نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 ستمبر2025ء)بھارت کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے متنازع بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ 16ویں صدی میں بابری مسجد کی تعمیر بذات خود ایک بیحرمتی تھی۔عرب ٹی وی کے مطابق بھارت کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے متنازع بیان دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ 16ویں صدی میں بابری مسجد کی تعمیر خود ایک بڑی بیحرمتی تھی جو سپریم کورٹ کے 2019 کے ایودھیا فیصلے کے برعکس ہے۔

ریٹائرڈ جسٹس چندرچوڑ اس پانچ رکنی بینچ میں شامل تھے جس کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کر رہے تھے، اس بینچ نے نومبر 2019 میں ایودھیا کی متنازع زمین پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔تاہم عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی)کی رپورٹ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بابری مسجد کسی پرانی عمارت کو گرا کر بنائی گئی تھی۔

(جاری ہے)

سری نیواسن جین کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ آپ نے مزاحمت نہیں کی جب کہ ہندوئوں نے کی اور یہ بات مسلمانوں کے خلاف گئی۔جسٹس چندرچوڑ نے جواب میں کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ ہندوئوں نے اندرونی صحن کی بیحرمتی کی، تو اس بنیادی بیحرمتی کا کیا جس کا آغاز مسجد کی تعمیر سے ہی ہوا کیا آپ بھول گئے کہ تاریخ میں کیا ہوا تھا انہوں نے اے ایس آئی کے اس نتیجے کا حوالہ دیا کہ مسجد کے نیچے 12ویں صدی کا ایک ہندو طرز کا ڈھانچہ موجود تھا۔

جسٹس چندرچوڑ نے اسے تاریخی شواہد قرار دیتے ہوئے ناقدین پر الزام لگایا کہ وہ تاریخ کو چن کر دیکھتے ہیں اور ناپسندیدہ حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ آنکھیں کیسے بند کر سکتے ہیں یہ جو تبصرہ نگار کرتے ہیں، وہ تاریخ کا انتخابی مطالعہ کرتے ہیں اور کچھ شواہد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ تاریخ 1992 میں مسجد کے انہدام کو جواز فراہم کرتی ہے تو چندرچوڑ نے اس خیال کو رد کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے نے روایتی اصولوں کی بنیاد پر ملکیت کے تعین کا طریقہ اپنایا اور شواہد اور اصولوں کی روشنی میں ہی نتیجے پر پہنچا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تنقید کہ فیصلہ عقیدے پر ہے، شواہد پر نہیں، دراصل ان لوگوں کی ہے جنہوں نے فیصلہ پڑھا ہی نہیں۔جسٹس چندرچوڑ کے نیو لانڈری کو دیے گئے بیان کے برعکس، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کہا تھا کہ صرف اے ایس آئی کی رپورٹ ملکیت ثابت نہیں کر سکتی، فیصلے میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ 12ویں صدی کے ڈھانچے اور 16ویں صدی کی مسجد کے درمیان صدیوں کا خلا ہے اور کوئی شواہد موجود نہیں کہ پرانا ڈھانچہ مسجد کی تعمیر کے لیے گرایا گیا تھا۔

انہوں نے ایک اور متنازع مقدمے گیانواپی مسجد کے معاملے پر بھی بات کی۔جسٹس چندرچوڑ نے وضاحت کی کہ سپریم کورٹ نے سروے کی اجازت کیوں دی حالانکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تحت ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ان کے مطابق وہاں عبادت گاہ کا مذہبی کردار طے شدہ نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ہندو صدیوں سے مسجد کے تہہ خانے میں عبادت کرتے رہے ہیں، یہ ایک غیر متنازع حقیقت ہے، حالانکہ مسلمان ہمیشہ سے اس دعوے کو چیلنج کرتے آئے ہیں۔

جموں و کشمیر کے معاملے پر چندرچوڑ نے حکومت کے ریاستی ازسرنو ڈھانچے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر حکام کو قومی مفاد میں فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔جب ان سے ریٹائرمنٹ کے بعد حکومتی عہدے قبول کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس نظریے کے حامی نہیں کہ ریٹائرڈ ججز کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، ہر ایک کو اپنی مرضی کا حق ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مسجد کی تعمیر سپریم کورٹ انہوں نے چیف جسٹس مسجد کے تھا کہ کہا کہ

پڑھیں:

سابق ججز اور وکلا کا چیف جسٹس سے 27ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ

سابق ججز اور نامور وکلا نے پیر کے روز چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے مطالبہ کیا کہ وہ 27ویں آئینی ترمیم پر غور کے لیے فل کورٹ اجلاس طلب کریں۔

تفصیلات کے مطابق سینئر وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے تحریر کردہ خط 9 نومبر کو لکھا گیا ہے جس کی کاپی ڈان کو موصول ہوگئی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس (ریٹائرڈ) مشیر عالم، سابق سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس (ریٹائرڈ) ندیم اختر، اور دیگر 9 نامور وکلا نے اس پر دستخط کیے اور اس کی توثیق کی۔

View this post on Instagram

A post shared by Dawn Today (@dawn.today)


خط میں کہا گیا کہ یہ پیغام عام حالات میں نہیں بلکہ ان حالات میں لکھا جا رہا ہے جو 1956 میں سپریم کورٹ کے قیام کے بعد سے اب تک ادارے کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اس خط میں 27ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کو وفاقی اپیلیٹ کورٹ کے ڈھانچے میں ’سب سے بڑی اور بنیادی تبدیلی‘ قرار دیا گیا جو 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعد پہلی بار سامنے آئی ہے۔

وکلا اور جج صاحبان نے خط میں کہا کہ ہم یہ بات بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی سول یا فوجی حکومت نے کبھی یہ کوشش نہیں کی، یا کامیاب نہیں ہوئی کہ سپریم کورٹ کو ماتحت عدالت بنا دے اور اس سے مستقل طور پر اس کا آئینی دائرہ اختیار چھین لے، جیسا کہ مجوزہ (27ویں آئینی ترمیمی ایکٹ 2025) کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ اگر آپ (چیف جسٹس)، اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ یہ مجوزہ ترمیم سپریم کورٹ کی تشکیل کے بعد سے سب سے بڑی اور انقلابی تبدیلی ہے، تو ہم مؤدبانہ طور پر گزارش کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ آپ فل کورٹ میٹنگ طلب کریں تاکہ اس مجوزہ ترمیمی ایکٹ پر بحث کی جا سکے اور وفاقی حکومت کو مناسب تجاویز اور آراء دی جا سکیں۔

قانونی ماہرین نے زور دیا کہ ہم مؤدبانہ طور پر عرض کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو کسی بھی مجوزہ آئینی ترمیم پر وفاقی حکومت کو اپنی رائے دینے کا مکمل حق اور اختیار حاصل ہے، یہ مجوزہ قانون سازی سپریم کورٹ کے بنیادی ڈھانچے، اس کی آئینی حیثیت، اور انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری میں ’انقلابی تبدیلیاں‘ لا رہی ہے۔

خط میں فوری فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ترمیم 11 نومبر (آج) یا اس کے بعد کسی بھی دن منظور کیے جانے کی توقع ہے۔

مزید کہا گیا کہ اگر یہ درخواست اس جواز کے تحت مسترد کر دی جاتی ہے کہ عدالت کو غیر جانبدار رہنا چاہیے یا قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ’جو وجوہات ہم غیر معقول سمجھتے ہیں‘، تو کم از کم ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ تحریری طور پر تسلیم کریں گے کہ آپ پاکستان کے آخری چیف جسٹس بننے پر رضامند ہیں، اور یہ بھی کہ آپ سپریم کورٹ آف پاکستان کے بطور اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کے خاتمے کو تسلیم کر چکے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ اگر آپ اس حقیقت کا اعتراف کر لیں، تو ہم آپ سے یہ توقع نہیں رکھیں گے کہ آپ سپریم کورٹ کے دفاع میں کوئی کردار ادا کریں گے۔

چونکہ یہ معاملہ انتہائی عوامی اہمیت کا حامل ہے، اس لیے خط میں یہ بھی درخواست کی گئی کہ اس کی ایک نقل میڈیا کو فراہم کی جائے۔

فیصل صدیقی اور ریٹائرڈ ججوں مشیر عالم اور ندیم اختر کے علاوہ، اس خط کی توثیق سابق اٹارنی جنرلز منیر اے ملک، انور منصور خان، سابق صدور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد ایس زبیری، علی احمد کرد، محمد اکرم شیخ، کنرانی بی امان اللہ، اور سپریم کورٹ کے وکلا خواجہ احمد حسین، صلاح الدین احمد، اور شبنم نواز اعوان نے بھی کی۔

عدالتی ڈھانچے میں مجوزہ تبدیلیاں
وفاقی کابینہ سے منظوری کے فوراً بعد (27ویں ترمیمی ایکٹ 2025 ہفتے کے روز سینیٹ میں پیش کیا گیا، جس پر حزبِ اختلاف نے ترمیم میں شامل تبدیلیوں کی رفتار اور وسعت پر شدید اعتراض کیا۔

سینیٹ کا اجلاس آج مسلسل تیسرے روز جاری ہے، اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایوان اس قانون کی منظوری دے دے گا، جس کے بعد یہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

ترمیم میں شامل مختلف تبدیلیوں میں سب سے اہم عدلیہ سے متعلق ہے، جن میں سب سے نمایاں تجویز وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی ہے۔

یہ نئی عدالت آئینی امور سے متعلق مقدمات سنے گی، اور اس کے فیصلے تمام عدالتوں (بشمول سپریم کورٹ) پر لازم ہوں گے۔

اسی نکتے کی بنیاد پر کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ان ترامیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ کو درحقیقت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے درجے سے محروم کر دیا جائے گا۔

ترمیم کا بنیادی نکتہ ایک نئی اعلیٰ ترین عدالت (وفاقی آئینی عدالت) کا قیام ہے، جو کہ 26ویں ترمیم کے تحت بنائے گئے آئینی بنچز کی توسیع پر مبنی ہوگی، جنہیں اس وقت سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔

آئین میں باب 1-اے کے طور پر شامل کی جانے والی یہ عدالت اپنے چیف جسٹس اور ججوں پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس تین سال کی مدت کے لیے مقرر کیا جائے گا جب کہ جج سپریم کورٹ سے لیے جا سکتے ہیں، یا ایسے سینئر ہائی کورٹ ججز جو کم از کم 7 سال کا تجربہ رکھتے ہوں، یا پھر ایسے ماہر وکلا جنہیں وکالت کا کم از کم 20 سال کا تجربہ ہو۔

وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے، جب کہ موجودہ آئین کے آرٹیکل 179 کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر 65 سال ہے۔

ترمیم میں مزید کہا گیا ہے کہ صدرِ مملکت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکیں گے اور اگر کوئی جج اس تبادلے کو قبول نہ کرے تو اسے اپنے عہدے سے ریٹائر تصور کیا جائے گا۔

وفاقی آئینی عدالت، سپریم کورٹ کے کئی اہم اختیارات سنبھال لے گی، نئے آرٹیکل 189 کے تحت سپریم کورٹ کو صرف دیوانی اور فوجداری اپیلوں کی اعلیٰ ترین عدالت تک محدود کر دیا جائے گا، جب کہ آئینی عدالت کے فیصلے تمام عدالتوں حتیٰ کہ سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوں گے۔

وفاقی آئینی عدالت کو وفاق اور صوبوں کے درمیان یا صوبوں کے باہمی تنازعات پر بھی خصوصی دائرہ اختیار حاصل ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ عدالت از خود نوٹس لیتے ہوئے کسی بھی ایسے مقدمے کی سماعت کر سکے گی جس میں آئین کی تشریح سے متعلق کوئی بنیادی قانونی سوال شامل ہو۔

مزید برآں، وفاقی آئینی عدالت کو ان مقدمات پر بھی اختیار حاصل ہوگا جو بنیادی حقوق کے نفاذ، آئینی نوعیت کی اپیلوں، ہائی کورٹس کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر رِٹ پٹیشنز (خاندانی یا کرایہ داری مقدمات کے سوا)، اور صدرِ مملکت کی طرف سے آئینی مشورے کے لیے بھیجے گئے سوالات سے متعلق ہوں گے یعنی وہ تمام اختیارات جو اس وقت سپریم کورٹ کے دائرے میں آتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سابق ججز اور وکلا کا چیف جسٹس سے 27ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • باجوڑ کی شہید مسجد کی تعمیر مکمل،عوام کا اظہار تشکر
  • باجوڑ میں دہشتگردوں کے حملے میں شہید مسجد کی تعمیر مکمل، عوام کا اظہار تشکر
  • سابق ایم این اے  جسٹس (ر) افتخار چیمہ سپردخاک
  • سابق رکن قومی اسمبلی جسٹس(ر) افتخار چیمہ انتقال کر گئے
  • سابق ایم این اے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کی نمازجنازہ ادا
  • داؤد ابراہیم کا سری لنکا کے سابق باغی گروہ سے اتحاد، بھارتی خفیہ اداروں کا انکشاف
  • پاک فوج کا خیبر پختونخوا کے عوام کیلئے مساجد کی شکل میں مقدس تحفہ
  • پاک فوج کی جانب سے وزیرستان کے عوام کے لیے خوبصورت مسجد کا تحفہ
  • پاک فوج کا جنوبی وزیرستان کے عوام کیلئے مساجد کی شکل میں مقدس تحفہ