اسکردو کا بدھا راک: حکومت کی نظروں سے اوجھل
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
گلگت بلتستان کے دلکش پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان واقع ’بدھا راک‘ صدیوں پرانی تہذیب کا روشن نشان ہے۔ بدھ مت کے دور کی یہ یادگار آج حکومت کی غفلت اور مبینہ قبضہ مافیا کی نذر ہو رہی ہے۔
اسکردو شہر سے 3 کلومیٹر دور سدپارہ روڈ پر واقع یہ چٹان پانچویں سے آٹھویں صدی کے درمیان تراشے گئے بدھ مت کے نقوش کی گواہ ہے۔ غیر ملکی ماہرین آثارِ قدیمہ نے 1940 اور 1950 کی دہائی میں اسے دریافت کیا گیا، مگر اس کی کوئی خاطر خواہ تشہیر نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے اس تاریخی مقام کو کوئی خاص پذیرائی نہیں ہو سکی۔ کچھ عرصہ قبل عالمی سیاحوں اور بدھ مت زائرین نے اس جگہ کا دورہ کیا اس کے بعد یہ مرکزِ نگاہ بن گیا۔
تاہم آج یہ نایاب ورثہ صفائی، سہولتوں اور تحفظ سے محروم ہے۔ اردگرد کا ماحول مایوس کن ہے، اور حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
تقربا 4 سال بعد سکردو جانے کا اتفاق ہوا، اور اس تاریخی مقام کو ایک مرتبہ پھر دیکھنے کا اتفاق ہوا، صرف اردگرد لوہے کی باڑ لگانے اور 3 تعریفی بورڈ لگانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوا۔
مقامی گائیڈ بیدار نے بتایا کہ 2 سال قبل بیرون ملک سے چند بدھ مذہب کے پیروکار یہاں تشریف لائے اور وہاں اپنی مذہبی عبادتیں ادا کیں۔ تاہم انہوں نے کم سہولیات کی بھی شکایت کی۔ اس کے بعد یہ مقام عالمی سیاحوں اور بدھ مت زائرین کے لیے مرکزِ نگاہ بن گیا۔
آج یہ نایاب ورثہ صفائی، سہولتوں اور تحفظ سے محروم ہے۔ اردگرد کا ماحول مایوس کن ہے، اور حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
نجی قبضہ اور غیر قانونی فیسمیرے ذاتی مشاہدہ کے مطابق اس وقت ایک مقامی شخص اس مقام کو اپنی ملکیت ظاہر کرتے ہوئے ہر آنے والے سیاح سے 500 روپے وصول کر رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ رقم حکومت کے خزانے میں جانے کے بجائے براہِ راست اس شخص کی جیب میں جاتی ہے۔ الزام یہ بھی ہے کہ مقامی ریونیو آفسر نے غیر قانونی طور پر اس تاریخی مقام کو اس کے نام الاٹ کیا، حالانکہ قانون کے مطابق نوادرات ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں۔
حکومتی غفلتمحکمہ سیاحت اور نیشنل آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی خاموشی اس معاملے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اپنی ہی تاریخ کو بدعنوانی کے حوالے کر چکی ہے؟
اگر حکومت اس ورثے کو ریاستی تحویل میں لے اور بہتر سہولتیں فراہم کرے تو یہ مقام عالمی سطح پر مذہبی سیاحت کا بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ چین، نیپال، کوریا اور سری لنکا کے زائرین یہاں آ کر نہ صرف پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کر سکتے ہیں بلکہ معیشت کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
تجاویز اور فوری اقداماتنیشنل آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ فوری انکوائری کرے۔ غیر قانونی الاٹمنٹ اگر ہوئی ہے تو اس کو منسوخ کر کے بدھا راک کو ریاستی تحویل میں لیا جائے۔ سیاحوں سے وصولی حکومت کے ذریعے ہو تاکہ اس آمدن کو مقام کی حفاظت اور سہولتوں پر خرچ کیا جا سکے۔
بدھا راک صرف ایک پتھر نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانی تاریخ اور تہذیب کی نشانی ہے۔ اگر اب بھی نوٹس نہ لیا گیا تو یہ ورثہ بدعنوانی کی نذر ہو جائے گا اور پاکستان ایک بڑے سیاحتی موقع سے محروم رہ جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
خوف
افغانستان سے ملحق حساس اور عشروں سے دہشت گردی کا شکار صوبہ خیبرپختونخوا میں 12 سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے جس کے بانی کو طالبان کا حامی ہونے کی وجہ سے طالبان خان بھی کہا جاتا ہے جو کے پی میں سالوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی اب کھل کر مخالفت کر رہے ہیں اور ان کا بس نہیں چل رہا کہ اپنے وزیر اعلیٰ کے پی کا برائے راست افغان حکمرانوں سے رابطہ کرا سکیں جس کا اظہار وزیر اعلیٰ کے پی خود بھی کر چکے ہیں مگر ملک کے آئین کے مطابق ملک کا کوئی صوبہ ملک کے خارجی اور دفاعی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا اور اس کا مکمل اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے، جس کی پالیسیوں کی پی ٹی آئی سخت خلاف ہے اور مجبور ہے مگر پی ٹی آئی واضح کر چکی ہے کہ وہ آپریشن نہیں چاہتی۔
تجزیہ نگار اور حالات سے واقف کار حلقے یہ بات متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ افغانوں اور بھارتی فوجی افسروں کے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے مستند شواہد موجود ہیں جس پر متعدد بار افغان حکومت کی توجہ دلائی گئی مگر اس نے کچھ کیا ہے اور نہ ہی دہشت گردی میں ملوث پاکستانی طالبان کے خلاف کچھ کر رہا ہے جو افغانستان سے پاکستانی علاقوں میں مسلسل دہشت گردی کر رہے ہیں جب کہ پاکستان40 سالوں سے لاکھوں افغانوں کی میزبانی کرتا آ رہا ہے اور افغان باشندوں کی پاکستان سے ان کی وطن واپسی کی باعزت کوشش کر رہا ہے۔
افغانستان سے ٹی ٹی پی کے پی اور بلوچستان میں مسلسل دہشت گردی کر رہی ہے اور افغان حکومت پاکستان کے بار بار مطالبات کے باوجود ان دہشت گردوں کو روک رہی ہے نہ پاکستان کے حوالے کر رہی ہے جس سے پاکستان کا زبردست جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے اور اپنے ملک میں ان علاقوں میں کارروائی کر رہا ہے جہاں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی میں ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کے ثبوت عالمی سطح پر دیے جا چکے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی کارروائی نئی نہیں بلکہ سالوں سے جاری ہے جس میں ان ملک دشمنوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔ واضح رہے کہ اپریل 2022 سے قبل جب ملک میں اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو اس وقت کے وزیر اعظم نے ٹی ٹی پی کے ان دہشت گردوں کو افغانستان سے کے پی آنے کی اجازت دی تھی جنھوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر لیے تھے جہاں سے وہ مسلسل دہشت گردی کر رہے ہیں اور ان کے خلاف ہی پاکستانی فورسز کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
فاٹا کا علاقہ پہلے وفاق کے کنٹرول میں تھا مگر بعض سیاستدانوں کی شدید مخالفت کے باوجود فاٹا کو کے پی میں ضم کر دیا گیا تھا جس کے بعد وہاں بھی دہشت گردی بڑھی جسے روکنے میں 12 سال سے قائم پی ٹی آئی حکومت مکمل ناکام اس لیے رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت خود انھیں واپس لائی تھی اور وفاق سے تعاون بھی نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کی کھلم کھلا حمایت اور آپریشن کی مخالفت کی جا رہی ہے اور بانی پی ٹی آئی نے حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی مخالفت کی ہے۔
پی ٹی آئی کی کے پی حکومت خود اس آپریشن کے خلاف ہے جس کی وجہ سے کے پی میں دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور وزیر اعلیٰ کے پی اس سلسلے میں متنازعہ بیانات دیتے آ رہے ہیں۔ ملک میں کے پی کی واحد حکومت ہے جو اپنے بانی کی ہدایت پر صوبائی سرکاری وسائل کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہو چکی ہے اور اب اپنے مذموم مقاصد کے لیے ہری پور میں ایک اور کے پی ہاؤس بنانے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ وہاں سے اسلام آباد پر موثر حملے کیے جا سکیں کیونکہ اب تک وفاق کے موثر اقدامات سے کی پی حکومت اسلام آباد پر چڑھائی کرنے پر مکمل ناکام رہی ہے۔
نیا کے پی ہاؤس پی ٹی آئی کے بانی کی مرضی سے ہی بنایا جائے گا بانی کا بس چلے تو وہ کے پی پر مستقل قبضہ کرلیں تاکہ وہاں ان کا اقتدار پکا ہو جائے اس لیے وہ اے این پی سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں اور اسی لیے کے پی میں آپریشن کی مخالفت کی جا رہی ہے اور سرکاری رکن اسمبلی سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ ہمیں ایندھن بنایا جا رہا ہے اور تیراہ میں بم بنانے والی فیکٹری میں دھماکے میں مرنے والے دہشت گردوں اور دیگر کے لیے وزیر اعلیٰ نے ایک ایک کروڑ روپے کی امداد کا فوری اعلان کرنے میں دیر نہیں کی اور پی ٹی آئی نے تیراہ واقع کا ذمے دار دہشت گردوں کو نہیں ٹھہرایا اور کسی سرکاری اعلان کا بھی انتظار نہیں کیا اور امن مارچ کا بھی اعلان کر دیا جو صرف دہشت گردی کی حمایت کے مترادف ہے۔
کے پی کی کسی حکومت نے پونے چار سالہ وفاقی حکومت میں تو کوئی لانگ مارچ نہیں کیا تھا مگر اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد گنڈاپور نے اپنے بانی کے لیے کے پی کے سرکاری وسائل کے ساتھ متعدد بار اسلام آباد پر چڑھائی کی مگر ہر بار ناکام رہے اور سیاسی دشمنی میں وہ ہر حد پار کر چکے ہیں ۔ اگر سندھ ایسا پی ٹی آئی حکومت میں کرتا تو وہاں کب کا گورنر راج لگا دیا جاتا جس کی دھمکی بھی متعدد بار دی گئی تھی۔ گورنر کے پی کوشش کر رہے ہیں مگر کچھ سیاستدان کے پی حکومت کی برطرفی نہیں چاہتے اور انھیں خوف ہے کہ اس سے پی ٹی آئی کو وفاق جیسا سیاسی فائدہ ہوگا جب کہ وفاق کی برداشت کی پالیسی اور عوام پر مہنگائی مسلسل بڑھانے سے وفاقی حکومت مشکلات کا شکار ہے۔ پنجاب، بلوچستان اور کے پی کی متعدد حکومتیں تبدیل ہوئیں مگر پی ٹی آئی کی مسلسل ملک دشمنی اور ناقابل برداشت رویے پر نہ جانے کیوں برداشت کا مظاہرہ جاری ہے۔