UrduPoint:
2025-09-25@10:06:15 GMT

غیرت کے نام پر قتل: انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں ہوتے؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

غیرت کے نام پر قتل: انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں ہوتے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوششوں اور حکومتی اقدامات کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اگرچہ کچھ کیسز میں گرفتاریاں ہوئیں لیکن ملزمان کی رہائی کے واقعات انصاف کے نظام پر سوالات اٹھاتے ہیں۔

حالیہ کیس: بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ

حال ہی میں بلوچستان ہائی کورٹ نے سردار شیر باز خان ستکزئی کو ضمانت دی، جو کوئٹہ کے علاقے دگاری میں ایک خاتون اور مرد کے قتل کے الزام میں گرفتار تھے۔

یہ قتل مقامی جرگے کے فیصلے پر کیا گیا تھا اور اس کی ویڈیو وائرل ہونے سے قانون کی حکمرانی پر بحث چھڑ گئی تھی۔

قبل ازیں ایک ماتحت عدالت نے ضمانت مسترد کی تھی لیکن ہائی کورٹ نے پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض شیر باز خان کو رہائی دی۔

(جاری ہے)

اس کیس میں پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کیا تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں ضمانت کو ملزموں کے حق میں سمجھتی ہیں۔

نمایاں کیسز اور عدالتی فیصلے

قندیل بلوچ کیس: 2016 میں سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے بھائی محمد وسیم نے ان کا قتل کیا۔ سن 2019 میں انہیں عمر قید کی سزا ہوئی لیکن 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے والدین کی معافی اور اعتراف جرم پر قانونی سقم کی بنیاد پر محمد وسیم کو بری کر دیا۔ اس فیصلے کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل،' خواتین کو انصاف کب ملے گا؟

کوہاٹ کیس: سن 2022 میں شریف اللہ کو بیٹی کے قتل کے الزام میں سزا ہوئی لیکن 2023 میں کمزور شواہد کی بنا پر انہیں بری کر دیا گیا۔ اسی طرح 2017 میں سپریم کورٹ نے حافظ آباد کے 2005 کے ایک کیس میں تین افراد کو رہا کیا اور 2021 میں پشاور ہائی کورٹ نے دوہرے قتل کے کیس میں ملزم کو بری کر دیا۔

عدالتی فیصلوں کے حامی کہتے ہیں کہ یہ فیصلے شواہد پر مبنی ہوتے ہیں اور ملزمان کا منصفانہ ٹرائل ان کا حق ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کمزور تفتیش اور خاندانی دباؤ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

قانونی فریم ورک اور اس کی حدود

سن 2016 میں پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا، جس کے تحت قاتل کو لازمی عمر قید کی سزا ہوتی ہے۔

سن 2005 میں وہ شق ختم کی گئی، جس کے تحت قاتل خود کو وارث قرار دے کر معافی مانگ سکتا تھا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین موثر ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ خاندان کیس کی نوعیت بدل کر 'غیرت کے نام پر قتل‘ کو عام قتل کا رنگ دے دیتے ہیں، جس سے معافی ممکن ہو جاتی ہے۔ کمزور استغاثہ اور تفتیشی خامیاں بھی ملزمان کی رہائی کا باعث بنتی ہیں۔

'خاندان شواہد چھپاتے ہیں‘

انسانی حقوق کی کارکن منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ خاندان شواہد چھپاتے ہیں یا کیس کی نوعیت ہی بدل دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''خاندان غیرت کے قتل کو عام قتل بنا دیتے ہیں، جس سے معافی کا راستہ کھل جاتا ہے۔‘‘ ان کی والدہ عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ ''ہر خاتون کے قتل کو غیرت کا قتل‘‘ سمجھا جائے تاکہ ریاست ذمہ داری لے۔

پاکستان، غیرت کے نام پر باپ کے ہاتھوں پندرہ سالہ لڑکی کا قتل

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے سکریٹری جنرل حارث خلیق کہتے ہیں کہ معاشرے کے کچھ حصے پرانی روایات میں جکڑے ہوئے ہیں جبکہ ریاست کو اس جرم کو بغاوت سمجھ کر نمٹنا چاہیے۔ دوسری طرف قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شواہد کی بنیاد پر فیصلے ضروری ہیں تاکہ غلط سزائیں نہ ہوں۔

غیرت کے نام پر قتل، اصل تعداد کہیں زیادہ

ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سن 2024 کے دوران پاکستان میں تقریباً 500 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ سب سے زیادہ واقعات پنجاب (178)، سندھ (134)، خیبر پختونخوا (124)، بلوچستان (33) اور گلگت بلتستان (18) میں رپورٹ ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

سماجی ماہرین کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ پاکستان کے قانونی اور معاشرتی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ تفتیش مضبوط کی جائے، جرگوں پر پابندی لگے اور عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ یہ ظلم ختم ہو۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غیرت کے نام پر قتل انسانی حقوق کی ہائی کورٹ نے ہیں کہ کے قتل قتل کے

پڑھیں:

سماجی روایت اور جدید سماجی تقاضے

جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان میں ’کزن میرج‘ (خاندان میں شادی) ایک ایسی پرانی روایت ہے، جو نسل در نسل جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بن چکی ہے۔

بہت سے خاندان میں اسے سماجی اقدار کے ساتھ جوڑ کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ خاندان اور رشتوں کو جوڑے رکھنے کے نام پر اسے ضروری گردانا جاتا ہے۔ یعنی کہ اس روایت کو نہ صرف خاندانی اتحاد و یگانگت کے ضامن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، بلکہ بعضے خاندانوں میں یہ عقیدہ جڑ پکڑ چکا ہے کہ خاندان سے باہر شادی کرنا نہ صرف غیرت کے خلاف ہے، بلکہ مذہبی و اخلاقی قدروں سے انحراف بھی ہے۔

ایسے تصورات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ خاندان سے باہر شادی کرنے والی خواتین کو ’’گناہ‘‘ بغاوت اور غیرت کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کزن میرج محض ایک معصوم روایت ہے یا اس کے پیچھے طاقت، جائیداد اور سماجی رسوخ کے تحفظ جیسے محرکات بھی پوشیدہ ہیں؟ اور سب سے اہم یہ کہ اس روایت کے اصل بوجھ تلے کون سا طبقہ کچلا جا رہا ہے؟ جواب واضح ہے۔ عورت! اس دباؤ کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی ذاتی خواہشات، جسمانی صحت، نفسیاتی سکون اور سماجی کردار کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

کزن میرج کا رواج جنوبی ایشیا میں محض ایک خاندانی رسم نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی سماجی و معاشی محرکات کارفرما ہیں۔ جیسے کہ زمین اور جائیداد کو خاندان میں رکھنے کے لیے کزن میرج کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس ہی طرح عزت اور غیرت کے تصورات عورت کی شادی کو خاندان کے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ رشتہ داریوں کو مضبوط کرنے کا بیانیہ دراصل خاندان کے مردوں کی طاقت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں مشترکہ خاندانی نظام اب بھی غالب ہے، وہاں کزن میرج کو عورت کے لیے تقدیر مان لیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تقدیر کے نتیجے میں عورت کی زندگی اکثر ذہنی دباؤ، جسمانی بیماریوں اور نفسیاتی الجھنوں میں الجھ جاتی ہے۔

یہ کہنا درست نہیں کہ ہر کزن میرج ناکام یا نقصان دہ نہیں ہوتی۔ بعض اوقات قریبی رشتہ داروں کے درمیان رشتہ داری واقعتاً خاندان کو قریب لاتی ہے۔ لڑکی کے لیے اجنبی ماحول میں جانے کے بہ جائے جان پہچان والے ماحول میں رہنا آسان لگتا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ بیٹی کو ایسے ماحول میں بھیجنے سے اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بہتر ہوگی، لیکن آج کل کے نفسانفسی کے دور میں یہ مثبت پہلو کبھی کبھی سطحی نظر آنے لگتا ہے اور اصل حقیقت سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ بنتے ہیں، جب آئے دن یہ خبریں ملیں کہ سگی خالہ نے بیٹیوں کے ساتھ مل نے بہو (سگی بھانجی) کی زندگی اجیرن کردی، یا چچا نے بیٹے کے ساتھ مل کربہو (سگی بھتیجی) کو نقصان پہنچایا وغیرہ وغیرہ۔ کیوں کہ ان تمام واقعات میں عملی طور پر زیادہ تر کیسوں میں اس روایت کے نقصان عورت ہی اٹھاتی ہے۔

’کزن میرج‘ کے نتیجے میں عورت پر خاندانی دباؤ دُہرا ہو جاتا ہے۔ ایک طرف اسے ازدواجی تعلقات نبھانے ہوتے ہیں اور دوسری طرف خاندانی جھگڑوں یا جائیداد کے تنازعات میں بھی گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ اگر رشتہ کام یاب نہ ہو تو خاندان کے درمیان تعلقات خراب ہو جاتے ہیں، جس کا زیادہ تر الزام عورت پر ڈالا جاتا ہے۔ لڑکی سے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق اکثر چھین لیا جاتا ہے، جس کے باعث وہ ذہنی دباؤ اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتی ہے۔

دوسری طرف ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سائنسی تحقیق سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ’کزن میرج‘ سے بچوں میں جینیاتی بیماریوں کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ دل سے لے کر اعصابی اور خون کی مختلف بیماریاں اور دیگر موروثی امراض اس کی مثال ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’کزن میرج‘ عورت کو اکثر ایک ایسے دائرے میں قید کر دیتی ہے، جہاں اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا۔ اگر شوہر دوسری شادی کر لے تو عورت کو خاندان سے باہر نکالنے یا اس کی حیثیت کم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ طلاق کی صورت میں عورت کے لیے خاندان کے اندر اور باہر دونوں جگہ مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عورت کو یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ وہ خاندان کے وقار اور اتحاد کی محافظ ہے، اس لیے اسے ہر حال میں قربانی دینی ہوگی۔

شادی کے رشتے میں اصل زور عورت اور مرد کی رضا، ان کی مرضی اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر ہے۔ بہ حیثیت معاشرہ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے، معاشرے ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور خواتین تعلیم اور روزگار کے میدان میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ ایسے میں کزن میرج جیسی روایات پر سوال اٹھنا فطری ہے۔ خواتین آج اپنی پسند اور اپنی شخصیت کے مطابق شریکِ حیات چننا چاہتی ہیں۔ صحت کے اعتبار سے بھی دنیا بھر کے طبی ماہرین نے کزن میرج کے نقصانات پر تحقیق کر کے خبردار کیا ہے۔ عالمی سطح پر عورت کو خود مختاری دینے پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔ تو پھر ہمارے معاشرے میں عورت کی خاندان میں ہی شادی ہونا کیوں کام یابی کی ضامن سمجھی جاتی ہے؟

’کزن میرج‘ کے تناظر میں عورت ایک ایسے پُل کی مانند ہے جو روایت اور جدیدیت کے درمیان ڈول رہا ہے، کیوں کہ روایت کا دباؤ اسے قید رکھتا ہے، جب کہ جدید تعلیم، شعور اور دنیاوی حقائق اسے آزادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس ڈولتی ہوئی حیثیت میں عورت سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہی ہے۔ اس کی ذات کو خاندان کی عزت کا استعارہ بنا دیا گیا ہے، لیکن اس کے حقوق اور خوشی کو ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔

کزن میرج کے مسئلے کا حل صرف تنقید میں نہیں، بلکہ عملی اقدامات میں ہے۔ خواتین اور مرد دونوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ شادی کا مقصد خاندان کی جائیداد یا غیرت کو بچانا نہیں، بلکہ دو افراد کی خوشگوار زندگی ہے۔ حکومت کو ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو شادی جیسے اہم بندھن میں خواتین کی رضا مندی اور ان کی مرضی کو مزید تحفظ فراہم کریں۔ صحت کے حوالے سے ’کزن میرج‘ کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کی آگاہی مہم چلائی جائے، تاکہ لوگ اپنی آئندہ نسل کو بیماریوں سے بچا سکیں۔ خاندان کے بزرگوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جیسے شادی کے لیے مرد کی خوشی اور اس کی مرضی کو نظرانداز کرنا دراصل خاندان کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے بعینہٖ یہ چیز ایک لڑکی کے لیے بھی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ’کزن میرج‘ ایک ایسی روایت ہے، جو بہ ظاہر خاندان کو جوڑنے کے لیے اپنائی جاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ عورت کو ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل کی بھٹی میں جھونک دیتی ہے۔ ہم خاندانی رسم و روایات کے باعث اس پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں، لیکن جدید دور کے تقاضے ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ عورت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق دیے جائیں اسے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روایت اور جدیدیت کے درمیان عورت کو معلق رکھنے کے بہ جائے اس کے قدموں کو مضبوط کریں، تاکہ اپنی زندگی کے فیصلے میں اُسے بھی اختیار مل سکے۔

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کے سفیر کی اعظم نذیر تارڑ سے ملاقات
  • او آئی سی رابطہ گروپ برائے جموں و کشمیر کا اجلاس، مقبوضہ علاقے میں بگڑتی انسانی حقوق کی صورتحال پر غور
  • حکمران ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کے وعدے پورے کرے
  • نیشنل کانفرنس نے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے، اشوک کول
  • اقوام متحدہ بین الاقوامی قانون کا محافظ اور انسانی حقوق کا مشعل راہ، گوتیرش
  • پی ٹی آئی کا برطانیہ،آسٹریلیا اورکینیڈا کی جانب سے فلسطین کو بطورریاست تسلیم کرنے پرخیر مقدم
  • سماجی روایت اور جدید سماجی تقاضے
  • جمہوریت کے ثمرات سے محروم عوام
  • سپریم کورٹ: 26ویں ترمیم پر فل کورٹ تشکیل کے معاملے میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کی درخواست کیوں واپس کی؟