 20 ہزار روپے فی ایکڑ کی رقم انہیں ملےگی، جن کی زمین 12 ایکڑ تک ہے اس سے زیادہ زمین رکھنے والوں کو جو نقصان ہوا ہے اس پر بھی حکومت کچھ نہ کچھ لائحہ عمل بنائے گئی۔
وزیر اطلاعات نے بتایا جو زرعی زمین ٹھیکے پر ہوتی ہے، حکومتی ریلیف کے پیسے اس ٹھیکے دارکو دیے جائیں گئے نہ کہ زمین کے مالک کو۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ کے اندر لوگوں کو ریلیف پیکج کے ذریعے ادائیگی شروع ہو جائے گی اور اس ریلیف پیکج سے پنجاب کے ترقیاقی کاموں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
کسان اس پیکج کو ناکافی قرار کیوں قرار دے رہے ہیں؟کسان یونینز اور رہنماؤں نے پیکج کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فصلوں، پودوں کی تاخیر اور پانی بھرنے سے فی ایکڑ نقصان کی لاگت 70 ہزار روپے تک لگائی گئی ہے، جبکہ 20 ہزار روپے کا معاوضہ صرف علامتی امداد ہے۔
پنجاب میں 10 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین متاثر ہوئی، جس سے 60 فیصد چاول، 30 فیصد گنا، 35 فیصد کپاس اور 35 فیصد گیہوں کا اسٹاک تباہ ہوا، جو غذائی تحفظ اور مہنگائی پر اثر انداز ہوگا۔
دوسری جانب کسان یونینز کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ زرعی ٹیکس اور پانی کے ٹیکس پرایک سال کی مکمل چھوٹ دے، اگلے سال کی کاشت پر جو حکومت قرض ہے اسے معاف کیا جائے اور گندم کی سپورٹ پرائس کا اعلان کیا جائے۔
کسان اتحاد کا مؤقفکسان اتحاد کے چیئرمین چوہدری حسیب انور نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت کچھ ریلیف دینے کی کوشش کر رہی ہے مگر کسانوں کا نقصان بیس ہزار روپے فی ایکٹر سے زیادہ ہوا ہے، کسان کی زمین کے ساتھ اسکے ٹیوب ویل سمیت دیگر زرعی آلات کا بھی نقصان ہوا ہے۔
’اس کے جانور سیلابی پانی کی نذر ہوگئے، آنے والے دنوں میں گندم کا بحران بھی شروع ہو جائے گا، اکتوبر میں کسان نے گندم کی فصل کاشت کرنی ہے ،حکومت کو چاہیے ایک تو گندم کی سپورٹ پرائس کا اعلان کرے، دوسرا اداویات اور کھاد پر ریلیف دے کیونکہ کسان کے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے۔‘
اشک شوئی ممکن ہےچوہدری حسیب انور کے مطابق بیشتر سیلاب زدہ علاقوں میں 4 فٹ تک ریت آگئی ہے، ریلیف کی مد میں حکومت کے فراہم کردہ 20 ہزار روپے فی ایکڑ سے زیادہ وہاں کسانوں کی زمین سے ریت اٹھوانے میں لگ جائیں گے۔
’2010 میں جب سیلاب آیا اس وقت کی حکومت نے ریلیف دینے کا اعلان تو کیا مگر وہ ریلیف کسانوں کو نہیں پہنچا، افسران کی ملی بھگت سے وہ ریلیف کرپشن کی نذرہوگیا، حکومت اگر شفاف طریقے سے یہ ریلیف کسانوں تک پہنچا دیتی ہے تو کسانوں کو تھوڑا بہت ریلیف ضرور ملے گا۔‘
کسانوں نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے زرعی ایمرجنسی کے نفاذ کی تجویز کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس درست تجویز پرعمل کرنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب ٹیکس حافظ آباد ریلیف پیکج زرعی زمین سیالکوٹ عظمیٰ بخاری کسان گجرات گوجرانوالہ مریم نواز ملتان نارووال وزیر اطلاعات وزیر اعلی