data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت نے سکھ یاتریوں کو بابا گرو نانک کے جنم دن کی تقریبات پر پاکستان آنے سے روک دیا، جس پر دنیا بھر کے سکھوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی حکومت کھلم کھلا سکھ برادری کے بنیادی مذہبی حقوق پامال کرنے پر اتر آئی ہے، سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک کے جنم دن کے موقع پر پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کے جتھے پر پابندی لگا دی گئی۔بھارتی وزارت داخلہ کے نوٹس میں پابندی کے لیے سنگین سیکورٹی صورتحال کا بہانہ بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر کی سکھ تنظیموں نے بھارت کے دعوے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسے بنیادی مذہبی حقوق چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کا دہرا معیار ہے، سکھوں کی پاکستان کے ساتھ فلمیں بن سکتی ہیں نہ مذہبی مقامات کی زیارتیں کرنے دی جاتی ہیں، جبکہ بی جے پی حکومت اپنے مالی مفادات کے لیے کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ بھارتی صحافی راجدیپ سردیسائی نے بھی سوال اٹھایا کہ پاکستان سے کرکٹ میچ ہوسکتے ہیں لیکن سکھ مذہبی یاتری پاکستان نہیں جا سکتے؟ سکھ فیڈریشن برطانیہ نے بھی بھارتی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

مانیٹرنگ ڈیسک.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

 

بھارت کے مسلمان پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے اور ہرزہ سرائی کر کے جتنی بھی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر لیں لیکن اپنی وفاداری ثابت نہیں کر سکتے ۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کا نام نہاد مسلم رہنما اسد الدین اویسی زہریلا انسان ہے اور مودی کا ایجنٹ ہے بہت فخریہ انداز میں دو قومی نظریہ کی مخالفت کرتا ہے ۔اپنے آپ کو محب وطن بھارتی کہتا ہے لیکن آج تک مسلمانوں کے حقوق اور ہندوتوا سوچ سے آزادی نہیں دلا سکا۔صرف میڈیا پر بھاشن جھاڑتا ہے ۔بھارت کے مولوی بھی دوغلے ہیں ۔یہ پاکستان مخالفت میں اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، ان کا ایجنڈا بھی پاکستان مخالف بیانیہ ہے ۔اسی وجہ سے بھارتی متعصب ہندو لیڈروں اور تنظیموں کی وجہ سے وہاں شر پھیلاتا ہے ۔گزشتہ دنوں ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔
بھارت میں( I Love Muhammad) کے جملے نے جس تیزی سے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ہے ، وہ محض نبی کریم ۖ سے محبت اور عقیدت کا اظہار تھا مگر اس نے ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ابتداء ایک سادہ سی کارروائی سے ہوئی جب اُتر پردیش کے شہر کنپور کے علاقے راوت پور میں عید میلاد النبی ۖ کے جلوس کے دوران ایک برقی بورڈ پر I Love Muhammad تحریر نمایاں کی گئی۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے اسے نئی روایت قرار دیتے ہوئے مخالفت کی اور کچھ افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی علامتی اشیاء پہلے کبھی جلوس کے روایتی راستے پر استعمال نہیں کی گئیں اور اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک محبت بھرا پیغام تنازع کا شکار ہو کر پورے ملک میں پھیل گیا۔کنپور کے بعد یہ معاملہ صرف ایک شہر تک محدود نہ رہا بلکہ جلد ہی اتر پردیش کے دیگر اضلاع جیسے انّاؤ، کاوشامبی، مہرّاج گنج، بَرے لی اور لکھنؤ تک پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد، مہاراشٹر کے شہر ناگ پور اور اتراکھنڈ کے کاشی پور میں بھی یہی نعرہ بلند ہوا۔ جگہ جگہ مسلمان نوجوان اور مذہبی تنظیمیں بینرز لے کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ ان کا مؤقف یہی تھا کہ یہ ان کا آئینی اور مذہبی حق ہے کہ وہ اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کریں اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔دوسری طرف متعصب ہندو تنظیموں کا ردعمل انتہائی سخت اور جارحانہ تھا۔ انہوں نے اسے ایک نئی روایت قرار دے کر مخالفت شروع کر دی۔ بعض جگہوں پر ہندو انتہا پسند گروپوں نے بینرز کو پھاڑنے اور جلوس روکنے کی کوششیں کیں۔ کنپور میں ایک ہندوتوا تنظیم نے کھلم کھلا ایک بورڈ توڑ ڈالا لیکن اس کے باوجود پولیس نے کارروائی مسلمانوں کے خلاف ہی کی اور ایف آئی آر میں صرف ان کے نام درج کیے گئے ۔ ان گروپوں کا دعویٰ تھا کہ ایسی نئی روایات جلوسوں میں شامل کرنا سماجی امن کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ یوں یہ معاملہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی شکل اختیار کر گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ۔
اس تحریک میں کئی مسلم سیاسی رہنما اور جماعتیں بھی سامنے آئیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ I Love Muhammad کہنا کسی بھی صورت جرم نہیں ہے ، یہ محض ایک جذباتی اظہار ہے اور اس پر ایف آئی آر کاٹنا غیر آئینی اور امتیازی رویہ ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے رہنماؤں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں کو بلاوجہ ہراساں کر رہی ہے اور ان کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ صوفی تنظیموں اور مذہبی اداروں جیسے ورلڈ صوفی فورم اور جماعت رضا مصطفی نے بھی اپنے بیانات میں واضح کیا کہ مسلمانوں کا یہ اظہار پرامن ہے اور اسے روکنے کی بجائے اس کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ماننے والوں کو صبر اور تحمل کا دامن تھامنے کی تلقین کی تاکہ کسی طرح کا تشدد یا انتشار نہ پھیلے ۔ادھر بی جے پی اور ریاستی حکومتوں کا مؤقف اس کے برعکس رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ جلوس اور مذہبی تقریبات میں نئی چیزیں شامل کرنا سماجی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی کا حق ہے ۔ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے اسے امن و امان کا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ ریاستی حکومتیں صرف اپنا آئینی فرض ادا کر رہی ہیں۔مرکزی حکومت یعنی مودی سرکار نے اگرچہ اس معاملے پر کھلا بیان دینے سے گریز کیا لیکن اس کا عمومی مؤقف یہی رہا کہ ریاستی حکومتیں اپنے دائرہ کار میں قانون کے مطابق کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں اصل اعتراض بینر کے الفاظ پر نہیں بلکہ جلوس میں نئی روایت شامل کرنے پر تھا۔ تاہم اس وضاحت نے مسلمانوں کو مطمئن نہیں کیا بلکہ ان کے خدشات کو مزید بڑھا دیا کہ حکومت دراصل تعصب کا شکار ہے اور اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے اظہار کا حق نہیں دیا جا رہا۔یہ تمام صورتحال بھارت کے آئین میں درج مذہبی آزادی اور اظہار رائے کے حق کو سوالیہ نشان بنا رہی ہے ۔
ایک طرف مسلمان پرامن طریقے سے اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اسے جرم بنا کر پیش کر رہی ہے۔ اگر ریاست اس قدر امتیازی رویہ اپنائے گی تو یہ تحریک محض ایک نعرے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک بڑے سیاسی اور سماجی دباؤ میں بدل جائے گی۔ اس وقت بھارت کو دراصل سب سے زیادہ ضرورت مذہبی رواداری اور یکجہتی کی ہے ۔ اگر ہر طبقہ دوسرے کے جذبات کا احترام کرے تو ایسے تنازعات جنم ہی نہ لیں۔
آخر میں یہ بات واضح ہے کہ I Love Muhammad تحریک صرف ایک بینر یا بورڈ نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز ہے ۔ اس آواز کو دبانے کی کوشش دراصل ایک ایسی چنگاری کو ہوا دینا ہے جو ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تحریک کو تعصب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اسے ایک پرامن مذہبی اظہار سمجھے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ ایف آئی آر واپس لے ، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے اور متعصب عناصر کو قابو میں کرے ۔ عوام کو بھی چاہیے کہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور احتجاج کو پرامن رکھیں تاکہ مخالفین کو الزام تراشی کا کوئی موقع نہ ملے ۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور بھارت کی سیکولر شناخت پر ایک بڑا سوال کھڑا ہو سکتا ہے ۔ بھارتی مسلمان ذہنی غلامی سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے متعصب ہندو ان کو مذہبی دباؤ میں رکھتے ہیں۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کے مسلم رہنما پاکستان کی فکر چھوڑیں اور اپنے حقوق کے حصول مسائل پر توجہ دیں۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • مودی سرکار کی ضد نے ہزاروں سکھوں کو بابا گرونانک کی تقریبات سے دور کر دیا
  • عالمی مقابلوں میں 15 گولڈ میڈلز، سبز ہلالی پرچم سربلند کرنے والی پاکستان کی مسیحی بیٹیاں
  • حضرت بابا شاہ جمال قادریؒ کاسالانہ عرس کل سےشروع ہوگا
  • پاک بھارت میچ میں متنازع گفتگو کرنے پر بھارتی کپتان بڑی مشکل میں پھنس گئے
  • بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل
  • آشرم میں 17 خواتین کو ہراساں کرنے والا بھارتی بابا فرار
  • مودی حکومت کی تصویری سفارتکاری پر مبنی خارجہ پالیسی تنقید کی زد میں
  • کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہاہے!
  • گورونانک کی  برسی، 3 روزہ تقریبات ختم، ہزاروں سکھ یاتریوں کی واپسی