بھارت نے سکھ یاتریوں کو بابا گرونانانک کے جنم دن کی تقریبات پر پاکستان آنے سے روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت نے سکھ یاتریوں کو بابا گرو نانک کے جنم دن کی تقریبات پر پاکستان آنے سے روک دیا، جس پر دنیا بھر کے سکھوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی حکومت کھلم کھلا سکھ برادری کے بنیادی مذہبی حقوق پامال کرنے پر اتر آئی ہے، سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک کے جنم دن کے موقع پر پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کے جتھے پر پابندی لگا دی گئی۔بھارتی وزارت داخلہ کے نوٹس میں پابندی کے لیے سنگین سیکورٹی صورتحال کا بہانہ بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر کی سکھ تنظیموں نے بھارت کے دعوے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسے بنیادی مذہبی حقوق چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کا دہرا معیار ہے، سکھوں کی پاکستان کے ساتھ فلمیں بن سکتی ہیں نہ مذہبی مقامات کی زیارتیں کرنے دی جاتی ہیں، جبکہ بی جے پی حکومت اپنے مالی مفادات کے لیے کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ بھارتی صحافی راجدیپ سردیسائی نے بھی سوال اٹھایا کہ پاکستان سے کرکٹ میچ ہوسکتے ہیں لیکن سکھ مذہبی یاتری پاکستان نہیں جا سکتے؟ سکھ فیڈریشن برطانیہ نے بھی بھارتی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔
مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔
ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔
اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔
سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔
قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔