Express News:
2025-11-09@21:52:27 GMT

بُک شیلف

اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT

’صحافت میں کیا بیتی؟‘

صحافت کے طالب علم ہونے کے ناتے اخباری انٹرویو کے بہت سے مجموعے ہماری نظر سے گزرتے رہے ہیں اور اس حوالے سے ہماری یہ خواہش بھی رہتی ہے کہ ایسے انٹرویوؤں کی جب کتاب لائی جائے تو اس کی کوئی موضوعاتی ترتیب ضرور ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے ’سیاسی‘ اور ’غیر سیاسی‘ شخصیات ایک عام تقسیم ہے۔ اکثر ایسے مجموعوں میں ’ادبی انٹرویو‘ کا بٹوارا بھی دکھائی دیتا ہے، لیکن سنیئر صحافی سجاد عباسی نے بہت احسن طریقے سے اپنے صرف صحافتی انٹرویو یک جا کیے ہیں۔

اس سے صحافت کے طالب علموں، محققین اور عام قارئین کو بہت سہولت رہے گی، نیز جن قارئین کو صحافت سے شغف ذرا کم ہوتا ہے، وہ آسانی سے اس کتاب کے حوالے سے فیصلہ کر سکیں گے۔ ورنہ مختلف شخصیات کے انٹرویو یک جا ہوں تو بہت سے قارئین تذبذب میں رہ جاتے ہیں کہ انھیں یہ کتاب لینی چاہیے یا نہیں؟ اس کتاب ’صحافت بیتی‘ میں جن سات بڑے صحافیوں سے تفصیلی گفتگو شامل کی گئی ہے، ان میں محمود شام، انور سن رائے، مظہر عباس، نذیر لغاری، وسعت اللہ خان، عارف الحق عارف اور زاہد حسین جیسے نام شامل ہیں۔ تمام انٹرویو کی ضخامت بھی گفتگو کے لحاظ سے مختلف ہے۔

جس میں کہیں کہیں تشنگی بھی لگتی ہے، کبھی مفصل گفتگو میں بطور قاری جی چاہتا ہے کہ ذاتی زندگی کے پہلو پر بھی ذرا مزید بات کرلی جاتی۔ تاہم یہ سجاد عباسی کی خوش نصیبی ہے کہ انھوں نے مَری میں آنکھ کھولی اور پھر 1986ء کے خوں آشام کراچی شہر میں وارد ہوئے اور یہاں تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد بہت جلد صحافت کی وادی پُرخار میں اہم ذمہ داریوں پر فائز ہوتے چلے گئے، جس میں ایک معاصر اِبلاغی گروپ کی جانب سے شام کے اخبار ’عوام‘ کے ’خبری مدیر‘ کی ذمہ داری سنبھالنا یقیناً ایک قابل ذکر امر ہے، پھر چل سو چل۔ اس کے بعد 1999ء کے بعد سے وہ روزنامہ ’امت‘ سے وابستہ ہوئے۔

یہ انٹرویو بھی ’قسط وار‘ اسی معاصر روزنامے کے زینت بنے۔ کتاب میں عنوان ’صحافتی بیتی‘ کے ساتھ ’’سات دہائیوں پر محیط پاکستانی صحافت کی کہانی، سات اہم شاہدین کی زبانی‘‘ لکھا گیا ہے۔ یہ سارے انٹرویو بلاشبہ اہم ہیں، لیکن ہماری ناقص رائے میں اِسے ’سات دہائیوں کی پاکستانی صحافت کی کہانی‘ جیسے وسیع عنوان تلے لکھنا کچھ مناسب نہیں، کیوں کہ ایک تو ان تمام احباب کی صحافت کا تعلق ایک ہی شہر کراچی سے ہے، پھر شاید مرکزی دھارے کی صحافت کے لحاظ سے دیکھیے تو آپ شاید ان سات شخصیات میں سے تین یا چار ناموں کو ہی پا سکیں گے، لیکن ان صحافیوں کے مختلف النوع کے ثقافتی اور سماجی پس منظر اور طرزِصحافت کی اہمیت سے ہم کسی طور بھی انکار نہیں کر سکتے۔

دل چسپ امر یہ ہے کہ کتاب میں شامل ساتوں صحافیوں نے دیگر مختلف شہروں میں جنم لیا اور پھر ’شہر قائد‘ کا رخ کیا اور یہاں کی صحافت میں اپنا نام کمایا۔ خود مصنف بھی اسی فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کتاب کے تمام انٹرویو سوالاً جواباً ہیں۔ اس میں جہاں ان صحافیوں کی ذاتی زندگی کے حوالے سے ان کے قارئین کو بہت سی نئی اور دل چسپ معلومات حاصل ہوتی ہے، وہیں بہت سے تاریخی شواہد اور حوالے بھی ملتے جاتے ہیں، کہیں ’مطبوعہ ذرائع ابلاغ‘ کے مستقبل کا سوال کسی اہم سمت میں اشارے دیتا ہے، تو کہیں ذرائع ابلاغ کی تبدیل ہوتی ہوئی ترجیحات کی اطلاع ملتی ہے۔ اس کتاب میں محمود شام سے گفتگو کا سلسلہ 51 صفحات تک جاری رہتا ہے، جب کہ مظہر عباس سے ملاقات 56 صفحات تک دراز ہے۔ وسعت اللّہ خان کی باتیں 28 صفحات تک قارئین کو سیر کرتی ہیں، انور سن رائے 44 صفحات تک اظہارخیال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے ہی نذیر لغاری 74 صفحات تک موجود ہیں اور عار ف الحق عارف 116 صفحات تک گویا رہتے ہیں۔ آخر میں زاہد حسین 30 صفحات تک اپنی یادداشتوں میں قارئین کو شریک کرتے ہیں۔ سات انٹرویو کے ساتھ سات ہی تبصرہ نگاروں نے اِس کتاب کو اپنی آرا سے سجایا ہے۔

ان میں تین وہ صحافی بھی اظہارخیال کرتے ہیں، جن سے تفصیلی گفتگو اس کتاب کا حصہ بھی ہے۔ اس کتاب میں شامل یہ سات انٹرویو مختلف مواقع پر کیے گئے ہوں گے، اس لیے اگر انٹرویو کی اشاعت کی تاریخ بھی کتاب کے مندرجات میں شامل ہوجاتی، تو آنے والے دنوں میں محققین کے لیے زیادہ سہولت اور آسانی کا باعث رہتی، یا پھر جن تاریخوں کے دوران یہ انٹرویو شائع ہوتے رہے، یہ اگر خبر ہو جاتی، تو کافی چیزیں استدلال کے کام آسکتی ہیں۔ امید ہے کہ اگلی اشاعت میں اس جانب بھی توجہ کرلی جائے گی۔ یہ ضخیم کتاب آواز پبلی کیشنز (030400568662) کی جانب سے کی گئی ہے، اس کی قیمت دو ہزار روپے ہے۔

نثرِ اختر۔۔۔ ایک نئی دریافت

اردو ادب میں اخترشیرانی کی وجۂ شہرت شاعر اور بطور رومانی شاعر رہی ہے۔ اگرچہ خواتین کے حوالے سے اخترشیرانی کی نظمیں ’نغمۂ حرم‘ اور بچوں کے لیے ان کی نظمیں ’پھولوں کے گیت‘ کے نام سے موجود بھی ہے، لیکن اس کے باوجود اردو میں ان کو ’رومانیت کا امام‘ قرار دیا جاتا ہے۔ معروف محقق اور ماہرِلسانیات ڈاکٹر یونس حسنی کہتے ہیں کہ انھوں نے اخترشیرانی کے کام کی اُس وقت ان کے مضامین کی تلاش کی جب فوٹو اسٹیٹ کی سہولت بھی موجود نہ تھی اور ان کو سارا کام اپنے ہاتھ سے نقل کرنا پڑتا تھا۔

’نثرِ اختر‘ میں ڈاکٹر یونس حسنی نے اختر شیرانی صاحب کے 35 نثری مضامین جمع کیے ہیں، جس کے بعد انھیں یہ توقع ہے کہ اختر شیرانی کی بطور نثر نگار بھی ایک شناخت قائم ہوسکے گی۔ اخترشیرانی نے بوجوہ اپنے بہت سے مضامین ادھورے چھوڑ دیے، ڈاکٹر یونس حسنی اس کا ذکر بھی کرتے ہیں اور اس ’غفلت‘ کے باوجود اختر شیرانی کے وقیع کام کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’نثرِاختر‘ میں مندرجات کو تین زمروں میں بانٹا گیا ہے۔ ’عالمِ ادب‘ میں 18، ’خیالات وافکار‘ میں چار، ’اوراق پارینہ‘ میں 10، جب کہ ’شکاریات‘ میں اختر شیرانی کے تین مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں بہت سی جگہوں پر اخترشیرانی کے خطوط یا متن کو فارسی زبان میں بھی نقل کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے 2010ء میں ’آکسفورڈ یونیورسٹی پریس‘ سے دس مضامین ’نگارشات اختر‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ اس تحقیقی تصنیف کے بعد ڈاکٹر یونس حسنی کے میدانِ تحقیق میں اختر شیرانی کے ایک اور باب میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مستقبل میں اخترشیرانی کے حوالے سے کسی بھی تحقیق میں یہ تصانیف یقیناً کلیدی کردار ادا کریں گی۔ 320 صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت 1200 روپے ہے۔ اشاعت کا اہتمام رنگِ ادب پبلی کیشنز (0336-2085325, 0300-2054154) اردو بازار کراچی کی جانب سے کیا گیا ہے۔

’سفر کے اَسرار‘

اختر شہاب اپنی اس تصنیف سے قبل دو کتب ’ہم مہرباں‘ اور ’من تراش‘ بھی لکھ چکے ہیں۔ وہ اپنی اس کتاب ’سفرین کہانی‘ کا عنوان ’دو سفرنامے‘ رکھنا چاہتے تھے، لیکن پھر انھیں یہ معلوم ہوا کہ اس نام سے خواجہ حسن دہلوی کی ایک کتاب پہلے ہی شائع ہوچکی ہے۔ پھر ایک عنوان ’سفردرسفر‘ رکھنا چاہا، تو اس نام سے پہلے ہی اشفاق احمد کی ایک تصنیف موجود پائی۔ یہی نہیں ’دو سفر‘ کے عنوان سے محمد خالد اختر کی کتاب بھی چَھپ چکی ہے۔ چناں چہ پھر انھوں نے اپنی کتاب کے عنوان کے لیے عربی زبان سے استفادہ کیا اور یوں ’سفرین کہانی‘ منظر عام پر آگئی۔

اس کتاب میں شامل پہلا سفر ’شاہ راہِ ریشم کے ساتھ ساتھ‘ کے عنوان سے ہے، جس میں ہمیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی کوچہ نوردی کی داستان پڑھنے کو ملتی ہے، جب کہ ’بارشوں کے شہر میں‘ ان کے انڈونیشیا کے سفر کی کہانی ہے۔ اس سفرنامے کا بیان خلاصے سے زیادہ ’روزنامچے‘ کی طرح دکھائی دیتا ہے، اور اس میں اکثر مکالمے اور گفتگو کی شکل بھی سامنے آتی ہے۔

کئی جگہوں پر سفرنامہ نگار کی جانب سے زیبِ داستاں کا بھی گماں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا بہت سے احوال اَسرار کی تہوں میں رہا جاتا ہے، اس حوالے سے ناشر اور مبصر بھی اظہار کیے بغیر نہیں رہتے، گویا کہ انھوں نے کام یابی سے اپنے قارئین کو ایک تجسس میں ڈال دیا ہے۔ 135 صفحات کے اس مجلد نسخے کی اشاعت حسن ادب پبلشرز (0321-3556953) فیصل آباد سے کی گئی ہے۔ قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے۔

’جنگ کا روزنامچہ!‘

اس کتاب کے واسطے بھی مصنف اختر شہاب نے عربی زبان سے استفادہ کیا ہے اور ’الحین بھوم‘ (جنگ چھڑ گئی ہے) کو اس کا عنوان بنایا ہے۔ اس میں سابق عراقی صدر صدام حسین کے زمانے کی خلیج کی جنگ کی روداد ہے، جب اؒختر شہاب صاحب، بہ سلسلۂ ملازمت سعودی عرب میں مقیم تھے۔ ڈاکٹر عارف حسین عارفؔ کے بقول ’الحین بھوم‘ اردو ادب کی شائستگی میں ایک بھرپور اضافہ ہے، لیکن ہم سیاسیات کے ایک طالب عالم کہ طور ہر اِسے عالمی تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوع کی بھی ایک اہم تصنیف شمار کرنا چاہیں گے۔

چالیس چھوٹے موضوعات میں بٹا ہوا یہ 1990ء کے زمانے کی خلیج کی جنگ کا احوال سفرنامہ کہیے یا ڈائری (روزنامچہ)، یہ ہر دو صورتوں میں ایک منفرد اور خاص قسم کی کتاب قرار پاتا ہے۔ ہمارا وہ حال، جو ماضی میں جا کر تاریخ ہو جاتا ہے، اُسے پرانے اخبارات، پرانے احوال اور پرانے ماحول میں انھی حالات میں جا کر دوبارہ دیکھنا ایک الگ اور منفرد ہی تجربہ ہوتا ہے۔ تاریخ میں اس کی اتنی تفصیل نہیں ملتی، اور یہ زاویہ تو مل ہی نہیں سکتا، جو ایک ہی واقعے اور ایک ہی تنازع پر ہر فرد اپنے اپنے طور پر محسوس کر رہا ہوتا ہے اور پھر اس کا تجزیہ بھی کر رہا ہوتا ہے۔

بعد میں تو وہ واقعہ یا جنگ ایک مکمل واقعہ اپنے نتائج کے ساتھ رقم کر دیا جاتا ہے، جب کہ اپنے وقوعے کے ساتھ اس کے لوازمات اور جزئیات ایک الگ ہی منظر دکھاتی ہیں اور کبھی کبھی سارے معاملے کے نشیب وفراز کو ایک انفرادیت بھی عطا کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں اس کتاب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ 259 صفحات پر مشتمل یہ کتاب حسن ادب پبلشرز (0321-3556953) فیصل آباد نے شائع کی ہے۔ قیمت 1200 روپے رکھی گئی ہے۔

بہت ’متوازن‘

ڈاکٹر یونس حسنی اس وقت لسانی تحقیق اور اردو زبان وادب کے چند بڑے اور صف اول کے نقادوں میں شامل ہیں۔ ’توازن‘ ڈاکٹر یونس حسنی کے کچھ ایسے تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جو کہ اس نوعیت کی ان کی دوسری کتاب ہے۔

اس سے قبل بہ عنوان ’کاوشیں‘ بھی ان کے ایسے ہی تحقیقی مضامین مرتب کیے جا چکے تھے۔ ’توازن‘ کی شروعات میں مسرور کیفی اور ادب گلشن آبادی کی نعت گوئی پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو چھے مختلف زمروں میں بانٹا گیا ہے۔ جس میں ’مطالعات‘ کے عنوان میں سات مضامین شامل ہیں۔ جن میں ہمیں مختلف ادبی اصناف اور ان کی اُٹھان کا تذکرہ ملتا ہے۔

’زاویہ نظر‘ میں تین مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ’مطالعہ معاصرین (نظم) میں 17، جب کہ مطالعہ معاصرین (نثر) میں 11 تحقیقی رشحات جمع کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں ڈاکٹر یونس حسنی کی آبائی ریاست ٹونک (راجستھان) کے شاعر اور ادیب‘ کے حوالے سے بھی ایک حصہ مختص ہے، جس میں ہمیں وہاں کے پانچ شعرا کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر یونس حسنی کی تحقیق کا ایک اہم حوالہ اختر شیرانی صاحب بھی ہیں، چناں چہ اُن کی اِس کتاب میں بھی ہمیں ایک گوشہ ’اختر شیرانی‘ سے منسوب دکھائی دیتا ہے، جس میں پانچ مضامین سجائے گئے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب کا انتساب اپنے استاد ڈاکٹر گیان چند جین اور دیگر محسنین کی نذر کیا ہے۔ یہ کتاب رنگ ادب پبلی کیشنز (0336-2085325, 0300-2054154) اردو بازار، کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ 336 صفحات کی مجلد کتاب کی قیمت 1200 روپے ہے۔

’’عظمت نامہ‘‘

’عظمت نامہ‘ (جلد اول) عظمت خان کے ان اخباری مضامین اور کالم کا مجموعہ ہے، جو مختلف اخبار وجرائد کے علاوہ کچھ ویب سائٹس پر بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی یہ نگارشات روزنامہ اوصاف (اسلام آباد) روزنامہ بشارت (کراچی)، روزنامہ محشر (کراچی)، جیسے مختلف شہروں کے اخبارات سے لے کر ’ہماری ویب‘ اور ’اردو پوائنٹ‘ جیسی کچھ ویب سائٹ کی زینت بھی بن چکے ہیں۔ یوں تو عظمت خان شہر قائد میں ایک معاصر سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں، لیکن ان کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ اس کے سوا ہے، جو ان کی باقاعدہ پیشہ وارانہ زندگی شروع ہونے سے بھی پہلے سے جاری ہے اور یہ کتاب بہت سے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے۔ عظمت خان کی پہلی کتاب ’دُختر پاکستان ارفع کریم رندھاوا‘ تھی۔ جو 2012ء میں منصۂ شہود پر آئی۔

اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت ہری پوری سے کراچی آئے ہوئے ان کے والدین کو دورۂ حدیث کی دستار بندی کے ساتھ کراچی آرٹس کونسل میں ان کی کتاب کی تقریب رونمائی بھی دیکھنے کی مسرت مل گئی۔ عظمت خان کی یہ کتاب ان کے مضامین کو مختلف موضوعاتی زُمروں میں بانٹتی ہے۔ جس میں ’فکر امروز‘ میں 31 مضامین، ’دنیائے دن‘ میں آٹھ، ’نقوش رفتگاں‘ میں آٹھ اور مختلف مقابلوں کے لیے لکھے گئے چھے مختلف مضامین پر مشتمل ہے۔ اکثر مضامین کی تاریخ اشاعت بھی درج ہے، جس سے قاری کو موضوع کے سیاق وسباق اور پس منظر کے حوالے سے سمجھنے میں سہولت رہتی ہے۔ یہ کتاب مرکز تحقیق و نشر و اشاعت (0333-3013136) کراچی کی جانب سے شائع کی گئی ہے، اس کے صفحات 205 ہیں، جب کہ قیمت درج نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر یونس حسنی کے حوالے سے اس کتاب میں کی جانب سے شیرانی کے قارئین کو کی گئی ہے کے عنوان انھوں نے صحافت کی صفحات تک میں ایک جاتا ہے کے ساتھ شامل کی کیے گئے گئے ہیں ہوتا ہے ہیں اور یہ کتاب کتاب کے کے بعد گیا ہے کے لیے بہت سے اور یہ ہیں کہ

پڑھیں:

کراچی: رینجرز کی خفیہ معلومات پر کارروائی، 5 ملزمان گرفتار

فائل فوٹو

کراچی میں رینجرز نے خفیہ معلومات پر کارروائی کر کے 5 ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

ترجمان کے مطابق گرفتار ملزمان بھتہ خوری اور ڈکیتی کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیں۔ گرفتار ملزمان میں معاذ، عرفان اللہ شاہ، عبدالغفور عرف لال، کریم اور بلال شامل ہیں۔

ملزمان سے نقلی پستول، چوری شدہ موٹرسائیکل اور بھتے کی پرچیاں برآمد کی گئی ہیں، یہ گروہ لیاری گینگ وار بلال پپو گروپ کے لیے بھتہ وصول کرتا تھا اور مختلف گوداموں، تاجروں اور دکانداروں سے رقم بٹورتا تھا۔

کراچی: رینجرز کی کارروائی، پانچ ملزمان گرفتار

 پاکستان رینجرز نے کراچی کے مختلف علاقوں میں...

ترجمان نے بتایا کہ گرفتار ملزمان کریم اور بلال نے مختلف علاقوں میں ڈکیتی کی وارداتیں بھی کی ہیں، ملزمان شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے نقلی پستول استعمال کرتے تھے۔

ملزمان کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں، گرفتار ملزمان کو برآمد شدہ سامان کے ہمراہ پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ریاض سیزن 2025 کے تحت مختلف ممالک کے ثقافتی ویک منانے کا آغاز
  • کتاب دوستی: عالمی رجحانات اور پاکستان کی صورت حال
  • کراچی میں رینجرز کی کارروائی، 5 ملزمان گرفتار
  • کراچی: رینجرز کی خفیہ معلومات پر کارروائی، 5 ملزمان گرفتار
  • مصنوعی ذہانت اور میڈیا کی نئی دنیا
  • پولیس نے مختلف علاقوں سے 30ملزمان کو دھر لیا
  • ’خیبر یونین آف جرنلسٹس م آزادی صحافت کے لیےآواز بلند کرتی رہے گی‘، اسپیکر بابر سلیم کے بیان پر ردعمل
  • مخصوص ڈرامے بنانے کیلئے مغرب سے فنڈنگ آتی ہے، محمود اختر کا انکشاف
  • پاکستان کے سینئر اداکار محمود اختر نے ڈرامہ انڈسٹری کے بارے میں بڑا انکشاف کر دیا